دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا سر سے جمال یار کا سایہ نہیں گیا ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی میرے اختیار میں ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا تو جناب! دل پر کس کو اختیار ہے وہ بے بس ہے اگر کسی کے لیے بے قرار ہے۔ آپ کس کس پر قدغن لگائیں گے کہ فلاں ابن فلاں کو چھوڑ دو۔ آپ د ل کو تسخیر کرنے کا ہنر سیکھیں۔ وہی جو جگر نے کہا تھا جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ۔ لوگ تو حالات و واقعات کے باعث دل گرفتہ ہیں۔ کوئی دردمندی‘ کوئی چار سازی کوئی دل جوئی۔ آپ نے تو عوام کو چارہ بنا کر آئی ایم ایف کے بیل کے آگے ڈال دیا ہے اور لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے کئی ایشو کھڑے کردیئے ہیں۔ اپوزیشن کی زبان بندی تو ایک طرف ان کو اٹھا کر پس زنداں ڈال دیا۔ سب انگشت بدنداں میں کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی کہ دہن یوں کھلتے‘ پھر میرے ہاتھ پائوں چلنے لگے۔ جب میرے ہاتھ سے کنارہ گیا۔ جب بلی کی بھی جان پر آ جائے تو وہ شیر پر چھپٹ پڑتی ہے۔ سیاست بھی مذہبی روش پر چل نکلی کہ وہاں تو ایک دوسرے کے لیے تکفیری رویہ عام ہے اور اسی لیے کسی دل جلے نے کہا تھا کہ اگر سب فرقے سچ بولتے ہیں تو کوئی مسلمان نہیں رہتا ہے۔ ایسا ہی رویہ اب سیاست میں در آیا ہے کہ غدار کا لفظ عام ہو گیا۔ یقین کیجئے کہ اس لفظ سے دل دہلنے لگتا ہے کہ کوئی اپنے ملک کے خلاف سوچے تو یہ ذہن و دل کی موت ہے اور بے ضمیری ہے۔ آپ محرکات جانے بنا اور ان کا تدارک کئے بغیر کسی کے احتجاج کو انتہائی غلط تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے غدار کہہ کر اپنے ملک سے دشمنی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ جو مشیر کاظمی نے کہا تھا‘ تم نے روکے محبت کے خود راستے۔ اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں۔ کھول تو دوں میں راز محبت مگر تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں۔ ایک لمحے کے لیے سچے پاکستانی کی طرح سوچیے کہ یہ جو حالیہ مقدمہ جو شاہدرہ میں کسی بدررشید نامی آدمی نے درج کروایا ہے۔ اس بغاوت کے مقدمے میں نوازشریف سمیت 44 لیگی رہنمائوں کے خلاف رپٹ درج کروائی گئی ہے۔ اس نے عجب چاند چڑھایا ہے۔ ہنسی بھی آتی ہے کہ فٹ پاتھ پر چلنے والا بھی اس کارروائی کو سمجھتا ہے کہ یہاں تو چودھری ظہور الٰہی جیسے لوگوں پر بھی بھینس چوری کے مقدمے ہوئے مگر غداری کا معاملہ نہایت سنگین ہے۔ لطف کی بات یہ کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اس پر کہہ رہے ہیں کہ نامزد ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔ خود فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ وہ اس مقدمے سے لاعلم ہیں اورانہیں لگتا ہے کہ یہ کسی نے کارروائی ڈالی ہے۔ پھر اس پر شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا بنتا ہے کہ وہ بدررشید کو چھوڑیں اور ہمت کر کے یہ مقدمہ خود درج کروائیں۔ لگتا ہے ایف آئی آر درج کروانے والے کو اتنے ہی نام دیئے گئے تھے وگرنہ تو تعداد کافی بڑھ سکتی تھی۔ خدا کے لیے غداری کی تعداد اتنی نہ بڑھائیں کہ اس لفظ کے معنی ہی ختم ہو جائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ فوج نے لوگوں کا اعتماد بحال کیا اور ہم دوبارہ کچھ سانس لینے کے قابل ہوئے۔ اگر استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا غداری ٹھہرے گا تو پھر جاوید ہاشمی کا اعلان میں باغی ہوں کس کھاتے میں جائے گا۔ انصاف کا خون ہو گیا تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔ یہ صد فی صد درست ہے کہ نوازشریف نے ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچایا کہ دشمن کی زبان بولی۔ شاید انا‘ ردعمل یا کچھ بھی کہہ لیں مگر اس کا فیصلہ عوام بھی تو کریں گے۔ اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ فوج کی قربانیاں بے شمار ہیں اور ان کے فلاحی کام جو انہوں نے ہر برے وقت میں کئے بے مثال ہیں۔ وہ ہمارے ملک کا آہنی حصار ہے۔ اب ہم لمحہ موجود کی طرف آتے ہیں کہ جب اعجاز چودھری یہ فرماتے ہیں کہ اپوزیشن ملک کی موجودہ خوشحالی اور ترقی سے پریشان ہے تو تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ چودھری صاحب کچھ خدا کا خوف کریں لوگوں کے لیے جینا اجیرن ہوگیا ہے‘ بیروزگاری نے نئی نسل گمراہ کردی ہے۔ سرکاری ملازمین فاقوں کے اندیشوں میں ہیں۔ شاید اپوزیشن آپ کی نام نہاد ترقی اور خوشحالی پر یوں پریشان ہو کہ اب ملک کا کیا بنے گا۔ اب تو عدلیہ نے بھی پوچھا ہے کہ وہ بلین درخت کہاں ہیں۔ ہمیں تو ٹائیگر بھی نظر نہیں آتے۔ کرن بہاری نے کہا تھا: سچ گھٹے یا بڑھے وہ سچ نہ رہے جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں چلیے‘ اب ذرا دل لگی بھی ہو جائے کہ ابھی ابھی کراچی سے ریحانہ کنول نے ایک وڈیو اپ لوڈ کی ہے تو اسے دیکھ کر لطف آ گیا کہ عمران خان فرما رہے ہیں کہ ہمیں غریب اور کمزور علاقوں پر خرچ کرنا ہے۔ مثلاً ڈی جی خان‘ چونسہ۔ اب چونسہ پر ان کی سوئی اٹک گئی تب پتہ چلا کہ وہ تونسہ کی بات کر رہے ہیں تونسہ شریف۔ انہوں نے صرف تونسہ کہا شریف ساتھ نہیں لگایا کہ وہ شریف کو پسند نہیں کرتے۔ بہرحال چو نسہ کا ذکر ہمیں برا نہیں لگا کہ ہمیں بھی یہ آم بہت پسند ہے۔ کبھی کبھی یہ زبان کی پھسلن مزہ دے جاتی ہے۔ یہاں تو مٹھاس پیدا ہو گئی۔ یگانہ یاد آ گئے: بات ادھوری مگر اثر دونا اچھی لکنت زبان میں آئی یگانہ کا ذکر ہوا تو اس کی استادی یاد آ گئی کہ اس نے بھی غالب سے ’’متھا‘‘ لگایا ہوا تھا اور اس غالب دشمنی میں یہ فائدہ پہنچا نہ اینٹی غالب شہرت پائی۔ پھر تنگ آ کر ایک دن اس نے کہہ دیا: صلح کر لو یگانہ غالب سے تم بھی استاد وہ بھی اک استاد اب استادی سے راسخ عظیم آبادی یاد آ ئے: شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے راسخ استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا تو میرے پیارے قارئین! یوں ہم نے آپ کو دو تین پیارے سے شعر پڑھا دیئے میں خوش ہوتا ہوں کہ کتنے ہی ادیبوں شاعروں کا شکریہ موصول کرتا ہوں۔ اسی طرح میں نے شاعروں کی محفل میں میر کا ایک تازہ ترین شعر سنایا تو وہ چونک اٹھے۔ یعنی وہ شعر آج کا ہے: دیواریں تنی ہوئی کھڑی تھیں اندر سے مکان گر رہا تھا