فیس بک ان دنوں جولائی کی دو سال پرانی یادوں کو دھرا رہی ہے اور یہ وہ یادیں ہیں جنہیں ہم کم از کم یاد کر کے اپنے جی کو مزید نہیں جلانا چاہتے۔ 25جولائی 2018ء کو چھپنے والا کالم میرے سامنے ہے ملک میں جنرل الیکشن کا جوش و خروش اور عام پاکستانی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی کرپشن سے سخت نالاں‘ تبدیلی کی خواہش اور ایک نئے پاکستان کا خواب لے کر ووٹ ڈالنے نکلا تھا۔ پرانا کالم پڑھا تو اندازہ ہوا کہ مجھ جیسے حقیقت پسند نے کچھ نہ کچھ بہتری کی امید کپتان سے لگا لی تھی حالانکہ ہمارا حال ایسا تھا کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘ اگرچہ ہم کپتان کے بہت ناقد رہے۔ خاص طور پر ان کی دھرنا سٹائل سیاست پر سخت تحفظات تھے‘ پھر جس طرح کنٹینر پر کھڑے ہو کر دوسروں کے لتّے لینے کی عادت تھی وہ بھی نہیں بھاتی تھی کہ کچھ بھی ہو‘ بہرحال شائستگی اور سلیقے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تو اس قدر ناقد ہونے کے باوجود ہم بھی الیکشن 2018ء میں تبدیلی کی ہوا کے قائل ہو گئے‘ دل میں اک موہوم سی امید ضرور تھی کہ کپتان جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر ‘ بلند بانگ دعوے کرتا ہے وہ اگر پچاس فیصد تو کیا25فیصد بھی پورے ہو جائیں تو سفر کی سمت درست ہو جائے گی۔ مجھے یاد ہے کہ 24جولائی 2018ء کو ہم منگلا کینٹ میں تھے‘ چھوٹے بھائی کی پوسٹنگ وہاں ہوئی تھی تو اسے ملنے چلے گئے۔ منگلا کینٹ کے سرسبز اور پرسکون ماحول میں برّال کالونی کی خوبصورت رہائش گاہ آس پاس دور دور تک سبزہ اور فطری حسن بکھرا ہوا۔ ٹریفک کے ہنگاموں سے دور۔ صبح اور شام کا منظر اتنا روح پرور ہوتا کہ گویا‘ خاموشی کی صدا سنائی دیتی۔ ہوا‘ سرسراتی اور پرندے چہکار سے فضا کو بھر دیتے۔ ایسے میں ہمارا قطعاً ارادہ نہ تھا کہ واپس لاہور کا قصد کرتے مگر ہمارے بھائی صاحب پر تبدیلی کا ایک بھوت سوار تھا کہ 25جولائی کو ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔ خیر واپسی کا سفر شروع تو راستے میں یوں لگا جیسے لوگ عید تہوار پر آبائی شہروں میں جاتے ہیں اسی طرح لوگ اس بار تبدیلی کو ووٹ دینے آبائی گھروں کو جا رہے تھے۔ یہ منظر میرے لئے بالکل نیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کی امیدیں کپتان سے اتنی اونچی ہیں کہ مائونٹ ایورسٹ بھی ان کے سامنے چھوٹا لگنے لگے۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی دو دو باریوں اور کرپشن کی غضب کہانیوں سے لوگ اکتا چکے ہیں اور اس بار شدت سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ حکومت کی باگ دوڑ نئی سیاسی جماعت سنبھالے اور وہ سیاسی جماعت تحریک انصاف کے علاوہ اور کون تھی۔ الیکشن ڈے پر بھی پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ طبقہ بھی ووٹ کاسٹ کرنے نکلا جو عام طور پر ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشن پر قطاروں میں کھڑا نہیں ہوتا۔25جولائی 2018ء کا اٹھارہ کالم ایسے ہی مناظر اور جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ میری نظر سے گزرا تو دل میں ایک درد سا اٹھا۔ ہائے وہ امیدیں‘اور تبدیلی کی توقعات جو میرے پاکستانیوں نے کپتان سے لگائیں تھیں۔ سیاست اور اقتدار کے مصلحت آمیز موسموں میں۔ وہ چکنا چور ہو چکیں۔ فیس بک نے پھر 29جولائی کا کالم ایک یاد کی صورت دھرایا اس کالم کا نام تھا کپتان اور امیدوں کے آبگینے‘میں نے اس میں لکھا کہ تحریک انصاف کے سپورٹر زیادہ تر نوجوان ہیں جو انہیں ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کبھی قائد اعظمؒ سے ان کی مماثلت تلاش کرتے ہیں۔پاکستان کے 64فیصد نوجوان عمران خان سے تبدیلی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ تین کروڑ نوکریوں کے منتظر یہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ عمران خان ان کی زندگی میں تبدیلی لائے گی۔ یہ وہ امیدیں ہیں جو کپتان نے خود ان کی جھولی میں ڈالی ہیں۔ 3کروڑ نوکریاں‘ 50لاکھ گھر۔غریبوں کو غربت سے نکالنا۔ ایک نہیں دو پاکستان وغیرہ وغیرہ: افسوس کہ صرف دو سال کے اندر تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں نے تلخ حقیقتوں کی وہ دھوپ سہی ہے کہ اب تبدیلی کا لفظ ہی اپنے معنی کھو چکا ہے۔ 3کروڑ نوکریوں کا خواب اس قوم کو دکھانے والوں کی پالیسیوں سے لوگوں کے کاروبار بند ہوئے۔ کئی ٹی وی چینلز نے اپنی بساط لپیٹ دی۔ چلتے ہوئے اخبارات کے حالات دگرگوں ہونے لگے اور دھڑا دھڑ نوکریوں سے لوگ فارغ ہونے لگے۔ لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھ گئے۔ نوبت فاقوں تک آ گئی رہی سہی کسر وبا نے نکال دی۔ حکومت کے ان دو سالوں میں لوگوں کا روزگار ختم ہوا،نوکریاں ختم ہوئیں۔یہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ حکومت آٹا سستا کرنے کی نوید کے ساتھ آٹا مہنگا ہو جاتا ہے۔ پٹرول سستا کیا جاتا ہے تو لوگ سڑکوں پر رل جاتے ہیں اور پٹرول نہیں ملتا۔ پٹرول مہنگا ہوتا ہے اور اسی دن دستیاب ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم جس چیز کا نوٹس لیں وہ مسئلہ اگلے دن اور گھمبیر ہو جاتا ہے۔ آٹا نایاب‘ آٹا مہنگا ہے‘ وزیر اعظم کئی بار نوٹس لے چکے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اماں بشیراں اگلے روز تبدیلی کو کوس رہی تھی کہ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر آٹا خریدا تو اندر سے گیلا اور کائی زدہ نکلا۔ اب کوئی بتائے کہ غریب کے ساتھ حکومت وقت کا اس سے بھیانک مذاق اورکیا ہو سکتا ۔؟جس غریب نے پیٹ بھرنے کے لئے روٹی ہی کھانی ہے: امیدوں کے آبگینے ٹوٹ چکے توقعات منہ چھپائے بیٹھی ہیں