ایک ادیب یا لیکھکھ بنیادی طور پر خواب دیکھنے والا ہوتا ہے۔ وہ اپنے امید پرستانہ خوابوں سے اپنے لوگوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ وہ تسلی کے چند بول سے ان افراد میں جو حالات سے مایوس اور احساس شکست سے دوچار ہوتے ہیں، زندگی کی حرکت و حرارت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ گناہوں میں بڑا گناہ مایوسی ہے۔ اس رب العزت سے مایوسی جس نے نہایت پیار سے انسان کو اور اس کے رہنے سہنے کے لیے یہ کائنات خلق کی، جو کبھی انسان کو اکیلا، مایوس اور ملول نہیں چھوڑتا۔ بوجھ ڈالتا ہے تو فقط اتنا کہ جسے انسان باآسانی اٹھا سکے۔ پچھلے ستر بہتر برسوں میں یہ ملک سیاستدانوں، فوجی جرنیلوں، نوکر شاہی کے با اثر افسروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی چراہ گاہ بنا رہا ہے اور اگر سخت لب و لہجے میں کہوں تو یہ کہوں گا کہ اس ملک کو اس طرح لوٹا اور نچوڑا گیا ہے جیسے گدھ صحرا میں پڑی لاش کو نوچتے بھنبھوڑتے ہیں اور شکم سیر ہوتے ہیں۔ یہ بھی خداوند تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس کے باوجود ہمارا یہ پیارا وطن زندہ و سلامت موجود ہے، اس کے عوام مایوسی کے باوجود اس میں آج والی بہتری اور تبدیلی کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ مجھ جیسے بہت سے لکھنے والے ان کے امید پرستانہ خوابوں کی اسی تعبیر کی تصدیق کرتے رہے ہیں کہ اور کچھ روزمیری جان، فقط کچھ ہی روز، وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے جب سارے دکھ اور دلدر دُور ہو جائیں گے۔ امیری اور غریبی کی خلیج پاٹ دی جائے گی، عدل و انصاف کے بند دروازے کھل جائیں گے، رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری اور نمودونمائش کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے سب کو یکساں مواقع ملنے لگیں گے۔ تبدیلی کا یہ خفیف احساس ہر دل میں اور ہر ذہن میں تھا اور اب بھی ہے۔ اس قوم کے ساتھ مل کر اس کالم نگار نے بھی انقلاب اور تبدیلی کا خواب دیکھا اور اس بارے میں مسلسل لکھا۔ 1998ء میں جب یہ کالم نگار ’’نوائے وقت‘‘ سے وابستہ تھا تو اس نے اپنے کالم کا عنوان تک بدل کر ’’سحر قریب ہے‘‘ رکھ دیا۔ اس لیے کہ یہ وہی زمانہ ہے جب بہت سے سیاست دان اور بہت سے کالم نگار یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ ایک بڑے انقلاب کے لیے ملک میں اسٹیج تیار ہے اور کوئی وقت آنے والا ہے جب تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ انقلاب کی اولین علامت وہ ظلم و ستم ہوتا ہے جو عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ بھوک، ناداری، ظلم، نا انصافی، غربت و افلاس، بے بسی اور بے چارگی یہ سب چیزیں مل جل کر ایک ایسی فضا تیار کر دیتی ہیں جس میں انقلاب کا رستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں عمران خان نے تحریکِ انصاف کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی کا ڈول ڈالا اور تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ بیس بائیس برسوں کی جدوجہد کے بعد آخر کار انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر عوام نے لا بٹھایا۔ انقلاب کا خواب تو پورا نہ ہو سکا اور یہ بھی ٹھیک ہی ہوا کیوں کہ انقلاب جن ملکوں میں آیا ہے وہاں بیشتر ملکوں میں ایک ظالم کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے ظالم کو جگہ دے دی گئی اور انقلاب سے جو امیدیں وابستہ کی گئیں، پوری نہ ہو سکیں۔ تبدیلی بے شک آہستہ رو ہوتی ہے لیکن دیرپا اور دُور رس ہوتی ہے۔ ابھی ہمارا ملک اس تبدیلی کی راہ پر چل تو پڑا ہے لیکن منزل ابھی بہت دُور ہے۔ تبدیلی نظام میں اسی وقت آتی ہے جب ان دلوں اور ذہنوں میں آ جائے جو اس نظام کو چلانے والے ہوتے ہیں۔ جو فیصلے کرتے ہیں اور وہ بھی جو فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تبدیلی اخلاقی ہوتی ہے۔ جب وہ با اثر عناصر جو تبدیلی کا نعرہ بھی لگائیں اور اپنے لب و لہجے، اپنے انداز گفتگو اور اپنے خیالات و احساسات کے اعتبار سے اخلاقی معیارات پر پورا نہ اتریں۔ ان سے بھلا کیا توقع ہو سکتی ہے کہ وہ کوئی ہمہ گیر تبدیلی لائیں گے۔ میری مراد وفاقی حکومت کے ان وزیر شہیر سے ہے جو کئی جماعتیں بدل کر تحریک انصاف کے نفس ناطقہ بنے اور اب وہ قومی اسمبلی یا قومی پریس کے سامنے ایک ایسے لب و لہجے میں گفتگو یا تقریر کرتے ہیں جس پر ایک طالب علم مقرر کے اسلوب بیاں کا دھوکا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ’’وہ کہتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں این آر او، ہم کہتے ہیں نہ رو‘‘۔ یا یہ فرمانا کہ چین کے ساتھ مل کر ہمارے سائنس دان خلاء میں جائیں تو ہمارے اپوزیشن کے سیاست دانوں کو خلا میں لے جا کر چھوڑ دیا جائے۔ اس قسم کی نا سمجھی اور انڈر گریجوایٹ قسم کی بیان بازی کا سادہ سا مطلب ہے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ دوسرے لفظوں میں تبدیلی تو کیا آئے گی۔ ملک میں انتشار اور بد نظمی و افراتفری کی صورت حال پیدا ہو گی۔ اگر وفاقی وزیر اطلاعات اپنے لب و لہجے کو تبدیل نہیں کر سکتے اور ایک سنجیدہ، معقول اور باوقار انداز گفتگو اختیار نہیں کر سکتے تو وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ یہ منصب وہ کسی سنجیدہ رکن قومی اسمبلی کو دے دیں۔ یہی نہیں وزیر اعظم کو ایسے وزراء کے معاملے میں سخت گیر رویہ اختیار کرنا چاہیے جن کے جاگیردارانہ رویے کی وجہ سے حکومت کو عوام کے سامنے شرمسار ہونا پڑا ہو۔ انتخابات جیتنے کے لیے ان تمام عناصر کے لیے پارٹی کے دروازے کھول دینا جو کسی تبدیلی کے لیے نہیں، محض وزارتوں اور ذاتی مفادات کے لیے پارٹی میں شامل ہوئے اور حکومت میں آج کے بعد جن کی اصل حقیقت رفتہ رفتہ سامنے آتی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کالم نگار عمران خان اور ان کی پارٹی کی کارکردگی سے فی الحال مایوس تو نہیں ہوا کہ ابھی حکومت کو آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ لیکن تشویش ضرور ہے کہ اگر پارٹی اور حکومت کے وزراء کے لچھن یہی رہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے بجائے سولو فلائیٹ اڑانے کی کوشش کی گئی تو تبدیلی کا رستہ مسدود نہ بھی ہوا تو منزل اور دُور ہو جائے گی۔ ان ہی دنوں جب قوم تبدیلی کے خواب دیکھ رہی تھی، اس کالم نگار نے ’’اچھے دنوں کا‘‘ انتظار کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے نظم پیش خدمت ہے: کتنے خواب بُنے تھے میں نے جب بھی آنکھیں کُھلتی تھیں پڑے پڑے سوچا کرتا تھا ’’دن اب اچھے آئیں گے‘‘ جب بھی ہوائیں چلتی تھیں جب بھی بادل آتے تھے یہی سندیسہ لاتے تھے ’’دن اب اچھے آئیں گے‘‘ کتنی پرانی بات ہے یہ کتنا تشنہ خواب ہے یہ اب بھی آنکھیں کھلتی ہیں تو خالی خالی نظروں سے دُور دریچے سے تکتا ہوں میں بھی وہی ہوں وہی دریچہ، وہی ہوائیں اور بادل ہیں ایک تھکن ہے جسم و جاں میں ایک سوال تعاقب میں ہے جانے کتنے برسوں سے ’’دن کب اچھے آئیں گے؟‘‘