مظلوم کشمیریوں پر بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل اور بدترین مظالم کیخلاف ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ کشمیری شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صبح 10بجے ملک بھر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ ملک بھر میں دن کا آغاز مساجد میں کشمیریوں کے خلاف خصوصی دعائوں سے کیا گیا۔ 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں 5فروری کے دن کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منانے کا آغاز کیا۔ بعد ازاں 5فروری 1990ء کو قاضی حسین احمد کی اپیل پر باضابطہ طور پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ شروع ہوا ‘حالیہ 5فروری کا دن اس لیے اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 5اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ 6ماہ گزرنے کے باوجود کرفیو میں کسی قسم کی نرمی نہیں ہوئی جس نے کشمیری عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ اسی بنا پر گزشتہ روز پورا ملک کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر امڈ آیا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور کی بڑی شاہراہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں اہل پاکستان نے دل کھول کر کشمیریوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے20کلو میٹر طویل ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی۔ جبکہ پی آئی اے نے فضا میں کشمیری پرچم لہرا کر اہل کشمیر سے محبت کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مودی سرکاری پیچھے نہیں ہٹ سکتی ‘اگر آگے بڑھتی ہے تو بھارت کا مزید نقصان ہو گا کیونکہ کشمیری عوام نے گزشتہ 6ماہ میں تمام تر اشیاء کے روکے جانے کے باوجود استقامت اختیار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی بنا پر مقبوضہ وادی کے داخلی حالات کو بھانپ کر مودی سرکار کرفیو نہیں اٹھا رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت جب بھی وادی سے کرفیو اٹھائے گا تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت پوری وادی فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کشمیری عوام اگر گھروں سے نکل کر بازار کا رخ کرتے ہیں تو بھی انہیں قدم قدم پر شناخت کے نام پرہراساں کیا جاتا ہے۔ کشمیری عوام 1991ء کے قتل عام سے ڈرے ہوئے ہیں۔ اس لیے بزرگ کشمیری رہنمائوں نے عوام کو شدت کے ساتھ احتجاج سے روک رکھا ہے لیکن جیسے ہی حالات سازگار ہونگے تو کشمیری عوام مودی کے سیاہ قانون کے خلاف پھٹ پڑیں گے۔ اس وقت مودی نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر تقریباً پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جس بنا پر کشمیریوں کا آپس میں بھی رابطہ نہیں ہے لیکن آخر کب تک مودی سرکار اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے کشمیریوں کی آواز کو دبائے رکھے گی۔ کشمیری عوام درست کہتے ہیں خاموشی پر خوش نہ ہوں بلکہ ڈریں اس وقت سے جب گلی کوچے سے آزادی کاشور آٹھے گا۔ مودی افواج نے یوم یکجہتی کشمیر پر مظاہرے میں شامل تین نوجوانوں کو شہید کیا ہے جب کہ قابض فوج کا ایک فوجی ہلاک ہوا ہے۔ یوں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے لے کر اب تک 65کشمیری شہید ہو چکے ہیں لیکن کشمیریوں کے عزم و استقامت میں کسی قسم کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر یہ مسئلہ 71برس سے موجود ہے لیکن وہ حل کی جانب نہیں آ رہا۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ میں کشمیر کی تاریخ پر تصویری نمائش ہوئی جس میں اس کے تاریخی کردار کو اجاگر کیا گیا جبکہ برطانوی پارلیمنٹ نے بھی 5فروری کی مناسبت سے کمیٹی روم میں خصوصی اجلاس کا انعقاد کیا جس میں آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان اور پاکستانی ہائی کمشنر نے حاضرین کو مقبوضہ وادی کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔ جس کے بعد حاضرین نے کھل کر بھارتی اقدامات کی مذمت کی۔ مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لئے نت نئے نئے حربے استعمال کیے کبھی پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دیں تو کبھی جنگ مسلط کر کے 5دن میں جیتنے کے خواب دیکھ کر اپنے شدت پسندوں کے حوصلے بڑھائے۔ دوسری جانب پاکستان نے انتہائی صبروتحمل سے کام لے کر خطے کو غیر مستحکم ہونے سے بچانے کی تدابیر کیں۔ آج بھی پاکستان ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ عالمی برادری کو بھی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین بڑھتی جارحیت کے تدارک کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تا کہ خطے میں امن و امان قائم رہ سکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے جس انداز میں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے۔ اس سے ایک بار پھر پوری دنیا میں یہ مسئلہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی بھرپور لابنگ کے باوجود بلجیم،برطانیہ، امریکہ اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں کشمیریوں کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔ وزیر اعظم عمران خان اگر اسی طرح عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب مسئلہ کشمیر پر پوری دنیا پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ وزارت خارجہ پر پہلے سے بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روایتی طریقوں سے ہٹ کر نئے جوش و جذبے سے کشمیر کے موجودہ حالات کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔ اس سے کشمیریوں کی آزادی کی منزل مزیدقریب ہو جائے گی۔