گستاخی معاف دنیا کا خاتمہ نہیں ہو گیا۔ ابھی تک کچھ پردہ ظہور میں ہے۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کا حزب اختلاف کی صورت میں اتحاد ضرور رنگ لائے گا اور ان کے خیال میں موجودہ حکومت کی شکل میں ان پر جو عذاب نازل ہوا ہے نہ صرف وہ ٹل جائے گا بلکہ قوم کی زندگی میں خوشیوں کی بہار آئے گی، وہ شاید مایوس ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب یہ اتحاد بنا تھا تو بعض سیانے پوچھتے تھے یہ کیسے چل پائے گا۔ آگ اور پانی کا ملاپ کیسے ہو پائے گا۔ جواب دینے والے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے مثالیں دیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کون سے اتحاد کامیابی سے منزل پر پہنچے ہیں۔ بس یہ آخریبات قابل غور ہے۔ میں ذاتی طور پر 1977ء کے قومی اتحاد کو پاکستان کی تاریخ کا مضبوط ترین اتحاد سمجھتا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔لگتا تھا کہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے نام نہاد جمہوریت کی بساط الٹنے والی ہے۔ اس میں قیادت میں کیا کیا تصادم نہ تھے مگر ان نو جماعتوں کے اتحاد کا اثر اس قدر زیادہ تھا کہ آج بھی بلاول کو نو ستاروں کا اتحاد یاد آتا ہے اور وہ ا س کا اشارۃََکا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ مگر ہوا کیا‘ بھٹو پھانسی پا گیا۔ ملک میں جمہوریت نہ آئی۔اس کی جگہ طویل مارشل لاء نے لے لی۔ اب کی بار تو لوگ یہ پوچھتے تھے کہ اس بار جو اتحاد بنا ہے یہ ایک تو انتخابی اتحاد ہے ہی نہیں۔ دوسرے اس میں انتخابی اتحاد بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ سچ کہتے ہیں۔مثال کے دور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مفادات اس حوالے سے بالکل مختلف ہیں۔ پھر یہ اتحاد کیسے چل پائے گا۔ یہ مفادات انتخابی اور سیاسی بھی ہیں اور قیادت کے حوالے سے ذاتی بھی۔اس لئے پھبتی کسی جاتی تھی کہ یہ ہنڈیا ضرور چوراہے میں پھوٹے گی۔ پھر بھی بہت سے سادہ دل والے خلوص کے ساتھ دل و جان سے اپنی ہمدردیاں اس سے وابستہ کئے ہوئے تھے۔ اس لئے کہ اس بار تو ملک کا بیڑہ ہی غرق ہوا جا رہا تھا۔ معیشت ہی نہیں پورے نام پورے نظام کا پول کھل رہا تھا ۔ محتاط لفظوں میں یہ کہا جاتاہے کہ ہماری مقتدرہ نے (جس کا آسان اردو میں ترجمہ اسٹیبلشمنٹ ہے) کھل کر اپنی ہمدردیاں کبھی اس طرح ظاہر نہیں کی تھیں۔ بعض لوگ تو کہتے تھے کھل کر سامنے آ جائیں تو بہتر ہے۔ یہ سب درست مگر جس طرح اتحاد کی یہ ہنڈیاسرعام پھوٹی ہے۔ اس کی بالکل توقع نہ تھی۔ صرف یہ سوال تھا کہ ملک میں کوئی تحریک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی ہے۔ اس بار کی تحریک تو چلی ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ صاف کہا جا رہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔ اس بات کا اور کیا مطلب ہے۔ نواز شریف کے بیانیے کو چھوڑیے، باقی بھی یہ بات کہنے میں پیچھے نہیں تھے کہ ہمارا جھگڑا عمران خان سے نہیں ہے وہ تو سلیکٹڈ ہیں۔ ہم نہیں چاہتے ملک کے فیصلے کہیں اور ہوں سب کا بیانیہ یہی تھا۔ سب اس حوالے سے ایک سے ایک بڑھ کر بات کر رہا تھا۔ پوچھا جاتا تھا تو کیا ہماری مقتدرہ ہتھیار ڈال دے گی۔ سیاست میں ایسے ہوا نہیں کرتا۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جاتیں کہ ماضی میں ایسا ہوتا آیاہے۔ درست کہ تدبیر کرنے والے بہت کچھ کرتے ہیں مگر اللہ سب سے بڑا تدبیر کرنے والا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی دی جاتی تھی۔ہماری اعلیٰ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ نے جو جائزے مرتب کر رکھے تھے اس کے مطابق مشرقی پاکستان میں مجیب کی اتنی نشستیں نہیں تھیں۔وہ حساب کتاب لگائے بیٹھے تھے کہ یحییٰ خاں کی صدارت کیسے سلامت رہے گی۔ پھر کیا ہوا۔مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں جگہ ہوا بدل گئی۔ہم نادان پھر بھی نہ سمجھے اور اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم ہو سکے۔ دوسری طرف قدرے ایک نرم مثال دیتا ہوں۔غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیر اعظم بنایا گیا اور یہ طے تھا کہ الیکشن کے بعد وزیر اعظم ہوں گے۔ بھٹو کی پارٹی کے غور کے لئے سندھ کا وزیر اعظم ہی مناسب ہوتا‘ مگر ایسا نہ ہوا لوگ بہت ساری تاویلات کرتے ہیں مگر حقیقت سے نظریں چرانے کے لئے حقائق کو پوری سچائی سے بیان نہیں کرتے۔ اب بھی ایک نیا فارمولا آیا ہے کہ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے بعد یہ ہوا ہے کہ باقی جو جماعتیں رہ گئی ہیں‘ ان کے درمیان انتخابی اتحاد بن سکتا ہے میں اس بات پر خوش ہو جاتا مگر مجھے تو اس بات کا خواب دکھایا گیا تھا کہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی آنے والی ہے۔ گویا ہر کام آئین کے مطابق ہوا کرے گا۔ کوئی غیر مرئی قوتیں پاکستان کے جسد سیاست پر قابض و غالب نہیں ہو جائیں گی۔ یہ تو اب کم از کم فوری طور پر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فوری طور پر اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آخر ایک نہ ایک دن ایسا ہو گا۔ پاکستان کی بقا اس میں ہے کہ یہاں جمہوریت اپنی روح کے مطابق آگے بڑھے۔ درست کہا‘ مگر ذرا غور کر کے بتائیے کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ سنا ہے چرچل نے کہا تھا کہ برصغیر کے لوگوں کو جمہوریت نہ دو‘ابھی یہ اس کے قابل نہیں ہیں۔یہ ایسا دنگافساد برپا کریں گے کہ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہو جائے گا۔ آج بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ انگریز ہمیں کیا کیا دے گیا۔آبپاشی کا نظام‘ ریلوے‘ تربیت یافتہ افسر شاہی‘ایک منظم فوج‘ جانے کیا کیا دے گیا۔ اس سب کے ہوتے ہوئے ہم ملک نہ چلا سکے۔ میرے سامنے جب کوئی سامراج کے فیوض و برکات گنواتا ہے تو اندر سے میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ تاہم اس وقت کی جو صورت حال ہے وہ میرے گرم خون کو ٹھنڈا کر نے کے لئے کافی ہے۔ کل ایک محفل میں ایک دانشور چند ایسی دستاویز کا تذکرہ کر رہے تھے جو یہ بتاتی ہیں کہ بعض اہل فکر نے یہ بتا رکھا ہے کہ خطہ الگ ہو جاتا ہے تو اس کے عالمی سطح پر کیا فائدے ہوں گے۔یہ ایک بفر زون ہو گی۔ پھر ایک لمبی بچت شروع ہو گئی کہ اس وقت سامراجیوں کی ہمارے کن کن اثاثوں پر نظر ہے اور ان کی نگاہیں ہماری کن کن چیزوں پر لگی ہوئی ہے۔ کشمیر کے بارے میں تو اب کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ ہم گویا صرف باتوں کی حد تک اس کا تذکرہ کریں گے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں اور بہت سی باتیں ہیں یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمارے جن اثاثوں کو خطرے میں سمجھا جاتا ہے ان میں سرفہرست بھی اور حتمی بھی ہمارے جوہری اثاثے ہیں جن پر غیروں کی نظریں ہیں۔سی پیک کے دنوں میں میں کہا کرتا تھا ہم تاریخ کے درست رخ پر کھڑے ہیں، اب کہنے دیجیے ہیں تاریخ کے الٹ رخ پر لاکھڑا کیا گیا ہے۔ نواز شریف کے جانے کی ایک وجہ یہ تھی اور عمران خان آنے کے بعد سی پیک کا یوں ایک طرح سے ۔ پیک ہو جانا اور آئی ایم ایف کا آن بیٹھنا بے معنی نہیں ہے، بتائیے کسی میں اتنی سکت ہے کسی ادارے میں بھی کہ وہ اس صورت حال کو درست کر سکے۔ایسا ہو جائے تو میں جمہوریت کو بھول جائوں گا اور اس کے پائوں کی مٹی کو آنکھوں سے لگائوں گا جو مجھے میرے منزل دلا دے۔ ہے نہ بدقسمتی ہم نے ایٹم بم بنایا کہ اپنا دفاع مضبوط کر سکیں اور اب اس کوشش میں کہ کسی طرح اپنے ایٹم بم کا دفاع کر سکیں گویا اسے بچا سکیں۔اسی لئے ملک کے کسی بھی ادارے کے خلاف بات کرتے ہوئے زبان گنگ ہو جاتی ہے۔اللہ تو سب سے بڑا تدبیر کرنے والا ہے مگر اس کی اس زمین پر اور بہت سے تدبیر کرنے والے بھی ہیں جو ہم سے بہتر تدبیر کر رہے ہیں اور یہ سب تدبیریں ہمارے خلاف جا رہی ہیں۔