تیسری دنیا میں کسی بھی سطح پر برسراقتدار آنے والا بھول جاتا ہے کہ اقتدار پانی کا بلبلہ ہوتا ہے۔ دائمی اقتدار تو رب ذوالجلال کا ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ داخلی محاذ پر جاری لفظی جنگ سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کا استعفیٰ؟ مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی جناب فواد چودھری وزارت اطلاعات کے ’’جلیلہ‘‘ پر متمکن ہوئے تو ان کی جارحانہ لفظی گولہ باری سے کوئی محفوظ نہ تھا کبھی وہ اپوزیشن پر گرجتے، کبھی سیاست دانوں پر برستے، کبھی صحافیوں کی خبر لیتے اور کبھی الیکٹرانک میڈیا کے پر کاٹنے کی باتیں کرتے۔ ہم نے اسی وقت چودھری صاحب کو دوستانہ مشورہ دیا تھا کہ اتنی تیزی اور تندی اچھی نہیں۔ ہم نے چودھری صاحب کو یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر بھی سنایا تھا ؎ خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھا یگانہ مگر بنا نہ گیا ہمارے مشورے کا خلاصہ یہ تھا کہ تنقید ضرور کریں مگر حفظ مراتب اور پاس ادب کا خیال ضرور رکھیں کیونکہ معلوم نہیں یہ منصب، یہ اقتدار کب تک وفا کرتا ہے کل جب ان لوگوں کا سامنا کرنا پڑے جن پر زہر آلود تیراندازی کرتے رہے ہوں تو آپ کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ آپ آنکھیں نہیں ملا پائیں گے۔ فواد چودھری نے غیروں والی تیر اندازی کا رخ اپنوں کی طرف کیا تو انہیں شدیدردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے کہا کہ فواد چودھری کو معلوم ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی میں باہر سے آ کرشامل ہونے والوں کو عمران خان کے وژن کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا وگرنہ کہیں اور ٹھکانا کرنا پڑے گا اس پر چودھری صاحب نے اپوزیشن کو مخاطب کرنے والے لب و لہجے میں نعیم الحق کو طعنہ دیا۔ ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے چودھری صاحب کا پی ٹی آئی کے ایم ڈی کے رویے اور اس کی عدم اطاعت کے بارے میں ان کا موقف درست ہے مگر وہ یہ بھول گئے کہ پی ٹی آئی میں پیا کی قربت کے لیے چودھری صاحب سمیت سب کو ’’مصاحب‘‘ بننا پڑتا ہے۔ آج فواد چودھری کی وزیراعظم سے ملاقات ہوگی تو ان کے استعفے کی حقیقت آشکار ہوگی۔ خارجہ محاذ پر پلوامہ خودکش حملے کے بعد بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحانہ لفظی جنگ ابھی تک جاری ہے۔ سرکاری و صحافتی سطح پر پاکستان کے خلاف زہر افشانی جاری ہے۔ بھارتی الیکٹرانک میڈیا پر بھی زیادہ تر پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس طرح کی افواہیں بھی ہیں کہ بھارت اندر ہی اندر پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تاہم جنگ کے شعلے بھڑکانے والوں کو یہ ہرگز اندازہ نہیں کہ دو ایٹمی قوتوں کے تصادم سے کتنا بھیانک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس الزام تراشی اور دشنام طرازی کے باوجود خود بھارت کے اندر سے بھی عدالتی، صحافتی اور عسکری سطح پر ایسی آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ جو بھارتی سرکار کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کر رہی ہیں۔ را کے سابق چیف اے ایس دلت نے کہا ہے کہ بھارت میں طبل جنگ بجانے والوں کو اندازہ نہیں کہ جنگ کوئی پکنک نہیں ہوتی۔ بہت سے بھارتی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پلوامہ حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ بھارت میں اگر کسی بھی سطح پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس ساری صورت حال پر غوروخوض ہورہا ہو تو انہیں سوچنا چاہیے کہ اس حملے کا بینفشری کون ہے۔ پاکستان میں ایک اہم ترین مہمان آ رہا تھا کیا اس موقع پر خطے میں غیر یقینی صورت حال پاکستان کے حق میں تھی یا اس کے خلاف؟ پاکستان کو اس موقع پر ایسے خودکش حملے کا نقصان ہی نقصان تھا فائدہ کوئی نہیں۔ یکم اور 2 مارچ کو ابوظہبی میں ہونے والی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جانا پاکستان کی وزارت خارجہ کی ناکامی اور بھارتی وزارت خارجہ کی کامیابی ہے۔ اس سے پہلے جب کبھی او آئی سی کے کسی اجلاس میں انڈیا کو کسی بھی حیثیت میں مدعو کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان نے اس کی شدید مخالفت کی اور تنظیم کو یاد دلایا کہ اس کی رکنیت کے لیے کسی بھی ملک کا مسلمان ہونا اولین شرط ہے۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر داخلہ اور اہم رہنما احسن اقبال نے بھارتی وزیر خارجہ کی او آئی سی تعاون میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے متوقع شرکت کو پاکستان کے وزیر خارجہ کی مکمل ناکامی قرار دیا ہے اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ استعفیٰ تو شاہ صاحب دیں یا نہ دیں مگر اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کریں کیونکہ ماضی میں کبھی پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو نہیں آنے دیا۔ پاکستان وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی امن کو ایک موقع دیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ پلوامہ واقعے پر میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔ یعنی ہر طرح کی تحقیق کے لیے ہم تیار ہیں۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم کو یاد دلایا کہ آپ کے ساتھ 2015ء میں ہونے والی ملاقات کے دوران غربت اور جہالت کے خاتمے کے لیے خطے میں قیام امن پر اتفاق ہوا تھا۔ پاکستان اور انڈیا اگر فی الواقع خطے میں امن چاہتے تو دونوں ممالک کوقیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ اس ترجیح کی تکمیل کے لیے دونوں ممالک کو اپنی اپنی داخلی پوائنٹ سکورنگ کو قیام امن کے پروگرام سے بالکل الگ تھلگ رکھنا ہوگا۔ اٹل بہاری واجپائی کی بذریعہ بس پاکستان آمد کے بعد کارگل کا ایشو کھڑا کر کے لاہور پراسس کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔ بعدازاں جنرل پرویز مشرف نے قیام امن کے لیے واجپائی سے آگے بڑھ کر مصافحہ بھی کیا اور آگرہ بھی گئے۔ اسی طرح جب مودی چل کر پاکستان آئے تو اسی وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف ایک منفی فضا پیدا کی گئی۔ اب وہی عمران خان بار بار قیام امن کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی طرح بھارت میں خود نریندر سنگھ مودی الیکشن جیتنے کیلئے پاکستان مخالف جنون پیدا کرتے ہیں۔ اس وقت بھارت کے اندر سنجیدہ طبقہ جنگ کی ہولناکیوں کا ادراک کر کے جنگی جنون کی مخالفت کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر بقول محبوبہ مفتی امریکہ، چین، روس اور سعودی عرب وغیرہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان حالات میں بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی حماقت تو نہیں کرے گا لیکن الیکشن جیتنے کے لیے مودی بھارت میں جنگی جنون برقرار رکھنے کے لیے سرحدوں پر ’ٹھوں ٹھا‘‘ کرتے رہیں گے۔ مودی کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کشمیر میں مزید فوج بھیج کرجتنا ظلم کریں گے اتنا ہی کشمیریوں کی تحریک مزاحمت زور پکڑے گی۔ اس سارے مسئلے کا ایک حل ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات ہیں۔ عمران خان امن کی پیشکش کے باوجود دفاع وطن کے تقاضوں سے غافل نہیں ہوں گے۔ خان صاحب اپوزیشن کے خلاف لفظی جنگ بند کر کے پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں اور پوری قوم کے ایک پیج پر ہونے کا بھرپور پیغام دیں۔