جس طرح شاعر کے بقول، محبت کا نغمہ ہر ساز پہ نہیں گایا جا سکتا، بعینہ دنیا کے اور بہت سے دھندے بھی کسی نہ کسی مناسبت سے مختلف شعبوں اور پیشوں سے منسوب اور منسلک ہوتے چلے گئے۔ ایسی ہی بانٹ چونٹ میں ادب اور مزاح کو طبقۂ اساتذہ کی راجدھانی سمجھا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ دیگر مشاغل کے لوگ بھی اس میں داخل ہوتے چلے گئے۔ پہلے پہل صحافیوں کے ایک جتھے نے دھاوا بولا، دیکھا دیکھی وکیل اور جج بھی دندناتے چلے آئے۔اینکر اور بینکر بھی بے روک ٹوک قابض ہو گئے، فوج کے بعض اہل کار تو گویا قبضہ ہی جما کے بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے نکل کھڑے ہوئے۔ اس کے باوجود ہم مطمئن تھے کہ پولیس جیسے کرخت محکمے کی دست بُردسے یہ نازک اور لطیف شعبہ مامون ہے کیونکہ پولیس کا تو ذکر آتے ہی دھیان نزاع کی طرف جاتا ہے، مزاح کی طرف نہیں! لیکن جب ناصر محمود ملک کے ’مزاحِ کبیرہ‘ کی بھنک پڑی، ہم سوچ میں پڑ گئے کہ اب لاتوں اور حوالاتوںکی دنیا میں لفظوں اور پیروڈیوں سے تفتیش ہوا کرے گی؟تھانے اور کچہری کے معاملات دَھول دھپے کی بجائے، مخول ٹھٹھے سے طے ہوں گے؟ بیرکوں سے گالیوں کی بجائے تالیوں کی آواز سنائی دیا کرے گی؟ جب سے ناصر ملک کہ جو پولیس میں افسر، ادبی حلقوں میں ہمارا دوست اور ایم فل اُردو میں شاگرد ہے، کے مزاح کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہے، حیران ہوں کہ اس ظالم نے مجال ہے جو اپنی تحریر کی لطافت کو محکمانہ کثافت سے آلودہ ہونے دیا ہو… ایسے محکمے میں رہتے ہوئے ایک خطرہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تحریر میں شوخی و شرارت کی جگہ تلخی اور تُرشی لے لیتی ہے۔ اس طرح ادب میں ’متشدد مزاح‘ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن کمال ہے جو اس ظرافت نگار نے اپنی پیشہ ورانہ اور محکمے کی ’پیسہ ورانہ‘ صلاحیتوں کو اس لطافت نگری میں مداخلتِ بے جا کی اجازت دی ہو۔ ملک صاحب بالعموم پطرس کے فرحت آمیز اسلوب میں کسی عام سے شخص یا شے کی کہانی سنانے لگتے ہیں اور تجاہلِ عارفانہ و تغافلِ غالبانہ کے ساتھ اس کا تانا بانا بُنتے چلے جاتے ہیں۔ گھمبیرتا سے لطافت کشید کرنا ان کی اضافی خوبی ہے۔ ان کی تحریروں کے مطالعے کے بعد خوشی، خواہش اور خدشہ اس بات کا محسوس ہونے لگا ہے کہ اگر اس محکمے میں ایسے ’خطرناک‘ لوگوں کی بہتات ہو گئی تو شاید کل کلاں کو خفیہ و خوف ناک ہتھکنڈوں کی بجائے قزاق کی مذاق کے ساتھ اصلاح ہونے لگے… ہتھ کڑیاں ہنس کڑیوں میں تبدیل ہو جائیں … اور بدلہ سنجی کی آگ کو ’بذلہ سنجی‘ کی پھوار سے بجھایا جا سکے … کاش!!! آپ نے ڈپٹی نذیر احمد کے کلیم اور ’ظاہر دار بیگ‘ کا قصہ تو بہت سنا ہوگا لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے کلیم سے ملواتے ہیں جنھیں آپ نہایت سہولت سے ’باطن دار بیگ‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان حضرت کا محکمہ بھی ایسا ہے کہ جہاں ہنسنے کو گناہ اور دوسروں کو ہنستا دیکھنے کو گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میری مراد ڈاکٹر محمد کلیم سے ہے، جو مزاح نگاری اور سول سروس کی دو انتہاؤں میں معلق ہیں۔ ان کی دو کتابیں منظر عام پہ آئی ہیں، جن میں پہلے نمبر پر ’’صاحب بہادر کی نگری‘‘ ہے۔ کرنل اشفاق حسین کی ’جنٹل مین بسم اللہ‘ ، قدرت اللہ شہاب‘ کی ’شہاب نامہ اور جناب حسین احمد شیرازی کی ’بابو نگر‘ کے بین بین یہ ایک سول سرونٹ کی دل کشاد کتھا ہے۔ اسلوب میں وہ پختگی تو نہیں لیکن تحریر میں سچ اور خلوص کی چاشنی ضرور موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں ایک خانساماں سے لے کے ایک کمشنر تک کے کرداروں کی شگفتہ تصویر کشی کی ہے۔ انھوں نے افسران کی قسمیں بیان کرتے ہوئے، انھیں سرد، غصیلے، ہو میو پیتھک، نازک اندام اور گدھے کے خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ مزے دار انکشاف یہ ہے کہ اس افسر محلے میں ایمان دار اور مستقل مزاجی سے کام کرنے والے کو گدھا کہا ہی نہیں سمجھا بھی جاتا ہے، جسے اپنے علاوہ دوسرے نکموں کا بوجھ بھی بلا چون و چراں ڈھونا پڑتا ہے۔ ڈاکٹڑ موصوف کی دوسری اور تازہ تصنیف ’’من موجی‘‘ ہے، جس میں ایک فرضی کردار ’جام ساقی‘ کے حوالے سے زندگی سے بر سرِ پیکار دیگر اشخاص اور رویوں کو شگفتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں الفاظ و محاورات اور گرامر کی تحریف کی کاوشیں موجود ہیں لیکن تحریف کے لیے جو قرینہ درکار ہوتا ہے، وہ اکثر مفقود ہے۔لفظی و شعری تصرف مزاح کا لازمہ ہے، لیکن اس میں تکلف و تردد کا در آنا سمِ قاتل ہے۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے کہ اس میں پلّو مار کے دیا بجھانا ہوتا ہے، ’اکھ نال گل کر گئی‘ والا معاملہ ہوتا ہے، اَن کہی سے کہی برآمد کرنا ہوتی ہے۔ نئے مزاح نگاروں کی ہر پل خبر رکھنے کے باوجود امجد محمود چشتی کا نام میرے لیے بالکل نیا تھا۔ ان کا تعلق میاں چنوں سے ہے، پیشہ تدریس ہے۔ ان کی دو کتابیں ’اسکول نگر‘ اور ’سیاست کا جغرافیہ‘ کچھ عرصے سے میرے پاس آئی رکھی تھیں، جن کو مَیں اس تذکرے کے وغیرہ وغیرہ والے حصے میں نمٹانے کا تہیہ کیے بیٹھا تھا لیکن دوستو! ان کی پہلی مختصر سی کتاب ’اسکول نگر‘ جسے مَیں ان کے اسکول کے زمانے کی چھوٹی موٹی ڈائری سمجھے بیٹھا تھا، وہ تو ہمارے پورے تعلیمی نظام کی خفیف صورتِ حال کا لطیف محاکمہ نکلا،جس میں کی ان کی باریک معلومات، عمیق مشاہدے، وسیع مطالعے اور شگفتہ اسلوب کی داد دیے بِنا بات نہیں بنتی۔ کتاب اگرچہ ادق تعلیمی اصطلاحات سے اٹی پڑی ہے لیکن ان کی شریر نگاہی، عمدہ تحریفات اور اشعار کے بر محل استعمال نے اسے بوجھل ہونے سے بچا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دوسری کتاب کو مزید توجہ سے پڑھنے کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔ ہمارے برادرِ خُرد ڈاکٹر محمد اکرم سرا اس وقت میری مادرِ علمی گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں شعبۂ اُردو کے صدر ہیں۔ معروف ادبی مجلے ’نقوش‘ اور ان کا قارورہ گورنمنٹ کالج لاہور میں مزاح کے مشترکہ حوالے کی بنا پر ملا جو قبل ازیں ان کے ایم فل کے مقالے کی تحقیق کی کفالت اور بعد ازاں ایک خوبصورت کتاب ’نقوش اور طنزو مزاح‘ کا سبب بنا۔ تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اُردو مجلاتی مزاح نگاری کی روایت، نقوش میں طنز و مزاح کے گوشے، نقوش کا طنزو مزاح نمبر، نقوش کا شوکت تھانوی نمبر، نقوش کا پطرس بخاری نمبر اور طنز ومزاح کے فروغ میں ’نقوش‘ کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے نہایت مہارت سے ایک تاریخی ادبی مجلے کے ایک مستند و غالب پہلو کو اپنے وقیع تجزیے کے ساتھ ایک جگہ محفوظ کر دیا ہے۔ اکرم سرا خود بھی مزاح نگار ہے اور اس شعبے میں چند سال قبل ’تبسم بر طرف‘ کی صورت ایک عدد شرارت کا مرتکب ہو چکا ہے۔ کچھ عرصے سے تعلیمی اداروں کی ’پانی وچ مدھانی‘ قسم کی سیاست نے اس کے ’اندر کے سرا‘ کو بلاوجہ بیدار کر رکھا تھا، اس کتاب کی اشاعت کو ان کے علمی رجحان کی جانب گریز سمجھا جا سکتا ہے۔