دنیا بھر کے مفکرین، دانشور، معیشت دان اور اہلِ دانش اس سال، یعنی 2020ء کے آغاز سے ہی حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ جس کورونا وائرس کو گذشتہ صدی میں پھیلنے والی دیگر وبائوں، ایڈز، ایبولا، کانگو، سارس، برڈفلو اور سوائن فلو جیسی کوئی وبا تصور کر رہے تھے، یہ ان سے بالکل مختلف نکلی اور اس کی وسعت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وبائوں کے بارے میں سائنس دانوں کا عمومی تجزیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ مخصوص علاقوںسے شروع ہوتی ہیں اورجیسے ہی محدود علاقوں میں پھیلتی ہیں، ان کووہیں روکا جا سکتا ہے۔ بعض وبائیں تو مخصوص گروہوں یا خاص عادات والے افرادکے لیے خاص ہو کر رہ جاتی ہیں، جیسے ایڈز اپنے آغاز میں ہی جنسی بے راہ روی اور غیر فطری اختلاط سے پھیلتی تھی، اور آج تک اس کا بنیادی ماخذکسی ایڈز زدہ شخص سے جنسی اختلاط ہی ہے۔ لیکن جدید مغربی تہذیب کی اخلاقیات میں آزاد جنسی ماحول چونکہ ایک بنیادی قدر ہے اس لیے سیکولرلبرل پراپیگنڈہ مشینری نے ایڈزکی ثانوی (Secondary) وجوہات مثلاًایڈز زدہ شخص کی خون آلود سرنج، حجام کے استرے، یا ڈینٹل سرجن کے آلات کوبھی پھیلنے کی بنیادی (Primary) وجوہات یعنی جنسی اختلاط کے برابر بتاناشروع کر دیا، تا کہ جدید مغربی تہذیب کے قحبہ خانے سلامت رہیں اور لوگوں میںا پنے جیون ساتھی تک محدود ہنے کی اخلاقیات کو اہمیت حاصل نہ ہو سکے۔ اسی طرح دیگر وبائوں کو بھی مخصوص علاقوں اور مخصوص نسلوں کی بیماریاں بتایا گیا اور دنیا بھر کے طبی ماہرین اور صحت کے اداروں نے ان وبائوں کو ان علاقوں اور نسلوں تک پوری تگ و دو سے محدود کر دیا، جیسے افریقہ میں ’’ایبوـلا‘‘اور چین میں ’’سارس‘‘۔ لیکن آج کے کورونا کے وائرس کا میدانِ جنگ پورا کرّہ ارض ہے اور اس کارزار میں وہ ابھی تک فاتح کی حیثیت سے دندناتا پھررہا ہے۔ اس کے وار سے بچا توجا سکتا ہے لیکن اس کے وار کومکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ اس کی موت لانے کی صلاحیت کو کچھ دیر کے لیے کنُد تو کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ نمرود کے دماغ میں گھسے ہوئے اس مچھر کی طرح کہ نمرود کے سرکوجوتوں سے پیٹا جاتا تھاتو اسے سکون ملتا۔ اپنے دور کے عظیم طبیبوں نے نمرودسے کہہ دیا تھا کہ تمہیں اب اس مچھرکے ساتھ ہی گذارا کرنا ہے۔ آج پانچ ہزار سال بعد، کورونا کے بارے میںبھی ویسے ہی ٹرمپ جیسا طاقتور صدر، عالمی ادارۂ صحت کا سربراہ اور لیبارٹریوں میں دن رات ویکسین ایجاد کرنے میں مصروف سائنسدان بھی وہی بات کررہے ہیں جو نمرود کے طبیب اسے کہتے تھے،’’تمہیں اس کے ساتھ گذارا کرنا ہے‘‘،اور جدید مغرب زدہ، آزاد خیال مرعوب افراد کی زبان میں You Have To Live With It۔ چاروں جانب پھیلی بے بسی نے دنیا کے ہر سوچنے والے کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ دنیا بھر میں سنجیدہ تحریر، پرمغز گفتگو اور محنت طلب تحقیق کرنے والے صاحبانِ علم کے سامنے لاتعداد سوال کھڑے ہو چکے ہیں۔ ان سوالات کے لاتعداد جواب ہیں، لیکن جس طرح سائنس دان کورونا کاکوئی ایک علاج بتانے میں بے بس ہیں ویسے ہی یہ عالمی سطح کے مفکرین ان تمام سوالوں کے ممکنہ جوابات کی آگاہی سے عاری نظر آتے ہیں۔ جھنجلاہٹ انکی تحریروں اور تقریروں سے ظاہر ہے۔ وہ لاتعداد تبصرے کرتے ہیں، دور کی کوڑیاں ملاتے ہیں، مگر ایک بہت واضح فقرہ بولنے سے محروم ہیں۔ یہ فقرہ ایسا ہے کہ عقل پر بھروسہ انہیں ایسا کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ فقرہ’’ایمان بالغیب‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے یہ فقرہ ہم سادہ لوح مسلمان روز بولتے اور برتتے ہیںکہ ’’دیکھوپردۂ غیب سے کیا ظہور ہوتا ہے‘‘۔ جدید مغربی سیکولر علم اس فقرے سے نا آشنا ہے اوراس جدید علم کو آج اسی فقرے کا سامنا ہے۔ جدید دنیا کے ’’مفکرین‘‘ کو آج جن سوالات کا سامنا ہے، انہیں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے، کیمرج یونیورسٹی سے فلسفہ، تاریخ اور سیاسات میں سند یافتہ گارڈین (Guardian) اخبار کے کالم نگار سائمن ٹس ڈال (Simon Tisdall) نے اپنے 28 مارچ کے کالم میں یکجا کیا ہے۔ان سوالات کا نچوڑ یہ ہے کہ ’’یہ لمحہ ایسا ہے کہ تاریخ بدل رہی ہے‘‘۔ سب سے اہم اور جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس سے آنے والی تبدیلیوں سے دنیا مستقل طور پر بدل جائے گی، طاقت کا توازن کسی دوسرے سمت منتقل ہو جائے گا، اور کیا اکثر انسانوں اور ملکوں کے لیے زندگی اب ویسی نہیں رہے گی جیسی پہلے تھی۔ کورونا سے آنے والی بڑی تبدیلی کے بعد کیا دنیا مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی یا ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ ایسے سوالات کے جو جوابات مختلف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے معروضی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حوالے سے دئیے ہیں، انہیں کالم نگار نے اپنے کالم میں جمع کرنے کی کوشش ہے۔ یہ تمام جوابات خالصتاً محدود مادہ پرست تجزے کے عکاس ہیں۔ ایک ایسا تجزیہ کہ جو نظر آنے والی، محسوس ہونے والی اور عقل کے دائرے میں سمجھی جانے والی حقیقتوں کو سامنے رکھ کران کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ چونکہ جدید سیکولر علم اور تہذیب ’’روح‘‘ کی حقیقت سے آشنانہیں، اسی لیے تجزیہ صرف مادیت کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ پروفیسر ٹس ڈال نے اس مضمون میں اس عالمی خوف کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جو اس وقت پوری مغربی دنیا کے اذہان پر چھایا ہوا ہے۔ وہ خوف یہ ہے کہ کیا ہم پہلے جیسے مادر پدر آزاد، معاشی طور پر خوشحال اور عالمی سطح پر متحد رہ پائیں گے۔ اس خوف کو واضح کرنے کے لیے اس نے ہارورڈ(Harvard)یونیورسٹی میں عالمی تعلقات کے پروفیسر سٹیفن والٹ (Stephen Walt)کے ایک علمی اورتحقیقی مضمون میں درج شدہ تجزے کا حوالہ دے کر بتانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا اب کیسی ہو جائے گی۔ پروفیسر کے مطابق کورونا کے بعد ریاست کا ادارہ بہت مضبوط ہو جائے گا اور قومیتوں کا تعصب بہت بڑھ جائے گا۔ وائرس سے نمٹنے کے لئیے حکومتی ادارے ان دنوں بہت سی ایسی طاقتوںکا استعمال کررہے ہیں جو پہلے نہیں کرتے تھے، اور وبا ء کے خاتمے کے بعد وہ اس قوت اور طاقت سے کبھی دستبردار نہیں ہوںگے۔ طاقت کا مرکز مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ معاشی خوف سے سرحدیں مزید مضبوط کردی جائیں گی اور چھوٹی سے چھوٹی قوموں میں بھی اپنے وسائل پر قبضے کا رجحان بڑھے گا۔ گلوبل ویلج اور گلوبلائزیشن کا خواب چکنا چور ہو جائے گااور دنیا آمدورفت کے لیے کھلی نہیں رہے گی اور نہ ہی خوشحال اور اتنی آزاد۔ مضمون نگار نے ایسے پانچ بڑے تاریخی لمحات کا حوالہ دیا ہے جب دنیا مکمل طور پربدل گئی تھی۔ پہلا مرحلہ 1919-20ء میں ہونے والی ورسائی (Versailles) امن کانفرنس تھی جس کے نتیجے میں قومی ریاستیں وجود میں آئیں، خلافتِ عثمانیہ ٹوٹی، دوسرامرحلہ، 1930ء کے آس پاس کی معاشی کساد بازاری (Great Depression)، تیسرا مرحلہ 1942-43ء میں ولگا کے ساحلوں پر ہٹلر کی فوجوں کی شکست اور دوسری جنگِ عظیم کے بعدبدلتی ہوئی دنیا، چوتھا مرحلہ 1989ء میںدیوارِ برلن کا ٹوٹنا، سوویت یونین کا خاتمہ اور امریکی بالادستی، جبکہ پانچواں مرحلہ 9/11میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز۔تاریخ کے یہ پانچوں موڑایسے ہیںجو انسانوں نے خود پیدا کیے، خود ڈیزائن کیے اور ان سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے۔ ان میں جو کچھ ہوا، جیسابھی ہوا وہ سب ایک معلوم سکرپٹ کے مطابق تھا۔ لیکن 2020ء کی یکم جنوری کو دنیا پر دستک دینے والا کورونا وائرس نہ کسی انسانی ذہن کی اختراع ہے اور نہ ہی کوئی اسے اپنے سکرپٹ کے مطابق پھیلانے یا ختم کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ غالب اور مالکِ کائنات کے حکم کے مطابق غالب رہے گا۔ یہ دنیا بدل رہی ہے، لیکن اب اسے انسان اپنی مرضی سے نہیں بدل سکے گا۔ سید الانبیاء ؐ کی احادیث کی روشنی میں یہ دنیا کے انجام سے تھوڑاپہلے شروع ہونے والے آخری دور کاسرورق ہے۔ اس دورمیں موجود تمام نظامِ ہائے زندگی نے تباہ وبربادہونا ہے۔ جدید مغربی تہذیب کے کھنڈر پر خلافتِ علیٰ منہاج النبوہ کی عمارت نے ایک دن تعمیر ہو ناہے۔