سطحیت ، کم علمی اور آخری درجے کی بد ذوقی ۔ خدا کے لیے ،خدا کے لیے ! بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں 1990ء میںسندھ اور پنجاب کے میدانوں پہ خزاں کا راج تھا ۔بھٹو مخالف اسلامی جمہوری اتحاد کے دفاتر میں مگر یہ بہار کا موسم تھا۔ آتشِ گل سے دہک رہا تھا چمن تمام ۔صدر کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب نواب زادہ نصر اللہ خاں تھے لیکن صدر کو غیر معمولی اختیارات بخشنے والی آٹھویں ترمیم پر سمجھوتہ کرنے سے بزرگ سیاستدان نے انکار کر دیا۔ کہا کہ اپنے اعلانیہ موقف سے وہ انحراف نہیں کر سکتے، نظر چنانچہ غلام اسحٰق خاں پہ جا ٹہری۔با اصول وہ بھی تھے مگر حقیقت پسند ۔ جانتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ایوانِ اقتدار میں آسودہ کوئی نہیں رہتا ۔ جماعتِ اسلامی کے ایک رہنما سے ملاقات ہوئی ، بعد ازاں جو تحریکِ انصاف کو پیارے ہوئے اور کانِ نمک میں نمک ہو گئے۔ شام بتانے کی غرض سے گپ شپ کے لیے گیاتھا ۔انہیںلیکن ایک اجلاس میں شریک ہو نا تھا۔ اچھرہ کے انتخابی حلقے کی حکمتِ عملی مرتب کرنے کے لیے ۔ اندیشے امید کے ہنگام بھی ہوتے ہیں ۔اس روز بھی ایک اندیشہ کارفرما تھا۔ لاہور کی دیواروں پر پوسٹر چسپاں تھے ’’یا اللہ یا رسولؐ، بے نظیر بے قصور ‘‘۔ کسی نے کہا کہ ووٹروں کی نفسیات پر یہ پیغام اثر اندازہوسکتاہے ۔ ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘‘۔ لفظ چبائے بغیر ناچیز نے کہا ۔ احمق ترین لوگ وہ ہوتے ہیں ، کمزور موقف کے باوجود جو اللہ کو گواہ بنائیں ۔ اللہ وہ ہے ، جس نے انسانوں کو عقل اور یادداشت عطا کی ۔ انسانوں کو حافظہ اس نے بخشا ہے اور کوئی چیز اسے بھولتی نہیں ۔ قرآنِ کریم کی ایک آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب بھولنے والا نہیں ۔ امام شافعیؒ نے کہا تھا : یہ آیت ظالموں کے لیے تیر اور مظلوموں کے لیے پناہ گاہ ہے ۔ کس بے دردی کے ساتھ بعض اوقات ،سطحی بے علم اور بہانہ جو مذہبی لوگ مالک کا نام استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کل یہ بات اس وقت یاد آئی ، جب 92نیوز کے پروگرام مقابل میں شہباز شریف کا ایک کلپ دکھایا گیا ،’’الحمد للہ ‘‘ سے آغاز کر کے ’’انشاء اللہ‘‘ پر وہ اختتام کرتے ہیں ۔ دعویٰ ان کا یہ تھا کہ برطانوی اخبار ڈیلی میل پر مقدمہ کر کے پاکستانی قوم کی عزت وہ بحال کردیں گے ۔ دامن ان کا پاک ہے اور اخبار نے جھوٹے الزام لگائے ہیں ۔ تین ماہ بیتنے کو آئے ، مقدمے کا نام و نشان تک نہیں ۔اپنے موقف پر اصرار کے لیے منگل کے دن رپورٹر ڈیوڈ روز نے ایک ٹویٹ جاری کیا:بہت سے پاکستانی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہباز شریف کیا مقدمہ دائر کرنے والے ہیں ؟ میرا جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں ۔ ابھی تک اس سلسلے میں پہلا قدم بھی انہوں نے اٹھایا نہیں ۔ جاوید چوہدری کے پروگرام ’’کل تک ‘‘ میں حسین نواز نے جب پارک لین فلیٹس کی ملکیت کا اعتراف کیا تو بھی ’’الحمدللہ ‘‘کی تکرار کی تھی ۔اس سے پہلے ثنا بچہ کے پروگرام ’’لیکن ‘‘میں کمال معصومیت سے محترمہ مریم نواز کہہ چکی تھیں کہ لندن تو کیا ، پاکستان میں بھی ان کی کوئی جائیداد نہیں ۔بھول جاتی ہے ، دھڑے بندی کی نفسیات میں مبتلا یہ قوم اکثر بھول جاتی ہے ۔ تین چیزوں پہ بہت تعجب ہوتاہے ۔ ایک تو یہ کہ سیاسی مقاصد کے لیے کس بے باکی سے شریف خاندان اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام استعمال کرتاہے ۔ کم از کم اور نواز شریف اور ان کے بچوں کی حد تک کہا جا سکتاہے کہ دن میں پانچ بار اللہ کے حضور وہ جھکتے ہیں ۔ جدہ میں شہباز شریف کو بھی باجماعت نمازیں پڑھتے دیکھا ۔ عجیب لوگ ہیں ، عجیب لوگ ۔ کاروبار اور سیاست پہ اخلاقی اقدا ر کاسایہ تک پڑنے نہیں دیتے مگر دعا ،مگر درود ،مگر ذکرِ پروردگارِ عالم ۔عمران خان اپنے ہر خطاب کا آغاز ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ سے کرتے ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ انحصار کس کس پر ہے ۔الیکشن میں امیدواروں کو ٹکٹ بھی خود جاری نہ کر سکے ۔ توکل اور تقویٰ کیا ۔ مشکل یہ ہے کہ برگزیدگی کے احساس میں آدمی مبتلا ہو جائے تو چھٹکارا سہل نہیں ہوتا ۔ اہلِ علم کی صحبت درکار ہوتی ہے اور خود سے لڑنا ہوتاہے ۔ جس کی مٹی خود پسندی میں گندھی ہو، اسے یہ توفیق کہاں ، رہائی کہاں ۔ ایک ہمارے ایاز امیر ہیں ، جن کا حسنِ ظن یہ ہے کہ اب عمران خاں عالمی کپ اور شوکت خانم ایسے معجزے کر دکھائیں گے ۔ ان کے حامیوں سمیت اور کوئی ایک بھی نہیں جو یہ امید رکھتا ہو۔ ان کے وزرا اور پارٹی عہدیداروں سے بات ہوتی رہتی ہے ، سب کے سب دل گرفتہ، سب کے سب مایوس ۔ سرگرداں ہیں ، لیڈر اور پیروکار سب سرگرداں ۔بھیڑیں تو رہیں ایک طرف،چرواہے کو بھی راستہ معلوم نہیں ۔ تاریخ کے عظیم ترین فاتحین میں سے ایک امیر تیمور گورگانی نے کہا تھا: مر دکے سامنے صرف ایک راستہ ہوتاہے ۔ جس کے سامنے بہت سے راستے ہوں ، اس کے لیے مراد کہاں اور منزل کہاں ۔ شریف خاندان اور عمران ہی کا ذکر کیا، ، 2008ء میں زرداری صاحب نے حکومت سنبھالی تو فرمایا کرتے کہ ان کا قافلہ حسینی قافلہ ہے ۔ اس پر ناچیز نے انہیں پیغام بھیجا کہ براہِ کرم اس دعوے سے وہ دستبردار ہوں ۔ کسی بھی مکتبِ فکر کے ماننے والے ہوں ، ہم سب حسینؓ کے ماننے والے بھی ہیں ۔ حسینؓ کا منکر صرف وہ ہو سکتاہے ، جس کا دل پتھر اور آنکھیں تعصب سے اندھی کر دی گئی ہوں ۔ وہ لوگ جو ’’خلافتِ معاویہ و یزید ‘‘ جیسی کتابیں لکھتے ہیں ۔ دو اور چیزوں پر بھی ہمیشہ حیرت رہے گی ۔ ایک یہ کہ عمران خاں ریاستِ مدینہ کے قیام کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ چودہ سو سال پر پھیلی مسلم تاریخ میں جناب عمر بن عبد العزیز ؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ سمیت کبھی کسی حکمران نے یہ دعویٰ نہ کیا، پوری امت جن پر متفق ہو گئی تھی ۔ صلاح الدین وہ ہے ، مغرب آج بھی جس کی اخلاقی عظمت کے گیت گاتا ہے ۔ سیدنا عمر بن عبد العزیزؒکی وفات پر قیصرِ روم نے کہا تھا ’’بادشاہ نہیں ، وہ ایک راہب تھا ، دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی مگر آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف دیکھا نہیں ‘‘ریاستِ مدینہ محمدﷺ سے تھی ، خاص طور پر تربیت کردہ چار پانچ ہزار اہلِ علم سے ،بھٹیوں میں پگھلا کر جو صیقل کر دیے گئے تھے ۔ان کے بعد سیدنا ابو بکرصدیقؓ ،سیدنا فاروقِ اعظمؓ ، جنابِ عثمان غنیؓ اور امیرالمومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے، سیدنا امام حسنؓ سے ۔ خود سرکارؐ کا فرمان یہ ہے : میرا زمانہ ، پھر اس سے جڑا ہوا ، پھر اس سے جڑا ہوا ۔ اس کے بعد امّت قرآنِ کریم اور سیرتِ رسولؐ سے بے نیاز ہو تی گئی ۔ اب دعوے ہیں اور محض دعوے۔ کہیں کہیں کوئی ہے ، امّت مگرآقاؐ کی سنت پر نہیں وگرنہ پامال و پسپا نہ ہوتی ۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے ’’و انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ سب سے زیادہ حیرت اس قانون پر ہے ، جس میں عوامی نمائندوں سے ’’صادق‘‘ اور ’’امین ‘‘ ہونے کی توقع کی جاتی ہے ۔ پوری انسانی تاریخ میں ابو القاسمﷺ کے سوا کبھی یہ اصطلاح کسی شخص کے لیے برتی نہ گئی ، سبحان اللہ اب ہم برتتے ہیں ۔ سطحیت ، کم علمی اور آخری درجے کی بد ذوقی ۔ خدا کے لیے ،خدا کے لیے ! بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دی