دنیا وہی ہے ۔ کائنات بھی وہی ہے جو ہزاروں اور لاکھوں سال سے موجود ہے۔ اس کو بدلتا دیکھنے والی آنکھ اور شعور کس چیز کو تبدیلی سمجھتے ہیں اس کا انحصار معاشرے کی عمومی سوچ پر ہے۔ کسی ایک صاحب دل کی آنکھ اورتجزیہ بسا اوقات اپنے پورے عہد کا شعور بن کر سامنے آتا ہے یا پھر پورا معاشرہ’’موت کا منظر‘‘ کا اسیر ہو سکتا ہے۔ مستقبل کی جنگوں اور قوم کی نشاۃ ثانیہ پر پیشگوئیاں کی جاتی ہیں۔ سیلاب آنا، خوفناک جنگیں، کسی عظیم بادشاہ کا عہد اقتدار، کسی خاص قوم کا زوال یا عروج، یہ سب پرانی پیشگوئیوں میں بیان ہوتے رہتے ہیں۔ ناسٹراڈیمس کی جن پیشگوئیوں کو سچ کہا جا رہا ہے ان میں لیڈی ڈائنا کی موت، ہٹلر اور نپولین کا حکمران بننا۔ ایٹم بم کی ایجاد، دوسری جنگ عظیم، نائن الیون، جے ایف کینڈی اور راجیوگاندھی کا قتل اور ڈونلڈ ٹرمپ کا حکمران بننا ہے۔ معلوم نہیں یہ پیشگوئیاں تھیں یا نہیں مگر کہا یہی جاتا ہے۔ عہد حاضر کا معاشرہ مادے کی حالت بدل کر اسے ترقی کا نام دیتا ہے۔ جس ملک کے پاس ٹھوس کو مائع، مائع کو گیس یا گیس کو مائع اور ٹھوس میں بدلنے کی وافر ٹیکنالوجی ہے وہ صنعتی ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگلے دس برس میں دنیا خلائی کان کنی کی دوڑ میں شامل ہونے والی ہے۔ وہ ملک جو خلا میں جا رہے ہیں وہ سب ہزاروں اور لاکھوں اجرام فلکی پر کھدائی کرکے قیمتی دھاتیں اور پینے کے قابل پانی زمین پر لائیں گے۔ کھربوں ڈالر کی نئی تجارتی منڈیاں قائم ہوں گی۔ لاء ،ایم بی اے ، آئی ٹی اور فنانس کے بعد نوجوانوں کی بھیڑ اب اس نئی منڈی کی ضرورت کے مطابق تعلیم حاصل کرے گی۔ سائل سائنسز، میٹلرجی اور سپیس سائنسز میں داخلے بڑھ جائیں گے۔ انسانی رویوں، ریاستوں کے ڈھانچے اور تعمیراتی امور کو عموماً مستقبل کے تجزیوں یا پیشگوئیوں سے خارج رکھا جاتا ہے۔ پہلے تجزیہ کی تعریف: ایسے نتائج جو کسی معاملے سے متعلق حقائق کی تفصیلی پڑتال کے بعد سائنسی طرز فکر کے تحت حاصل ہوں تجزیہ کہلاتے ہیں۔ پیش گوئی: مستقبل سے متعلق ایسی خبر جس کی بنیاد انسانی حس کی طاقت اور قوت متخیلہ سے تشکیل دی گئی ہو۔ پیشگوئی کی بنیاد سائنسی نہیں ہوتی۔ بہرحال بتایا جا رہا ہے کہ اگلے دوسو سال میں انسان کسی بڑی جنگ میں الجھ جائیں گے۔ اس جنگ کے نتیجے میں اکثر عمارتیں ملیامیٹ ہو جائیں گی۔ درخت کہیں کہیں دکھائی دیں گے۔ شہروں میں بڑے درخت ختم ہو جائیں گے۔ مضبوط میٹریل والی نئی سربفلک عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ کھیت کئی منزلہ ہوں گے اور ان کی مینجمنٹ بالکل لیبارٹریوں کی طرح ہو جائے گی۔ مصنوعی ذہانت کو انسان کے مستقبل میں اہم حیثیت مل رہی ہے۔ کلون ٹیکنالوجی کو مویشیوں کی افزائش تک محدود کرنے پر اتفاق کے بعد انسان نے مصنوعی ذہانت پر کام تیز کر دیا ہے۔ سمارٹ فون میں اس کی معمولی سی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ نوٹ کیجئے گا۔ آپ کا فون چند دنوں میں ان نمبروں کو ترجیحی فہرست میں شامل کر لے گا جو آپ کے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ فیس بک کے فیچرز آپ کے ذوق کے مطابق خود بخود ترتیب پا جاتے ہیں۔ انسانوں نے سلی کون سے بنے ایسے بدن تیار کر لئے ہیں جو چھونے پر بالکل جیتے جاگتے انسانوں جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ ان جسموں میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی لگائی جا رہی ہے۔ مستقبل کا نقشہ کھینچیں تو ہر جگہ ایسے سلی کون سے بنے روبوٹ چلتے پھرتے دکھائی دیں گے۔ یہ روبوٹ بیڈروم میں پہنچ چکے ہیں۔ انسان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہو گا۔ دنیا مصنوعی سی دکھائی دے گی کیونکہ دنیا کی رونق سمجھا جانے والا انسان اپنی محنت مشینوں کے حوالے کر چکا ہو گا ۔ نظام انصاف میں اس ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کرنا پڑے گی۔ ایسے روبوٹ بنانے پر کام شروع ہو چکا ہے جو کسی معاملے پر دلائل سننے کے بعد اس کا قانون کے مطابق فیصلہ دینے کی صلاحیت کے مالک ہوں گے۔ ان کے فیصلوں پر اثرانداز ہونا آسان نہیں ہو گا، وکیلوں اور ججوں کی کرپشن کی کہانیاں ختم ہو جائیں گی۔ انصاف ملنے میں تاخیر نہیں ہو سکے گی۔ ممکن ہے ایسے روبوٹ جج کسی نیٹ ورک کے ذریعے سٹاک مارکیٹ، بنکوں سے قرضوں کے معاملات، پولیس ریکارڈ، ریونیو ریکارڈ اور شناختی ریکارڈ سے جڑے ہوں۔ جیسے ہی کوئی معاملہ سامنے آئے روبوٹ جج کے سامنے متعلقہ ریکارڈ خودکار طریقے سے پہنچ جائے۔ پاکستان کے مستقبل کی ایک منفی اور دل دہلا دینے والی تصویر غلام عباس کے افسانے ’’دھنک‘‘ میں چالیس پچاس سال پہلے پیش کی گئی۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ پاکستان بالکل اسی سمت آگے بڑھ رہا ہے۔ شعور اور روشنی کا کوئی بھی نام رکھ لیں۔ اس کے نظریات کو کسی عنوان سے پکاریں آپ کو فوری طور پر سماج کا ولن بنا کر پیش کیا جانے لگے گا۔ اگر آپ خوش قسمت نہیں تو کوئی بھی سرراہ آپ کو شیطان قرار دے کر آپ کی جان لے سکتا ہے۔ ہمارے سامنے ابوالکلام آزاد کی وہ پیشگوئی ہے کہ پاکستان تین عشرے سے پہلے ٹوٹ جائے گا۔ آزاد ہوئے چوبیس سال ہوئے تھے کہ سقوط مشرقی پاکستان ہو گیا۔ ہم نے ہر حکمران اور اس کے حواریوں کے دعوے اور پیشگوئیاں سنیں کہ پاکستان پیرس کا ہم پلہ بنا دیا جائے گا۔ کسی نے کہا پولیس عوام کی خدمت گار ہو گی، کسی نے کہا علاج کی سہولیات سب کے لئے مساوی ہوں گی۔ کسی نے کہا بلاامتیاز احتساب ہو گا۔ کسی نے وعدوں کی کتاب میں لکھا کہ پاکستان میں توانائی کی کمی کے باعث چھائے اندھیرے دور کر دیں گے۔ یہاں تو ہر صرف جنت کے منظر تخلیق کرنے کے دعوے ہیں۔ ہم نے اعتبار کن کی زبان پر کیا۔ وہ جو بھی تھے اور ہیں، سب نے مل کر ہمارے مستقبل سے کھلواڑ کیا۔ تجزیہ اور پیشگوئیوں کی صلاحیت ہم سیاست، سیاستدانوں اور طاقتوروں کے مستقبل پر خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارا ادراک اور تجزیہ پاکستان کو ابھی اپنے شعور کا حصہ بنانے کے لائق نہیں ہوا۔ ہم باشعور روبوٹ کیا بناتے پوری قوم مجرموں اور سماجی و اخلاقی تخریب کاروں کی نسل در نسل غلامی پر شاد ہے۔