اپنی غلطی کا اعتراف، کتنی مصیبتوں سے بچا لے جاتا ہے۔ نہ بات کی پَچ کرنا پڑتی ہے اور نہ تاویلیں ہی گھڑنے کی نوبت آتی ہے۔ لیکن یہی ایک کام، کتنا مشکل بھی ہے! کسی اْستاد کا، خوب حسب ِحال شعر ہے مار ڈالا ہم کو اس کم بخت نے/نفس ِامّارہ، مگر مرتا نہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے، جن لوگ کے پیٹ میں مروڑ اْٹھ رہے ہیں اور بے کَل ہوئے جا رہے ہیں، انہیں کیا کہا جائے؟ کج فکری ہے یا پیٹ کی مار، ہے بہرحال عبرت ناک! اسرائیلیوں کی دست بْرد سے، یروشلم کا نواحی، کوئی فلسطینی علاقہ نہیں بچا۔ ایک ایسی ہی، نہایت قدیم بستی کا وجود، سخت خطرے میں ہے۔ مگر اس داستان سے پہلے، کچھ ذکر ِخیر، حضرت ِمسیح علیہ السلام کا۔ جن انبیاء کا، فارسی اور اْردو کے شاعروں نے، بہت ذکر کیا ہے، ان میں حضرت عیسی علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ مثلاً، حافظ کہتے ہیں فیض روح القدس، اَر باز مدد فرماید دیگران ہم بکنند انچہ مسیحا می کرد یعنی، روح القدس کی یاوری ہو، تو کار ِمسیحا دوسرے بھی کر دکھائیں۔ حالانکہ، اصل نکتہ ہی یہ ہے کہ روح القدس کا فیض، حضرت عیسی علیہ السلام ہی کو کیوں پہنچا! یہ بھی کہ ع نہ ہر کہ سر بتراشد، قلندری داند (صرف سر مْنڈا لینے سے، آدمی قلندر نہیں ہو جاتا) یروشلم کا شہر ِقدیم، دو پہاڑوں کے بیچ آباد ہے۔ یعنی جبل الزیتون اور جبل الصیحون۔ جبل الزیتون کیا ہے؟ اس کی بابت، کتاب ِمقدس میں آیا ہے۔ ‘‘پھر وہ(عیسیٰ علیہ السلام( حسب ِمعمول، زیتون کے پہاڑ کو چلا اور شاگرد، اس کے پیچھے ہو لیے۔ وہاں پہنچ کرآپ نے کہا۔ دْعا کرو کہ تم آزمائش میں کبھی نہ پڑو‘‘۔ جبل الزیتون کے قدموں میں، گیتسیمین کا باغ ہے۔ باغ میں زیتون کے، دو ایسے درخت پائے جاتے ہیں، جن کا حضرت کے ہاتھوں لگایا جانا مشہور ہے۔ اسے معجزہ ہی کہنا چاہیے کہ دو ہزار سال پرانے یہ درخت، آج بھی پھل دیتے ہیں۔ جو تقویم یا کیلنڈر، دنیا میں آج رائج ہے، وہ حضرت ِمسیح علیہ السلام کے سال ِپیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ ان کی ولادت سے چند سال پہلے تک، یعنی دو ہزار سال قبل، یروشلم کا بادشاہ ہیروڈ دا گریٹ تھا۔ عربی میں اسے، ہیرودس الکبیر کہتے ہیں۔ اس کے متعمد اور ایک معتبر کاہن نے جب خبر دی کہ ان دنوں، ایک بچہ ایسا پیدا ہونے والا ہے، جسے یہودیوں کا سردار ہونا ہے۔ تو یہ پیشین گوئی سْن کر، ہیرودس بدک گیا۔ فوراً، اس نے یہ حکم جاری کر دیا کہ جتنی ولادتیں ہو رہی ہیں، سب کی خبر رکھی جائے اور نوزائیدوں کو، آگ میں جلا کر مار دیا جائے۔ ایک وادی، اس شیطنت کے لیے منتخب کی گئی۔ یہ وادی ِمرگ، آج بھی "جَہَّنہ" کہلاتی ہے۔ اْدھر حضرت مریم علیہ السلام کو خواب میں اشارہ دے دیا گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں لے کر، مصر ہجرت کر جائیے۔ اپنے جگر گوشے کو لے کر، حضرت مریم راتوں رات، ہیرودس کی مملکت سے نکل گئیں۔ چند برس بعد، ہیرودس کا انتقال ہوا، تو ماں بیٹے کی واپسی اپنے وطن میں ہو گئی۔ روایت کے مطابق، حضرت عیسٰی علیہ السلام اس وقت چار سال کے تھے۔ بعض حکایتوں سے، مصر کے بجاے، ان کا ناصرہ کے شہر جانا پتا چلتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس پہ البتہ سب کا اتفاق ہے کہ ان کی پیدائش بیت اللحم میں ہوئی اور ہجرت کا واقعہ، ان کی بالکل طفولیت کا ہے۔موجودہ شہر ِقدیم کا چپہ چپہ، حضرت عیسٰی علیہ السلام کے قدوم ِمبارک سے شرف یاب ہوا ہے۔ سلوان کی دو ہزار پْرانی بستی، شہر ِقدیم سے میل سوا میل کے فاصلے پر ہے۔ بعض یہودیوں اور مسلمانوں کا اصرار ہے کہ مشرقی یروشلم کا یہ ٹکڑا، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں، شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں ایک قْدرتی چشمہ ایسا ہے، جس کی برکت اور تعریف، حدیث ِمبارکہ میں بھی آئی ہے۔ "چشمہء سلوان" اتنا قدیم ہے کہ بیسیوں داستانیں، اس سے وابستہ ہیں۔ ایک کے مطابق، ہر سال پندرہویں شعبان کو آب ِزمزم، شیریں اور زیادہ خوش ذائقہ ہو جاتا ہے۔ وہ یوں کہ سلوان کا پانی اس رات، آب ِزمزم میں آ ملتا ہے۔ اسی چشمے کی بدولت، قرون ِوسطٰی سے یہاں زراعت اور کھیتی باڑی ہوتی آئی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے، اسرائیلی یہودی آباد کار اس علاقے میں بھی گھْستے چلے جا رہے ہیں۔ بڑھتے بڑھتے یہ تعداد، اب چار سو خاندانوں سے بڑھ چکی ہے۔ چار سو خاندان، جو فلسطینیوں کے بیچ، اسرائیل کے جھنڈے لہرائے بیٹھے ہیں۔ ان کے مکانوں کے باہر، اسرائیل حکومت نے حفاظتی اہل کار تعینات کر رکھے ہیں۔ مقامی فلسطینیوں اور ان آباد کاروں کے مابین جھڑپیں، معمول کی بات ہیں۔ کچھ دن پہلے اسرائیلی حکام اور یہودی آباد کاروں کی سوسائٹی نے، سلوان کے نیچے ایک سرنگ کی تعمیر شروع کی ہے اور اسے سیدھا مسجد ِاقصٰی یا ٹیمپل مائونٹ تک پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔ فلسطینی عمائدین، چیخ رہے ہیں کہ یہ مسجد اقصیٰ کے مختلف حصوں کو تباہ کرنے کے اسرائیلی اصل منصوبے کا حصہ ہے۔ لیکن صدای بر ںخاست! موجودہ امریکی انتظامیہ، اسرائیل کی خاطر وہ کچھ کر گئی ہے، جو پچھلی کئی حکومتیں مل کر بھی نہ کر پائیں۔ یہودیوں کی خوشنودی یوں ہو رہی ہے کہ سلوان سے نکالی گئی اس زیر ِزمین سرنگ کا افتتاح، امریکن سفیر صاحب کرتے ہیں۔ یہ بھی سنیے کہ یہودیوں کے مْلک میں، سفیر بھی یہودی متعین کیے جاتے ہیں! کسی مثنوی نگار نے کہا ہے کیا لطف جو غیر پردہ کھولے/جادو وہ، جو سر پہ چڑھ کے بولے یہاں ساری دھاندلیاں، کھْلے خزانے ہو رہی ہیں اور جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے! ہمارے شاعر نے، انگریزوں کی لْوٹ مار اور در اندازیوں کا منظر یوں پیش کیا تھا جو گزرے گے ادھر سے، میرا اْجڑا گائوں دیکھو گے شکستہ ایک مسجد ہے، بغل میں گورا بارک ہے! فلسطینیوں کی حالت، اس سے بھی خستہ ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا، ان مظالم اور زیادتیوں پہ، مْہر ِتصدیق لگانے کے برابر ہے۔ اس کے لیے، کیا ہم تیار ہیں؟