مشرکین کے درمیان مستقل رہائش اختیار کرنے کا معاملہ نہ تو معاشی و معاشرتی مسئلہ ہے اور نہ ہی علاقائی، یہ خالصتا سید الانبیاء ﷺ کی ایک واضح ہدایت کی تشریح کا معاملہ ہے، اس لیے اس پر گفتگو سے پہلے قلم سے وہ تمام تعصبات نکال پھینکنا ضروری ہے جن میں سب سے اہم مال اور اولاد کی محبت ہے۔ شریعت کو بیان کرتے ہوئے اور اس کا دفاع کرتے ہوئے اگر اس کی زد میں اولاد کا طرز عمل آتا ہو یا مالی مفاد تو پھر قرآن پاک میں دی گئی اس وارننگ "تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو تمہارے لیے آزمائش ہیں" (التغابن: 15) کو خاص طور پر ذہن میں رکھتے ہوئے حق کو پوری وضاحت سے بیان کر دینا چاہیے، بے شک اسکی زد میں اولاد اور مالی مفاد ہی کیوں نہ آتا ہو۔ اس سے پہلے کہ امت مسلمہ کی چودہ سو سال کی تاریخ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے لے کر آج تک امت کے علماء و فقہاء کے اس دو ٹوک موقف پر نگاہ ڈالی جائے، جدید قومی ریاستوں کی شہریت حاصل کرتے وقت اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اٹھائے جانے والے عہد ناموں کی عبارتوں کو غور سے پڑھ لیتے ہیں۔ہر کسی کو ان عہد ناموں کو اپنے ایمان کی کسوٹی پر پرکھنے کا اختیار ہے۔ امریکی شہریت کے حلف نامے کی عبارت:"میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مکمل طور پر ہر ہستی، غیر ملکی حاکم، قانون، ریاست، اور ہر حاکم یا اعلی اور حاکم مطلق کے ساتھ وفاداری کرنے سے مکمل انکار کرتا ہوں اور اس کو ردّ کرتا ہوں کہ جس کا میں اب تک وفادار تھا یا ہوں، اور اب سے میں مکمل طور پر پوری امانتداری کے ساتھ آئین و قوانینِ امریکہ کی مکمل حمایت کرتا ہوں اور اس کے ہر دشمن کے خلاف اس سے وفا داری کا وعدہ بھی کرتا ہوں، خواہ اندرونی ہو یا بیرونی۔ میں صداقت اور وفاداری کے ساتھ یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ قانون نے جب بھی اجازت دی اور طلب کیا تو میں امریکی ریاست کی طرف سے مسلح ہو کر میدان میں نکلوں گا۔ جیسا کہ قانون کا حکم ہے۔ میں امریکی مسلح افواج کی طرف سے غیر عسکری سرگرمیوں میں بھی حصہ لوں گا اور میں اہم قومی امور کے لیے بھی حسب قانون اور بروئے قانون کام کروں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان تمام فرائض کو ادا کرتے ہوئے اپنے ذہن میں کوئی تحفظات نہیں رکھوں گا اور نہ ہی کسی حیلے اور دھوکے سے کام لوں گا۔ اے خدا تو میری مدد کر۔ (جو لوگ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے وہ خدا کے سامنے حلف کی بجائے قسم اٹھانے کے الفاظ استعمال کریں)۔" برطانوی شہریت کا حلف: میں خدا تعالی کی سچی قسم کھا کر پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہوں کہ برطانوی شہری بننے پر ملکہ الزبتھ دوم، ان کے جانشینوں اور ان کے ولی عہدوں کے ساتھ پوری ایمانداری اور صداقت کے ساتھ سچی وفاداری، تمام قوانین کی روح کے مطابق کروں گا۔ کینیڈا کی شہریت کا حلف: میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں کینیڈا کی ملکہ الزبتھ دوم اس کے جانشینوں اور اس کے ولی عہدوں کے ساتھ پوری دیانت اور خلوص کے ساتھ وفادار رہوں گا اور کینیڈا کے قوانین پر پوری وفا داری کے ساتھ عمل پیرا ہوں گا۔ آسٹریلیا کی شہریت کا حلف: آج کے دن سے میں خدا کے روبرو اپنی وفاداری آسٹریلیا اور اس کے لوگوں کو پیش کرتا ہوں جن کے جمہوری عقائد کا حصہ دار ہوں۔ جن کے حقوق و آزادی کا میں احترام کرتا ہوں اور جس کے قوانین کی میں حمایت اور مدافعت کروں گا اور ان پر عمل پیرا ہوں گا۔ اسی طرح کے حلف نامے لاتعداد ممالک کی شہریت اختیار کرتے ہوئے پڑھوائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر نوآبادیاتی ملک نے اپنے زیر نگین رہنے والے ممالک کے ساتھ دہری شہریت کا قانون بھی بنا رکھا ہے۔ یہ سہولت صرف ان ممالک کے حوالے سے ہے جہاں آپ پیدا ہوئے تھے۔ یہ تمام ممالک ایسے لوگوں کو شہریت کے اس "طوقِ غلامی" کو اتارنے کی اجازت دیتے ہیں اگر آپ اس ملک سے وفادار ہونا چاہو جہاں آپ پیدا ہوئے تھے۔ غیر ملکی شہریت حاصل کرتے ہوئے ،ایسا حلف اٹھانا کسی فرد کا ذاتی فعل ہے، اسکی عبارت کو صدقِ دل سے ادا کرنا بھی اس کا اپنا معاملہ ہے۔ میں یہاں کسی کے ایمان و کفر کا فیصلہ نہیں کرنا چاہتا ہوں صرف خوف دلاتا ہوں اس وارننگ کا جو رسول اکرم ﷺ نے مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرنے سے متعلق کی ہے "تم مشرکین کے ساتھ سکونت اختیار نہ کرو اور نہ ان کے ساتھ گھل مل کر رہو، جو شخص ان کے ساتھ سکونت اختیار کرتا ہے یا ان کے ساتھ مل کر رہتا ہے وہ انہی کی مثل ہے، وہ ہم میں سے نہیں" (سنن ترمذی)۔ یہ ہم میں سے نہیں "فلَیس مِنّا" کے الفاظ بار بار احادیث میں آئے ہیں آپ رسول ﷺ کی ویسی ہی ناراضگی اپنے مسلمان ملک میں رہ کر بھی کما سکتے ہیں فرمایا :"عنقریب ایسے حاکم ہوں گے جو جھوٹ بولیں گے، ظلم کریں گے تو جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ظلم پر ان کا ساتھ دیا وہ ہم میں سے نہیں اور نہ میں ان میں سے ہوں اور یہ لوگ قیامت کے دن میرے حوض کوثر پر نہیں آئیں گے" (مسند احمد)،" جس نے ملاوٹ کی دھوکے سے مال بیچا وہ ہم میں سے نہیں "(معجم الاوسط، طبرانی)۔ ایسے لاتعداد اعمال احادیث میں مذکور ہیں جن کی بنیاد پر ہادی برحق ﷺ نے ایسے لوگوں سے اپنی برأ ت کا اعلان کیا ہے۔ ایسے تمام لوگوں کے لیے امریکہ، یورپ، آسٹریلیا یا کینیڈا جا کر وہاں کی شہریت لینا بھی ضروری نہیں۔ وہ مسلمان ملکوں میں ہی رہ کر بھی اللہ کے رسول ﷺکی ناراضگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرنے پر معاملہ صرف سید الانبیاء ﷺ کی ناراضگی ہی نہیں عہد کی پاسداری کا بھی ہے۔ آپ کس عہد کو ترجیح دیتے ہیں وہ جو اللہ کے ساتھ ایمان کا عہد ہے یا شہریت کا عہد۔ آج سے چند سال قبل جب میں نے اس موضوع پر لکھنا شروع کیا تو کراچی کے ایک صاحب عبید الرحمٰن شاہ جہانپوری نے بارہ سو صفحات پر مشتمل ایک دستاویز مرتب کی جس میں تمام فقہاء کی آراء اور تمام امت کے علماء کے اجتماعی فیصلوں کو تحریر کیا۔ یہ خالصتاً علمی موضوع ہے اور کالم اسکا متحمل نہیں ،مگر یہاں معاملہ رسول اکرم ﷺسے محبت کا بھی۔ اسی لئے علماء نے مشرکین کے درمیان رہنے کی صرف چار صورتوں کی بنیاد پر اجازت دی ہے، 1) تعلیم کے لیے 2) تجارت کے لئے 3) سفر و سیاحت کے لیے 4) اور تبلیغ کے لیے۔ ہر کوئی اپنے حالات کے مطابق بہتر جانتا ہے کہ اسے کس حلف کی پاسداری کرنا ہے اور کس سے بدعہدی کرنا ہے۔ اس کے لئے کس ملک میں دین پر عمل کرنا آسان ہے، اس کی اولاد کہاں زیادہ الحاد اور کفر و شرک سے محفوظ رہ سکتی ہے اوروہ کہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بہتر انجام دے سکتا ہے۔ غیر ممالک میں رہتے ہوئے دو حلف ناموں میں کسی ایک عہد کی خلاف ورزی تو یقینا ہوگی۔ ہر کسی نے علیحدہ علیحدہ روز محشر اللہ کے سامنے پیش ہوکر جواب دینا ہے اور ہر کسی نے اس روز سید الانبیائﷺکی شفاعت کی امیدبھی رکھنا ہے۔ فیصلہ ہر کسی کا اپنا ہے۔بات ایک ہے کہ حق کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے بیان کر دیا جائے خواہ اسکی زد میں آپکی اولاد اور بہن بھائی ہی کیوں نہ آتے ہوں۔