زندگی کو برتنے کے دورویے ہیں۔ ایک شکر کا اور دوسرا شکوے کا رویہ۔ پاکستانیوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو حاصل شدہ نعمتوں پر شکر ادا نہیں کرتے لیکن گلے میں ہر آن شکوے کی تختی لٹکائے گھومتے رہتے ہیں اور مایوسی کا زہر ذہنوں میں گھولتے رہتے ہیں۔ اس پر مجھے ایک صوفی کا واقعہ یاد آتا ہے۔ اس کے پاس ایک شخص آیا جس نے ماتھے پہ پٹی باندھ رکھی تھی۔ صوفی کے استفسار پر اس شخص نے کہا کہ میرے سر درد ہے جس کے سبب سے پٹی باندھ رکھی ہے۔ صوفی نے پوچھا کہ کیا تمہارے سر میں تمام وقت درد رہتا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا’’نہیں یہ درد آج اٹھا ہے‘‘ صوفی نے کہا ’’تم جب تک صحت مند رہے‘ شکر کی پٹی نہ باندھی لیکن ایک دن کے سر درد میں تم نے شکوے کی پٹی باندھ لی۔‘‘ لکھنے والوں نے بالعموم ان نوجوانوں کے پاکستان سے شکوے قلم بند کئے ہیں جنہوں نے پاکستان میں آنکھ کھولی ہے۔ یہیں کے آب ودانہ پہ جن کی پرورش ہو رہی ہے‘ جو یہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیںاور جنہیں ماشاء اللہ سے ہر قسم کی آسائشیں حاصل ہیں۔ یہ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان سے زیادہ تر شکایات اسی طبقے کو ہے جو آسودہ حال ہے اور ہر قسم کی نعمتوں سے بہرہ ور ہے۔ کسی مفلس اور قلاش کو میں نے اپنے وطن کی برائی کرتے نہیں دیکھا کیونکہ وہ اپنی حالت اور اپنی تقدیر پر قانع ہے۔ اصل بات رویے میں تبدیلی لانے کی ہے۔ جب تک شکر کے بجائے شکوے کا رویہ ہو گا‘ شکایات پیدا ہوتی رہیں گی۔ ایک امریکی شہری بھی اگر شکوے کا رویہ اختیار کر لے تو اسے بھی اپنے معاشرے میں ہزار ہا کیڑے نظر آ جائیں گے اور یقینا خرابیوں کے یہ کیڑے مغربی معاشروں میں بھی پائے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ بھی ان کی وجہ سے بے چین‘ مضطرب رہتے ہیں ورنہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ان ملکوں میں اتنے طویل جلوس نہ نکلتے لیکن قصہ یہ ہے کہ موجودہ خرابیوں کو تسلیم کرنے کے باوجود امریکی یا برطانوی شہری میں اپنے ملک کے خلاف نفرت و حقارت کا جذبہ نہیں ابھرتا‘ وہ خرابیوں کا ذمہ دار نظام کو ٹھہراتا ہے اور اسے بدلنے کے لئے سڑکوں پہ نکلتا ہے۔ ہم لوگ نہ خود بدلتے ہیں اور نہ نظام کو بدلنے کے عمل پہ آمادہ ہوتے ہیں۔ جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ یہ کہ برائیوں کی ایک فہرست بنا کر ملک کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’اب یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا‘‘ یہ رویہ خود غرضانہ بھی ہے اور غیر ذمہ دارانہ بھی۔ خود غرضانہ اس طرح کہ اس میں صرف اپنی ذات کے تحفظ کی فکر ہوتی ہے۔ اگر حالات پریشان کن ہیں تو میری بقا اسی میں ہے کہ میں اس ملک سے فرار ہو جائوں اور کسی دوسرے ملک کے سایہ عاطفت میں پناہ لے لوں۔ غیر ذمہ دارانہ اس طرح کہ ایک ملک‘ قوم کے باسی ہونے کی نسبت جو ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہوتی ہیں۔ میں انہیں اٹھانے سے اغماض برتوں۔ اگر لوگ جھوٹ بولتے‘ منافقت کرتے‘ قانون شکنی کرتے ہیں اور اس نوع کی دیگر بہت سی برائیوں میں ملوث ہیں یا اس ملک کے نظام میں بے شمار بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں تو کیا بہ حیثیت شہری میں ان سے مبرا ہوں یا اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری مجھ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ایسے میں کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ میں خود کو دوسروں جیسا نہ بننے دوں۔ خود کو تبدیل کروں۔ آج جس یورپ اور امریکہ میں پناہ لینے کے لئے ہم مضطرب رہتے ہیں۔ چند صدی پہلے تک ان کے حالات ہم سے زیادہ ناگفتہ بہ تھے۔ انہوں نے اپنے فلسفیوں‘ مفکروں اور رہنمائوں کی قیادت میں اپنے حالات کو بتدریج تبدیل کیا۔ کون سی خرابی تھی جو ان مغربی معاشروں میں نہیں تھی۔ جہالت‘ غربت‘ تنگ نظری ‘ مذہبی عصبیت اور اس نوع کی ساری برائیوں کے باوصف یہ معاشرے ہر اعتبار سے بیمار معاشرے تھے لیکن اس کا حل ان معاشروں کے باشندوں نے یہ نہیں نکالا کہ اپنے ہی ملک سے ہجرت کر جاتے یا تمام وقت اس کے ہی عیوب کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ وہ اپنے آپ سے لڑے۔ خود کو بدلا اور پھر نظام کو بدلا۔ اس کے باوجود نئے پیدا شدہ عیوب پہ وہ قابو نہ پاسکے ہیں اور آج بھی پریشان و مضطرب ہیں۔ مسائل کس ملک اور معاشرے میں نہیں ہوتے۔ محض ان مسائل کی فہرست مرتب کر لینا شاید آسان ہو لیکن یہ غور کرنا کہ اجتماعی امراض میں سے کوئی سی برائی اور کون سا مرض ہے جس سے میری ذات بچی ہوئی ہے اور میں نے اپنی روح و ذہن اور عادات و اطوار کو ان برائیوں سے مبرا رکھا ہے۔ یہ کام شاید دشوار ہو‘ اسی لیے ایسی کوئی فہرست بنانے کی اشد ضرور ہے۔ نوجوانوں کو اگر اس ملک سے شکایت ہے تو اس کے ذمہ دار وہ خود نہیں‘ ان کے والدین اور اساتذہ ہیں جنہوں نے انہیں اپنے عمل اور رویے سے شکر ادا کرنے کے شکوہ کرنے کا عادی بنایا ہے۔ جب والدین ہمہ وقت’’گلاس آدھا خالی ہے‘‘ کا رونا روئیں گے اور جب اساتذہ طلبہ کی فکری اور ذہنی تربیت کے بجائے محض نصاب تک خود کومحدود رکھیں گے تو وہ ذہن کہاں سے پروان چڑھے گا جس میں اپنے ملک کی محبت اور اپنی اقدار کا احترام پایا جاتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کوئی وصف اور کوئی خوبی ہی نہ پائی جاتی ہو۔ تو پھر برادرم حسن نثار کو چاہیے کہ وہ ان نوجوانوں سے کہیں کہ شکایت کی فہرست تو تم نے بڑی جانکاہی سے مرتب کر لی۔ اب ذرا ان خوبیوں کی بھی ایک فہرست بنا ڈالو جو تمہیں اپنے گھروں میں اور معاشرے میں نظر آتی ہیں۔ یقینا یہ مرتبہ فہرست اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ اگر محنت اور صلاحیت موجود ہو تو پاکستانی معاشرے میں اپنا مقام بنانا کوئی دشوار نہیں‘ میں اپنی مثال پیش کرتا ہوں۔1973ء میں مشرقی پاکستان سے لٹ پٹ کے جب میرا خاندان کراچی پہنچا تھا تو یہاں زندہ رہنے کا کوئی آسرا نہ تھا لیکن تیس پینتیس برسوں میں آج ہر طرح کی مالی‘ ذہنی اور روحانی آسودگی مجھے اور میرے خاندان کو حاصل ہے۔ اگر میرے ملک کا نظام اتنا ہی فرسودہ ظالمانہ اور بے رحمانہ ہوتا تو مجھے اور میرے خاندان کو ملیا میٹ ہو جانا چاہیے تھا لیکن خداوند تعالیٰ کے فضل و کرم‘ ہماری جدوجہد اور پاکستانی معاشرے کی وہ خوبیاں تھیں جن کی بدولت ہمیں وہ آسودگیاں حاصل ہوئیں جو اس ملک کے لاکھوں اور کروڑوں باشندوں کے نصیب میں نہیں اور اس پر میرا دل کڑھتا ہے لیکن میں شکوہ نہیں کرتا‘ شکر ادا کرتا ہوں اس ملک کا باشندہ ہونے پر جو آج بھی کروڑوں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے۔ غربت فی نفسہ بری چیز نہیں‘اصل بات یہ ہے کہ فکر کا انداز مفلسانہ نہ ہو۔ مفلسی روپے پیسے کی کمی ہی کا نام نہیں۔ مفلسی یہ بھی ہے کہ آدمی اس درجہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے کہ اس میں اپنے اندر کوئی وصف ہی دکھائی نہ دے۔ واصف علی واصف سے کسی نے پوچھا کہ لوگوں میں آج کل بہت بے یقینی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا’’بے یقینی کی باتیں کرنے والے نہایت یقین سے اپنے مکان بنا رہے ہیں۔‘‘ پاکستانی معاشرہ ایک زندہ معاشرہ ہے۔ اس کی قوم ایک زندہ قوم ہے۔ اس کا کچھ اندازہ قومی سانحات کے مواقع پر ہوتا ہے۔ جب یہ قوم جاگ اٹھتی ہے اور اپنے تن من دھن سے ان آفات و سانحات کا سامنا کرتی ہے۔ لسان الغیب علامہ اقبال نے یونہی تو نہیں کہا تھا: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی اس مٹی کو وہی نوجوان زرخیز بنائیں گے جو آج شکایات کا پلندہ لیے گھوم رہے ہیں۔ بشرطیکہ وہ چیزوں اور مسائل کو دیکھنے کا رویہ بدل لیں۔ خود کو دوسروں کے لئے مثال بنائیں کیونکہ آدمی کانوں سے نہیں آنکھوں اور رویوں سے سیکھتا ہے۔