خدا خیر کرے ۔ دو حکمرانوں کی ملاقات ہورہی ہے جو صرف سربراہ ہی نہیں سر پھرے بھی ہیں۔عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات پر دونوں طرف کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور میرے خیال میں پاکستانی وزارت خارجہ اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اپنے اپنے حکمران کے مزاج سے خوف زدہ بھی ہیں۔ملنا مجبوری ہے کیوں کہ حالات اور مصلحتوں کا تقاضا یہی ہے ورنہ امریکہ ،پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ میں شاید وہ واحد مثال ہے جس میں دونوں ملنے سے کتراتے رہے تھے۔گرما گرم ٹویٹس کا تبادلہ ان کی پہلی ملاقات تھی خواہ ٹویٹر پر سہی ۔وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے کسی جگہ صحافیوں سے کہا بھی تھا کہ اچھا ہے میں ٹرمپ سے نہ ملوں ۔ اس نے کچھ ایسا ویسا کہا اور میں نے بھی ویسا ہی جواب دے دیا تو پھر کیا ہوگا۔ ڈھونڈنے والے دونوں کے درمیان مماثلتیں ڈھونڈ رہے ہیں۔دونوں خو دپسندی اور خود رائی کے اسیر۔دونوں عام سیاست دانوں سے الگ مزاج کے حامل ۔دونوں حزب اختلاف میں جو سیاست کرتے رہے ہیں اس پر بے شمار اعتراض موجود ۔دونوں کے بہت سے بیانات کو ٹھیک کرکے پیش کرنا سرکاری افسروں کی اہم ذمے داری ۔اور سب سے اہم اور پریشانی کی بات یہ کہ دونوں کی سوئی جس چیز پر اٹک جائے اس سے باہر نکلنا نہایت مشکل۔ تو پھر ایسی کیا ضرورت پیش آگئی کہ دونوں کو ملنا پڑ رہا ہے ؟مسئلہ یہ ہے کہ امریکی بیورو کریسی کو بھی پاکستان کی اور اس ملاقات کی ضرورت محسوس ہورہی ہے اور پاکستانی حکمت عملی کے ماہرین کو تو ہمیشہ سے امریکہ کی ضرورت ہے۔حالات تیزی سے بدلے ہیں ۔ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعدشروع ہی سے پاکستان کے بارے میں جارحانہ بیان دئیے تھے اور ابھی حافظ سعید کی گرفتاری پر بھی اپنی خوشی اور امریکی مؤقف کا اظہار کیا ہے ۔تاہم پینٹا گون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ معاملات کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اس لیے نہیں کہ انہیں پاکستان سے کوئی ہم دردی ہے ۔ بلکہ اس لیے کہ انہیںپاکستان کی اس وقت اور آئندہ سخت ضرورت ہے اور وہ پاکستان کو اتنا ناراض نہیں کرنا چاہتے کہ امریکی مفادات ختم ہوکر رہ جائیں ۔ یہ تو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور بار بار کے زخموں کے بعد پاکستانی ادارے سمجھ بھی چکے ہوں گے کہ امریکہ قابل اعتماد حلیف اور دوست نہ کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہوگا۔یہ تعلق 1 مئی 1960 کو پشاورکے ہوائی اڈے سے امریکی جاسوس طیارے کے پائلٹ گیری پاورز کی پرواز اور پھر روس میں گرا لیے جانے سے لے کر آج تک محض امریکی مفادات کے تابع رہا ہے ۔امریکہ شروع ہی سے پاکستان کو اپنے کیمپ میں شامل کرنے اور اسے روس کے خلاف استعمال کرنے کا خواہش مند تھا۔ایوب خان کے فوجی ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود غیر معمولی استقبال اور پذیرائی کے پیچھے بھی یہی سوچ تھی لیکن شاید اس وقت اس میں خلوص کی کچھ دھاریاں بھی موجود تھیں ۔آٹے کا یہ نمک بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم ہوگیا۔پاکستان نے کتنا فائدہ اٹھایا اور کتنا نقصان ۔یہ ایک لمبی بحث ہے ۔فائدوں میںکچھ اسلحے کی فراہمی اور سیبر طیاروں میں سائڈ ونڈرز (side winders)میزائلوں کی تنصیب جس سے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ نے بہت فائدہ اٹھایا۔ اور نقصانات میں روس کے پاکستان سے ستر سالہ کشیدہ تعلقات شامل ہیں۔یہ کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب1979 میں افغانستان پرروسی فوج کشی کے وقت پاکستان ایک حریف بن کر روس کے سامنے آیا ۔ اس وقت تک بار بار تجربوں کے بعد پاکستانی بھی ہوشیار ہوچکے تھے ۔اور جب یہ طے تھا کہ یہ سب مفادات کا کھیل ہے تو پاکستان نے اپنے مفادات کی بھی ممکن حد تک قیمت وصول کی۔ ایف 16 اور ایٹمی پروگرام کی کامیابی ان فوائدمیں سے ہے۔ان دونوں پر امریکہ کو بادل نخواستہ راضی ہونا پڑا۔ لیکن کام نکل جانے کے بعد امریکہ کی آنکھیں بدل گئیں اورآخر وہی مجاہدین اور وہی پاکستانی دہشت گرد کہلانے لگے جنہیں اپنا مضبوط حلیف کہا جاتا تھا۔ یہ تجربات پاکستان کو سبق سیکھنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ لیکن دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر رکھیں کیسے ؟پھر یہ پاکستانی پالیسی سازوں کی مجبوری ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہندوستان ایسے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہتا ہے جب پاکستان امریکہ تعلقات بگاڑ کی طرف جائیں۔یہ بات امریکہ بھی جانتا ہے اور اس کادباؤبرقرار رکھتا ہے ۔افغانستان میں پاکستان دشمن حکومت اور ہندوستان کی مضبوط موجودگی بھی اسی گیم پلان کا حصہ رہی ہے ۔ اسی کے ساتھ ایران سے پاکستان کا تعلق خراب رکھنا بھی امریکہ کے لیے اہم ہے ۔ان سب کا حل پاکستان نے یہ نکالا ہے کہ وہ چین سے مزید قریب ہوگیا ہے ۔ بیلٹ اینڈ روڈ کا نہایت اہم حصہ بن گیا ہے اور روس سے اپنے تعلقات بہت بہتر بنا لیے ہیں۔ یہ امریکی دکھتی رگ ہے ۔ چین کو امریکہ بطور حریف دیکھتا ہے ۔اس کے اثر و نفوذ سے خائف ہے اور جانتا ہے کہ چین کی برآمدات کا حجم جو اس وقت امریکہ کے برابر آچکا ہے آئندہ سالوں میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔روس اپنی شکست و ریخت سے باہر آچکا ہے اورتیزی سے اپنی طاقت بڑھا رہا ہے ۔ نیز اس نے پاکستان سمیت مختلف ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر کرلیے ہیں۔یہ وہ حقائق ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے امریکی پالیسی ساز مجبور ہیں کہ پاکستان کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ سر فہرست مسئلہ افغانستان ہے ۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا۔اسی وجہ سے پاکستان کے دباؤ کے باعث ہندوستان اس عمل سے نکالا گیاہے۔چند دن پہلے ٹائمز آٖف انڈیا نے لکھا ہے کہ سال ہا سال کی محنت اور اربوں کی سرمایہ کاری کے باوجود ہندوستان افغانستان کے مستقبل سے باہر ہورہا ہے ۔ لیکن امریکہ کو کسی اور سے نہیں اپنے مفاد سے دل چسپی ہے۔اگر اگلے امریکی الیکشن2020 ء سے پہلے امریکہ طالبان سے ممکن حد تک اپنی بات منوا لینے کے بعد افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ ٹرمپ کا اور ری پبلکن پارٹی کا ٹرمپ کارڈ بن سکتا ہے ۔اس کے لیے پاکستان لازمی ضرورت ہے۔ ٹرمپ عمران ملاقات کی تیاریاں شروع کی جاچکی ہیں۔تاکہ فریق مخالف کو کچھ دے کر کچھ لیا جاسکے۔بلوچستان لبریشن آرمی بی ایل اے کو امریکہ کی طرف سے دہشت گرد تنظیم قرار دینا،حافظ سعید کی گرفتاری وغیرہ انہی تیاریوں کا حصہ ہیں۔امریکی جنرل مارک ملی (Mark Milley ) نے ،جو ممکن ہے مستقبل میں امریکی چیف آف سٹاف بن جائیں، سینٹ کے سامنے حال ہی میں کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے مضبوط فوجی تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔ تو یہ پس منظر ہے جس میں دو سرپھرے سربراہ آپس میں ملنے جارہے ہیں۔کون کس کو قائل کرتا ہے اور کون کیا فائدہ اٹھاتا ہے ۔یہ تو وقت بتائے گا۔میری طرح کافی لوگوں کا بہرحال یہ تاثر ہے کہ اس دور حکومت میں خارجہ پالیسی پہلے سے بہتر اور مؤثر ہے ۔اس کا مشاہدہ فروری میں پاکستان انڈیا مڈھ بھیڑ میں بھی کیا گیا تھا اور دیگر مواقع پر بھی ۔عمران خان ، شاہ محمود قریشی اور دیگر پالیسی سازوں کو اس مرحلے پر نہایت سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے ۔ مدتوں بعد اور بے شمار قربانیوں کے بعد وہ مرحلہ نزدیک لگتا ہے جب افغانستان امریکہ ، روس اور ہندوستان کے تسلط سے آزاد ہو اور اس میں پاکستان دوست حکومت برسر اقتدار آئے ۔ ایسا نہ ہو کہ اس مرحلے پر مذاکرات کی میز پر جنگ ہار دی جائے۔یہ بھی سوچ کر جائیے کہ اس نے کچھ ایسا ویسا کہا اور آپ نے بھی ویسا ہی جواب دے دیا تو پھر کیا ہوگا۔جائیے۔ سوچ سمجھ کر جائیے اور سرخرو ہوکر آئیے۔