آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان بنانے کے لئے قائد اعظمؒ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ بابائے قوم نے یہ ملک دو قومی نظریے پر بنایا‘ آج دو قومی نظریے کا سب اعتراف کر رہے ہیں۔ جو لوگ قیام پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے انہیں بھی آج احساس ہو رہا ہے۔ مخالفت کرنے والوں کے لئے یہ نئی شروعات ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے آج سے71برس قبل برملا کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں جو مذہبی فلسفوں اور معاشرتی روایات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے دونوں قوموں کا الگ الگ ہونا ان کے مستقبل کے لئے ضروری ہے۔ تب کچھ مسلمان لیڈروں نے بھی قائد اعظم کی مخالفت کی تھی لیکن قائد اعظم ؒ اپنے ویژن کے مطابق دوقومی نظریے کی ترویج کے لئے لڑتے رہے ،جس کے بعد مسلمانوں کے لئے الگ اسلامی ریاست کا قیام معرض وجود میں آیا۔ وہ لوگ جو قائد اعظم کے دو قومی نظریے کے خلاف صف آرا ء تھے، آج ان کی اولادیں اپنے آبائو اجداد کے فیصلوں پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں۔ بھارت میں شہریت قانون کے بعد وہاں پرموجود اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ جمعیت علما ہند جو دو قومی نظریے کی مخالفت میں پیش پیش تھیِِ، آج اس کے ورثا بھی مودی کے شہریت قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم کی قیادت میں معرض وجود میں آنے والی اسلامی ریاست میں نہ صرف مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے بلکہ اقلیتوں کو بھی اپنے مذہبی تہوار بنانے میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہیں ہے۔ ایک روز قبل پاکستان میں موجود مسیحی برادری نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنا مذہبی تہوارکرسمس منایا ہے۔ جس میںانہیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔اس کے برعکس بھارت میں مسلمانوں کو مساجد میں عبادت کرنے کی اجازت ہے نہ ہی وہ اپنے مذہبی تہوار عید قربان پر گائے کی قربانی کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان چھپ کر قربانی جیسا فریضہ ادا کرتا ہے تو ہندو دہشت گرد اس کے گھر کو آگ تک لگانے سے گریز نہیں کرتے۔2014ء کے بعد سے تو مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں کئی ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ مسلمانوں کو سرعام زدوکوب کرکے انہیں اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جو سیکولر بھارت کے منہ پر زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں ہے۔ در حقیقت قیام پاکستان کے مقاصد،نظریے اور نظام کے حوالے سے قائد اعظم کے ذہن میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں تھا۔ 71برس قبل جس بات کا آپ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا آج دشمن بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مودی سرکار نے نہ صرف مسلمانوں پر زمین تنگ کی بلکہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر کے وہاں پر بھی ہندوئوں کو بسانے کا ناپاک منصوبہ تشکیل دیا۔5اگست 2019ء سے لے کر آج تک مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو گھروں میں محصور کر رکھا ہے۔ وادی میں زندگی بدستور مفلوج ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اورادویات کی شدید قلت ہے۔ آئے روز کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مودی سرکار نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے احتجاج کو کچلنے کے لئے مودی نے اب کشمیر سے 72فوجی کمپنیاں نکال کر آسام ‘ مغربی بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن افسوس کہ عالمی برادری اس متنازعہ قانون پر رسمی احتجاج سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ‘ دلت‘ عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی سراپا احتجاج ہیں۔ لیکن عالمی برادری نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے۔ جو باعث تشویش ہے۔ اقوام متحدہ ‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور او آئی سی کو اس وقت اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ بھارت میں مسلمانوں کی جاری نسل کشی کو روکا جا سکے۔قائد اعظم کا وژن پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے قائد کی زندگی نے وفا نہ کی اور آپ اس نوزائیدہ ریاست کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ اس کے بعد آنے والے سیاستدانوں نے اس ملک کو اپنے اپنے مقاصدکی بھینٹ چڑھایا۔ اگر سیاست دان ہی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کام کرتے تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں نے بھی طالع آزمائوں کا ساتھ دے کر اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں کردار ادا کیا۔33برس وقفے وقفے سے اس ملک پر آمریت قائم رہی‘ جس نے ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بجائے اسے غیروں کی آماجگاہ بنایا۔ پہلے ہماری سرزمین روس کے خلاف استعمال ہوئی بعدازاں نائن الیون کے بعد افغانستان کا تورا بورا بنانے کے لئے ہم نے امریکیوں کو کھلے عام چھٹی دیئے رکھی۔ جس کے باعث ہم قائد کے اس مشن کو بھول گئے جس کے لئے یہ ریاست معرض وجود میں آئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ لیکن اس کے راستے میں کئی پہاڑ کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے عمران خان کی ملک کو ریاست مدینے کی طرز پر چلانے کی کوششیں ناکام بنانے کے لیے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار سے اندازہ لگا کر ملک کو قائد کے وژن کے مطابق چلانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ لیکن وہ اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے راستے میں ہی رکاوٹ بن چکے ہیں۔ عمران خان اگر ملک کو حقیقت میں قائد کے وژن کے مطابق چلانا چاہتے ہیں تو ملک میں بلا تفریق احتساب کے سلسلے کو تیز کرتے ہوئے عام شہریوں کو بروقت انصاف فراہمی اور روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ جب ہر شہری خوشحال ہو گا تو ہی حقیقت میں اسلامی فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔