سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا نے فرمایا کہ دعا تو دل کی تسلی کے لیے ہے ورنہ ہوتا وہی ہے جو اللہ جل شانہ چاہتے ہیں۔ حضرت کا یہ قول وزیراعظم عمران خان کی وہ تصویر دیکھ کر یاد آیا جس میں وہ مسجد نبویؐ میں نہایت خشوع و خضوع سے دعا مانگنے میں مصروف ہیں۔ ان کے ساتھ ہی وزیر خزانہ اسد عمر بھی بیٹھے ہیں۔ ملک بقول وزیراعظم اس وقت بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے اور دوست ممالک سے قرضہ نہ ملا تو دیوالیہ ہونے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ دعا سے تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ خداوند تعالیٰ نے جو قوانین بنا دیئے ہیں، یہ کائنات ان ہی قوانین کے تابع ہے۔ سیب کے درخت سے سیب ہی پیدا ہوتا ہے اور ببول کا درخت کانٹوں ہی کی افزائش کرتا ہے۔ کوئی دعا اس قانون کو نہیں بدل سکتی۔ ملک کو جس اقتصادی بحران کا سامنا ہے، اس کے ذمہ دار سابق حکمران اور ان کا ٹولہ ہے۔ اس بحران سے ملک محض دعائوں سے نہیں نکل سکتا۔ ضرورت ایسی تدابیر اختیار کرنے کی بھی ہے جس سے معلوم ہو کہ حکومت صحیح سمت میں قدم اٹھا رہی ہے جس طرح بیمار کی صحت دوا اور دعا دونوں سے مشروط ہے اسی طرح ہماری اقتصادی بدحالی ان امراض کا نتیجہ ہے جو سالہا سال سے غلط معاشی پالیسیوں کے سبب لاحق ہوئے اور اس کا سارا بوجھ نومنتخب حکومت کے ناتواں اور ناتجربہ کندھوں پر آن پڑا ہے۔ حکمران نیک دل، نیک نیت اور نیک اطوار ہو تو بلاشبہ غیب سے مدد بھی ہوتی ہے لیکن اس کے لیے حسن تدبیر اور حسن کلام بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم ہوں یا ان کے ترجمان وزراء کرام ان کے لب و لہجے کی کڑواہٹ اور پھر خود کو نجات دہندہ قرار دینے کے دعوے، یہ رویہ نہ خدا وند تعالیٰ کے لیے پسندیدہ ہے اور نہ اہل دانش کے نزدیک قابل قبول۔ عوام نے اپنے ووٹوں سے جو عظیم ذمہ داری سونپی ہے اسے پورا کرنے کے لیے عجز و انکسار حکمت و دانائی اور اعلیٰ اخلاقی محاسن اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہیں۔ یہ کہنا کہ میں قوم کو اس بحران سے نکال لوں گا، قوم فکر و تردد میں مبتلا نہ ہو۔ ایک طرح سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی اور ایک پوشیدہ دعوے کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ یوں کہا جائے کہ ہم سب اپنے اتحاد اور مشترکہ کوششوں سے ملک کو اقتصادی بحران کے دلدل سے نکال لیں گے۔ جب آپ دوسری جماعتوں اور سیاست دانوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلانے کی دھمکی دیں گے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر آپ کے خلاف مل کر سینہ سپر ہو جائیں گے اور آپکا کام اور دشوار ہوتا جائے گا۔ حکومت میں آ کر دشمن کو دوست بنانا دانائی ہے یا اپنے کڑوے سچ سے دشمنوں کو اپنے خلاف محاذ بنانے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا عقل مندی ہے؟ بیس بائیس سال تک اپوزیشن میں رہ کر جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا، حکومت میں آ کر اسی لب و لہجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ ہمارے ہاں اپوزیشن کو یہ کھلی چھوٹ ہوتی ہے کہ وہ جو جی چاہے کہے۔ یہاں تک کہ دروغ گوئی اور دشنام طرازی کا بھی اسے کھلا لائسنس ملا ہوتا ہے لیکن حکومت سنبھالنا ایک بڑی ذمہ داری کوقبول کرنا ہے۔ حکومت کے اہم ترین منصب پر رہتے ہوئے اپنے طرز بیاں اور طرز عمل دونوں ہی کو اعلیٰ اخلاقی محاسن سے متصف رکھنا ہی احسن ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے کتنی ہی دعائیں ایسی سکھائی ہیں جس میں اعلیٰ اخلاق کو اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ کوئی دعا اگر مقبول ہوتی ہے تو اس لیے بھی کہ دعا کرنے والا معیار اخلاق کی کسی بلندی اور پاکیزگی کا حامل ہے۔ کپتان وزیراعظم ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا مبارک عزم رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہی ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں آباد یہودیوں سے میثاق مدینہ کے ذریعے وہ معاہدہ کیا تھا جس میں انہیں مسلمانوں کے برابر حقوق عطا کئے گئے تھے۔ کپتان عمران خان کو بھی اپنے مخالف سیاست دانوں اور مخالف سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ملک کو جو بھی اقتصادی بحران درپیش ہے، وہ سب کے لیے ہے۔ خدانخواستہ اگر دیوالیہ ہونے کی نوبت آتی ہے تو اس کے اثرات بد سے سبھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے ہم سب کو مل کر اس بحران کا مقابلہ کرنا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اگر خاموشی سے اسی ساری صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں تو صرف اس لیے کہ آئندہ جو بھی خرابیاں ہوں۔ اس کی ذمہ دار نومنتخب حکومت ہی ہو اور نومنتخب حکومت کی ناکامی، ان کی پیدا کردہ خرابیوں کا جواز ہو۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا آصف زرداری کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں نومنتخب حکومت کو ناکام بنانے کے لیے اکٹھا ہورہی ہیں۔ ہر چندکہ آصف زرداری نے یہی عندیہ دیا ہے کہ ہم نئی حکومت کو ہٹانے کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں اور یہ بھی کہ ملاقات کا مقصد حکومت کو گرانا نہیں بلکہ اسے چلانا ہے۔ آصف زرداری سیاست کے گرگ باراں دیدہ ہیں۔ وہ اپنے جتنے پتے میز پر رکھتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ پتے چھپا کر رکھتے ہیں۔ اس کا پورا امکان ہے کہ نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی اگر آصف زرداری اور نوازشریف قریب آتے ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ، بدعنوانیوں میں خاطر خواہ کمی کا نہ ہونا، عدل و انصاف کی وہی دگرگوں صورت حال اور امید کی کسی کرن کا نہ پھوٹنا اس لیے کہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی اقتصادی بدحالی کے اولے گرنے لگے۔ یہ ساری صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ سیاسی دشمنوں کو اپنا سیاسی دوست بنایا جائے۔ فاصلوں کو قربتوں میں بدلا جائے۔ مدت اقتدار کے پورا ہونے سے پہلے ہی حکومت کے جانے کی پیش گوئیاں کوئی اچھی علامت نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کسی کی فیورٹ نہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ابھی حکومت کو آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نئی حکومت ابھی تک طے نہیں کرپائی کہ اصلاحات کا آغاز کرے تو کہاں سے اور کیوں کر کرے۔ پولیس کی اصلاح، نظام تعلیم کی درستگی، غربت مٹائو مہم اور اس طرح کے بے شمار دعوے جو عمران خان حکومت میں آنے کی صورت میں روبہ عمل لانے کے کرتے رہے تھے، اس طرف تاحال کوئی پیش قدمی نہیں ہو سکی ہے۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کے لیے انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب ایک ناتجربہ کار ہاتھوں میں دے کر کسی دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اب وزارت اعلیٰ کے لیے جو مشاورتی کونسل انہوں نے بنائی ہے اس میں بھی ایسے صنعت کاروں کی کثرت ہے جن کی یا تو شہرت اچھی نہیں یا پھر یہ طے نہیں کہ مشاورت کی صورت کیا ہوگی؟ وزیراعلیٰ پنجاب اس کونسل کے کتنے تابع ہوں گے اور اس کونسل کی دستوری حیثیت کیا ہوگی؟ اسی طرح چھتیس اداروں کی جو خزانے پر بوجھ ہیں، نجکاری پر غور کیا جارہا ہے۔ وفاقی کابینہ میں مزید توسیع کا بھی امکان ہے۔ کیا فی الواقع ایسا کرنے کی ضرورت ہے بھی یا اس ضرورت کی نوعیت محض سیاسی ہے۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار میں آ کر کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، اس کا بلیو پرنٹ پہلے سے تیار نہیں کیا گیا تھا اور اب اقتدار میں آ کر عجلت پسندی میں وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جس پر نہ پہلے سے اچھی طرح غوروخوض کیا گیا تھا اور نہ ان کے مضمرات کا جائزہ ہی لیا گیا تھا۔ قوم کی نیا جب منجدھار میں پھنس گئی ہوتو دعائوں کی ضرورت تو ہے لیکن محض دعا سے کب کوئی شفا یاب ہوا ہے۔ دعا کے ساتھ دوا بھی لازم ہے۔ اس لیے ہماری دعا تو یہی ہے کہ خداوند تعالیٰ وزیراعظم کے تدبر اور فہم و بصیرت میں اضافہ کرے کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی میں سارے فیصلے درست سمت میں کریں۔ ان کے مخالفین، حاسدین اور نکتہ چینوں کو بھی توفیق دیں کہ مخالفت برائے مخالفت کے بجائے نصیحت، تنقید برائے اصلاح اور تعاون برائے تعمیر کا رویہ اپنائیں۔ اس لیے کہ جمہوریت اگر ہماری منزل ہے تو روح جمہوریت یہی ہے کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور اس باب میں زیادہ ذمہ داری خود وزیراعظم، ان کے رفقا اور ان کی پارٹی پر عاید ہوتی ہے کہ وہ بدعنوانی کے نام پر ڈرانا دھمکانا چھوڑ کر تعمیروطن کے لیے ہر ایک سے تعاون حاصل کریں۔ یہ ملک باہمی اتحاد اور تعاون ہی سے قائم ہوا تھا اور اسی طرح یہ ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتا ہے۔