امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوست شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے ساتھ اپنی حالیہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہیں شمالی کوریا کی سرزمین پر 20قدم چلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان تصاویر جن میں دونوں رہنمائوں میں سے کم از کم ایک تو آمر مطلق ہے ۔ دونوں رہنما مسکراتے ہوئے گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے۔یہ ملاقات بظاہر صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹویٹر پر کم جونگ کو ملاقات کی دعوت کے بعد ہوئی ہے۔ناقدین نے اسے خالص سیاسی تھیٹر کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے لیکن دیگر افراد کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کے لیے راستہ ہموار کر سکتی ہے۔دونوں رہنماؤوں نے سرحدی لائن پر مصافحہ کیا۔ٹی وی پر اس ملاقات کو براہ راست دکھایا گیا۔ مترجم نے مسٹر کم جانگ کے خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ ادا کیے جانے والے الفاظ کچھ یوں بیان کیے۔آپ کو دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ میں نے کبھی آپ سے اس جگہ ملاقات کی توقع نہیں کی تھی۔مسٹر ٹرمپ نے کہا ایک بڑا لمحہ… بہت بڑی پیش رفت ،مسٹر کم ریلیکس دکھائی دیے اور پھر صدر ٹرمپ کے ساتھ جنوبی کوریا میں داخل ہوئے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی جانب سے بدقسمت ماضی کو ختم کرنے کا اور نئے مستقبل کو شروع کرنے کی کوشش ہے۔ ناقدین ایک یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس ملاقات میں کوئی قابل قدر کامیابی نہ سہی کامیابی کی امید بھی پیدا ہوئی ہے؟ کیونکہ ماضی کی دو ملاقاتیں تو کسی قسم کی سیاسی عسکری یا معاشی پیش رفت کے بغیر ہی ختم ہو گئی تھیں۔ ان سوالات کے ہمیں گزشتہ ہفتے کے ٹرمپ کے ٹویٹ سے جواب مل گیا ہے جس سے آخری وقت تک ٹرمپ کی اپنی انتظامیہ بھی بے خبر تھی اور جو امریکہ کی شمالی کوریا کے بارے میں عدم جوہری پھیلائو کی پالیسی سے بھی متصادم ہے۔ 2018ء کی سنگا پور کی سمٹ کا اختتام ہتھیاروں سے پاک جزیرہ نمائے کوریا پر ہوا تھا جبکہ فروری میں ہونے والی ملاقات ڈرامائی انداز میں کم جونگ ان کے واک آئوٹ سے اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی۔ اب جاپان کے شہر اوساکا میں ہونے والی جی 20کانفرنس سے کچھ ہی ہفتے پہلے ٹرمپ کا شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنا اور غیر عسکری زون کی بات نے امریکی پالیسی سازوں کو شمالی کوریا کے حوالے سے جوہری صلاحیت کے منجمد کرنے پر کام پر مجبور کر دیا ہے۔ جس کے باعث پیانگ ینگ (Pyongyang) کو اپنے تمام جوہری ہتھیار جن کی تعداد 20سے 60کے درمیان بتائی جاتی ہے رکھنے کی اجازت ہو گی اور شمالی کوریا کی میزائل ٹیکنالوجی کی صلاحیت پر بھی کوئی قدغن نہیں ہو گی۔ در حقیقت ٹرمپ کے مشیر کم جونگ کی فروری میں کی جانے والی پیش کش پر کام کر رہے ہیں جس کو اس وقت صدر ٹرمپ نے مسترد کر دیا تھا اور ٹرمپ کا انکار ہی کم ان کے واک آئوٹ کی وجہ بنا تھا۔ کم ان نے امریکی پابندیوں کے خاتمے کی صورت میں ینگ بیانگ(Yong Byonc)کو جوہری تنصیبات سے دستبرداری کی پیشکش کی تھی۔ ٹرمپ کے مشیروں مائیک پومپیو اور جان بولٹن نے پیش کش مسترد کر دی تھی کیونکہ شمالی کوریا کے پاس ینگ بیانک کے علاوہ بھی متعدد جوہری تنصیبات ہیں۔ امریکی سفارت کاروں کو امید ہے کہ وہ کم ان کو ینگ بیانک کے ساتھ دیگر جوہری تنصیبات سے دستبرداری پر آمادہ کر لیں گے۔ لیکن شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ شمالی کوریا اپنی دیگر جوہری تنصیبات کو منجمد کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ ٹرمپ کے فوٹو سیشن نے پالیسی سازوں کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ ٹرمپ نے کم جونگ ان کی تعریف ایک ایسے وقت میں کی ہے جس شمالی کوریا کی مذاکراتی ٹیم کے کچھ اہلکاروں کو کم جونگ کی طرف سے حراست میں لینے اور سزا دینے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں جس میں فروری میں ہونے والی بات چیت کرنے والے اعلیٰ سطحی وفد کے لوگ بھی شامل ہیں۔اطلاعات کے مطابق سزا دیتے وقت کم ان نے یہ کہا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ سربراہ کون ہے۔ٹرمپ نے اپنے دوست سے ملاقات کے دوران جوہری پروگرام ختم کرنے، اسے منجمد کرنے یا کسی بھی قابل قبول حل کی بات نہیں کی ہے۔ اس ملاقات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی تمام تر توجہ غیر فوجی زون تک ہی محدود ہے۔ یہ تو صرف اقدام ہے ممکن ہے بہت اچھا بھی ثابت ہو جہاں تک آئندہ ہونے والی ملاقات کا تعلق ہے دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلے گا چلئے آج سے ہی سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لئے فی الوقت تو ٹرمپ اپنی تصاویر دیوار سے لٹکائیں ابھی تک تو سرکاری موقف بقول پومپیو کے یہی ہے کہ شمالی کوریا کو جوہری صلاحیت سے محروم کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے اور 2021ء تک شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں سے پاک ملک ہو گا۔ 2017ء میں جنوبی کوریا میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے جوہری صلاحیت منجمد کرنے کے آپشن کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک شمالی کوریا کے پاس جوہری صلاحیت موجود ہے وہ خطہ اور امریکہ کیلئے خطرہ رہے گا۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ واقعی امریکہ کو 1994ء کے موقف کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ جب امریکی صدر کلنٹن نے کم اَن کے والد کو کم جونک اِل کو جوہری صلاحیت منجمد کرنے پر مذاکرت کی دعوت دی تھی؟2007ء میں مذاکرات کا عمل معطل کر دیا گیا کیونکہ شمالی کوریا نے اپنا پہلا جوہری دھماکہ کر دیا تھا۔ اس وقت بش انتظامیہ جزوی طورپر پروگرام کو منجمد کرنے کے معاہدے میں کامیاب ہو گئی تھی جو شاید کیا ہی توڑنے کے لئے گیا تھا۔ ٹرمپ کو تو ہم محض ان کے اچانک ٹویٹ کرنے کی حد تک مانتے ہیں اور یہ کہ وہ کم جونگ اِن کو شاندار رہنما اور قابل تعظیم قرار دیتے ہیں ا ور شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے پر نازاں ہیں لیکن جب کم نے عدم جوہری معاہدہ کرنے سے انکار کیا اور پومپیو کی تجویز مسترد کر دی اس وقت ٹرمپ صرف اس کی ایگو کو چیک کر رہے تھے جبکہ کم جونگ ان چہ مکھی لڑائی لڑ رہے تھے یہ کھیل جاری ہے ٹرمپ اپنی چھٹیاں شمالی کوریا گزاریں گے اور شمالی کوریا کے لیے جوہری صلاحیت ختم کئے بغیر امریکی پابندیوں میں نرمی بھی کر دی جائے گی مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جب یہ کھیل ختم ہو گا ٹرمپ اپنے کارڈ پھاڑ کر ہوا میں لہرا دیں گے اور دنیا کاغذ کے پرزوں کو اکٹھا کرتی رہے گی۔ (بشکریہ:دی انڈیپینڈنٹ‘ترجمہ:ذوالفقار چودھری)