ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی شبِ تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی ہم کو جلنا ہے بہرطور سحر ہونے تک اک تماشہ ہی سہی ایک نظارہ ہی سہی میں برسوں سے ایک شخص کو دوڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میں دیکھ دیکھ کے تھک گیا ہوں وہ دوڑ دوڑ کر نہیں تھکا۔ اس کا یہ معمول ہے کہ وہ محلے سے دوڑ کر گزرتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی ہوتی ہے اور وہ پسینہ میں شرابور سیدھا سڑک پر نہیں بھاگتا بلکہ کوٹھیوں کے آگے لگے گھاس پر سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔ کبھی کبھی سڑک پر چھڑی بھی مارتا جاتا ہے کہ کوئی آوارہ کتا ہی کہیں چھپا نہ بیٹھا ہو۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ میں نے اسے کبھی بھی جمود یعنی ساکت حالت میں نہیں دیکھا۔ وہ جیسے سیارگانِ زمین میں سے ہے، ہر لمحہ متحرک، ’’چلنا چلنا مدام چلنا‘‘ مگر دوڑ کر۔ ڈاکٹر خضر یاسین نے سیر کرتے ہوئے اسے دیکھا تو پوچھنے لگے ’’شاہ صاحب! یہ شخص عجیب ہے؟‘‘ میں ان کی بات سمجھ گیا اور جواب میں کہا کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں یہ بھی کوئی بات ہے کہ بندہ بس بھاگتا ہی جائے اور ساری عمر اس عمل میں گزار دے۔ کبھی تو بندہ رک کر سوچ لے کہ آخر وہ کیا کر رہا ہے۔ میں نے کہا ’’آپ خضر ہیں آپ ہی اس کی رہنمائی کریں‘‘ ہم دیر تک ہنستے رہے۔ اچھی بات یہ کہ وہ گزرتے ہوئے سلام ضرور کہتا ہے۔ ہم بھی اس پر سلامتی بھیجتے ہیں۔ لاک ڈائون کے دنوں میں بھی اس کا معمول یہی رہا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک سینئر ادیب کا جملہ آ گیا کہنے لگے ’’انہیں ناگی لکھی جا رہا ہے، لکھا جا رہا ہے اور پتہ نہیں کب سے لکھی جا رہا ہے جبکہ زاہد ڈار پڑھی جا رہا ہے، پڑھی جا رہا ہے اور نہ جانے کیا پڑھی جا رہا ہے‘‘۔ بعض اوقات بندہ بے اختیار ہی ریسپانس دیتا ہے۔اختیار نہیں ہوتا: ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر ہم بھی چونک اٹھتے تھے اک نام سے پہلے پہلے معزز قارئین! میں نے ایک شخص کے سرپٹ دوڑنے کا ذکر بے سبب نہیں کیا۔ میرا مقصد ہے کہ انسان جتنا مرضی دوڑ لے آخر جانا کہاں ہے، زمین و آسمان کی حدوں سے تو کوئی کسی بھی صورت نہیں نکل سکتا۔ آپ سن کر حیران ہونگے کہ ایک زمانے میں جگر مراد آبادی نے دنیا کی تیزی سے گھبرا کر دوستوں سے مل کر ایک پروگرام ترتیب دیا کہ دنیا کو سلو ڈائون slow downکیا جائے کہ صورت حال یہ کہ سائنس نے سب میں ایک سرعت پیدا کر دی ہے۔ مادہ پرستی کی دوڑ لگ گئی ہے۔ انہوں نے اس تیزی کے خلاف ایک انجمن کہلا بنائی، یعنی کاہل سے۔ انجمن میں زیادہ لوگ تھے سو کاہل کی جمع کہلا ہی آنا تھا۔ اس انجمن کے عجیب و غریب قوانین و ضوابط تھے۔ ایک تو اس کی ممبر شپ فیس ایک گائو تکیہ تھی، کہ گھر سے ایک گائو تکیہ لائیں بعد اس کے ممبر بن جائیں۔ اس کے اجلاس لیٹ کر ہوتے تھے۔ بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کوئی ایمرجنسی ہو جاتی تو اجلاس برخاست کر کے معاملہ دیکھا جاتا۔ اس میں ایک عدد حقہ بھی تھا جس کی نالی سب کے استعمال میں تھی۔ ایک دن حقے کی چلم گری تو آگ لگ گئی لہٰذا اجلاس برخاست کر کے آگ بجھائی گئی۔ جگر مراد آبادی کا لازوال شعر یاد آ گیا: عقل وخرد نے دن یہ دکھائے گھٹ گئے دن بڑھ گئے سائے ان کی شاعری میں تو ضرب المثل بھی بنے مثلاً،’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘، یہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘،’’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ‘‘ اور ایسے کئی مصرعے۔ جگر مراد مراد آبادی اگر ہمارے دور میں ہوتے تو لاک ڈائون دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے کہ دیر آیاد درست آید ان کا خواب پورا ہوا آخر کورونا جیسے حقیر وائرس نے دنیا کی ساری تیزی اور سرعت نکال کر رکھ دی۔ ایک آدھا ملک نہیں دنیا کی اکثریت کے قدم رک گئے بلکہ اپنے گھروں میں نظر بند ہو کر رہ گئے۔ پہلی مرتبہ اتنے لوگ قرنطینہ کے لیے مجبور ہو گئے، ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار ہاتھ ملانے سے بھی گئے۔ ’’جنہا بناں اک پل نئیں سے لنگدا اوہ شکلاں یاد نہ رہیاں‘‘ ’’وقت کیسے رک سکے گا سوچتا رہتا تھا میں‘‘ جب رک گیا تو یہ بڑا بھیانک تھا، گزرتا نہیں تھا‘‘ سچ مچ ایسے ہی لگتا ہے کہ فطرت یا قدرت انسان کو احساس دلاتی رہتی ہے کہ ذرا رک جائو اور اپنی اوقات دیکھو، ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے‘‘ گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تو نے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا بات یہ ہے کہ زندگی کو دوڑ دھوپ کا نام ہے۔ ابھی ہمارے دوست شوکت شریف نے پوسٹ لگائی کہ ’’تقدیر پر تدبیر کا وار نہیں چلتا۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ تقدیر بدلنا بھی یقینا ایک عمل ہے مگر اس کے لیے ذوق یقین کا پیدا ہونا تو ضروری ہے مگر پہلی بات تو تدبیر کرنا ہے جو از بس ضروری ہے اور پھر اللہ پر توکل ہے۔ اقبال نے بھی تو کہا تھا ’’نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں، حرکت ہی زندگی ہے اور جمود موت ہے لیکن یہ تو طے کرنے کی بات ہے کہ یہ سعی با مقصد ہو وگرنہ وہی جو امجد صاحب نے کہا تھا ’’اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کر گھر جانا ہے‘‘ بات ہو رہی تھی کہ لاک ڈائون نے زندگی کی پھرتیاں ختم کر دیں اور لوگوں کو مقید کر دیا مگر یہ بھی تو زندگی کے کاررواں کو رواں رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ زندگی بہت پیاری ہے۔ بالکل محبوبہ کی طرح اسی لیے یہ سمجھ میں کم ہی آتی ہے۔ ہمارے دوست انجم یوسفی کہاں یاد آئے: پوچھتے ہو کیا مجھ سے زندگی کے بارے میں اجنبی بتائے کیا اجنبی کے بارے میں اس حوالے سے ایک متعلقہ شعر اور دیکھیے: دیکھ لینا کہ یہی وقت نہ ہو چلنے کا آپ کہتے ہیں تو پل بھر کو ٹھہر جاتے ہیں ساحر لدھیانوی بھی درمیان میں آئے کہ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں، پل دو پل مری کہانی ہے‘‘ جو بھی ہے سب نے زندگی تو کرنی ہے مگر یہ سوچ بڑی قیمتی ہو گی کہ ایسی زندگی جو آنے والی ہمیشہ کی زندگی کو سنوار دے۔ چلیے منیر نیازی کے شعر پر بات ختم کرتے ہیں: چاہتا ہوں میں خیر اس عمر کے انجام پر ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو