طالبان کے افغانستان میں دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کا تصور کرتے ہی جن افراد، قبائل اور سیاست دانوں کی سانسیں رُک جاتی ہیں، چہرے کا رنگ زرد ہو جاتاہے اور انہیں اپنے مفادات کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آتا ہے، ان میں سب سے اہم گذشتہ سو سالہ پاکستان مخالف پشتون قوم پرست سیاست کے امین لوگ ہیں۔ قیامِ پاکستان ان رہنماؤں کی زندگیوں کا بنیادی المیہ ہے۔انگریز کے تقسیم کردہ صوبوں میں منقسم یہ پشتون رہنما، شمال مغربی سرحدی صوبے میں خان عبد الغفار خان اور برٹش بلوچستان میں خان عبد الصمد اچکزئی کی ذرّیت۔ یہ اور ان کے سیاسی وارث آج بھی کھلے اور دبے دونوں الفاظ میں پاکستان کے مستقبل پر تبصرہ کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ملک نہیں رہ سکتا، کیونکہ اسے انگریز نے یہاں کے عوام کو تقسیم کر کے کمزور رکھنے کیلئے بنایا تھا۔اس ضمن میں خان عبد الغفار خان کے بیٹے اور اسفند یار ولی کے والد خان عبدالولی نے ایک کتاب ’’حقائق حقائق ہیں‘‘ بھی لکھ ڈالی۔ یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تو بنگلہ دیش کی تخلیق کے زخم ابھی تازہ تھے۔ ولی خان نے برطانیہ کی انڈین آفس لائبریری اور دیگر کتب خانوں میں موجود دستاویز کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مسلم لیگ کا قیام اور اس کی جدوجہد کو انگریز کی آشیرباد حاصل تھی۔ اس کتاب کا علمی اور تحقیقی جواب بار بار لوگوں نے دیا، خصوصاً انہی دنوں میں ضیاء شاہد مرحوم نے ایک حیران کن اور مدلل کتاب بھی تحریر کی۔ پاکستان کے بارے میں ان رہنماؤں کا یقین پختہ ہے کہ یہ انگریز کا تراشیدہ ہے اور ڈیورنڈ لائن دراصل پشتونوں کو تقسیم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی،اس لیے اب اس تقسیم کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن منافقت کا عالم یہ ہے کہ شمالی مغربی سرحدی صوبے، قبائلی علاقہ جات اور برٹش بلوچستان کی جو لکیریں انگریز بہادر نے کھینچیں تھیں انہیں یہ رہنما اتنا مقدس اور محترم مانتے ہیں کہ جب بابا حیدر زمان نے ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور اور اس سے ملحقہ علاقوں سے وہاں کے رہنے والے ہندکو قبائل کی بنیاد پر ایک علیحدہ صوبے کی تحریک شروع کی تو یہ لوگ ایسے بپھر گئے ،کہ اگر تربیلا ڈیم کی رائلٹی ان کے ہاتھ سے گئی تو یہ خون کی ندیاں بہادیں گے۔ قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کو بھی انگریز نے تقسیم کر کے ان سے علیحدہ کیا تھا اور یہ لوگ ستر سال تک انہیں اپنا حصہ ماننے کو تیار نہ تھے۔بلوچستان کے پشتونوں کوتو یہ اپنے مقابل میں چرواہے خیال کرتے تھے، اسی لیے عبد الصمد خان اچکزئی نے خان عبد الغفار خان سے علیحدہ ہو کر پشونخواہ ملی عوامی پارٹی بنائی تھی جو آج بھی صرف بلوچستان کے پشتونوں تک محدود ہے۔ ان دونوں خاندانوں کی سیاست کی ساری گرم بازاری انگریز سلطنت اور زارِ روس کی سلطنت کی قدیم کشمکش کی پیداوار ہے۔ دونوں قوتوں میں علاقے فتح کرنے کی جنگ جاری تھی۔ زارِ روس کی افواج نے 1839ء میں ازبکستان، تاجکستان، کرغستان، کازکستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کو فتح کرنا شروع کیااور 1895ء تک اس نے اپنی سرحدیں افغانستان کے دریائے ایموں تک پہنچا دیں۔دوسری جانب برطانیہ نے اپنی ہندوستانی سلطنت کو مغرب کی جانب بڑھانا شروع کیا اور صوبہ سرحد اور بلوچستان کے علاقے فتح کرتے ہوئے ،افغانستان کی جانب پیش قدمی کی ،لیکن 1842ء میں جب کابل کے غیرت مند مسلمان افغانوں نے بیس ہزار برطانوی سپاہیوں کی مقتل گاہ سجا کر ایک سرجن ولیم برائیڈن کو یہ سندیس دے کر بھیجا کہ اس سرزمین کا رخ کرتے ہوئے سو بار سوچنا کیونکہ یہاں اللہ پر توکل رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ یہ وہ عبرتناک شکست تھی کہ خوف میں ڈوبی زارِ روس اور برطانوی سلطنتوں نے اپنی اپنی بادشاہتوںکے تحفظ کے لیے افغانستان کے خطے کو اپنے لیے ایک بفرزون بنادیا،جس کی سرحدیں ایک جانب دریائے ایموں پر روک دی گئیں اور دوسری جانب انگریزنے ’’معاہدہ گندمک‘‘ کے تحت اپنے اور افغانوں کے درمیان ایک لکیر’’ڈیورنڈ لائن‘‘کھینچ دی ۔یوں اس ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب رہنے والے پشتون آپس میں تقسیم کردیئے گئے۔ افغانستان والے پشتون تو ایک افغان حکومت کے ماتحت آگئے،لیکن جوبرٹش ہندوستان میں رہتے تھے وہ انگریز سے اپنی حقِ وفاداری کا نمک بھی وصول کرنے لگے اور ساتھ ساتھ زارِ روس اور پھر 1917ء میں آنیوالے کیمونسٹ انقلاب والے روس سے بھی خفیہ رابطوں کے ذریعے اپنی ’’قیمت‘‘ یعنی بارگین میں اضافہ کرواتے رہے۔گذشتہ سو سالہ تاریخ میں سرحد پر رہنے والے یہ پشتون خاندان انگریز کی بنائی ہوئی لیویز میں مستقل اعلیٰ عہدیدار چلے آرہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی وفاداریوں کی قیمت روس اور بھارت نواز افغان حکومت سے بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ان قوم پرستوں کے لیے سب سے فائدہ مند وہ افغان حکومت ہوتی ہے جو ڈیورنڈ لائن پر تنازعہ کھڑا کرے، پاکستان سے تعلقات کو کشیدہ رکھے اور ہمیشہ اس عالمی طاقت کے ساتھ ہو جس کی مخالف عالمی طاقت پاکستان کی حمایت کر رہی ہو۔ جب وہاں روس آیا تو دونوں رہنما روس کے ساتھ تھے اور مجاہدین کو امریکی استعمار کہہ کر گالی دیتے تھے ، لیکن جیسے ہی وہاں امریکہ آگیا ، دونوں نے امریکی پرچم اٹھایااور اس کے ساتھ ہو گئے۔ روس نے ترکئی، کارمل، حفیظ اللہ اور نجیب اللہ کو تحت پر بٹھایا تو یہ سب ان کے ہیرو تھے اور آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین ان کے دشمن۔ اسی طرح جب امریکہ نے حامد کرزئی اور اشرف غنی کو تحت پر بٹھایاتو یہ ان کے ہیرو بن گئے اور آزادی کی جنگ لڑنے والے طالبان ان کے دشمن۔ لیکن طالبان سے انکی نفرت غضب کی ہے۔ اس لیئے کہ افغانستان کی تاریخ میںجنوری1995ء سے لے کر اکتوبر 2001ء تک تقریباً چھ سال ایسے ہیں کہ طالبان حکومت کی وجہ سے ان دونوں قوم پرست گروہوں کا سیاسی، معاشی اور قبائلی کاروبار دفن ہوکر رہ گیا تھا۔ نہ وہاں افیون کاشت ہوتی تھی اور نہ ہی سمگلنگ،نہ پاکستان سے گاڑیاں اغواء ہوکر وہاں جا سکتی تھیں اور نہ ہی اغوا برائے تاوان کی کوئی پناہ گاہ افغانستان میں موجود تھی۔ کسی مجرم ، قاتل، اغوا کار، بھتہ خور یہاں تک کہ کسی سیاسی مفرور کو بھی ٹھکانہ نہیں ملتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی دوبارہ افغانستان آمد سے یہی دو گروہ شدت سے لرزہ براندام ہیں۔ پشتونوں کے درمیان ڈیورنڈ لائن کی تقسیم ’’شوراوک ‘‘کے علاقے سے شروع ہوتی ہے جو کوئٹہ کا جنوب مغرب ہے۔وہاں سے یہ تقسیم شمال کی سمت’’واخان ‘‘تک جاتی ہے۔اس تقسیم میں بلوچستان کا مرکزی علاقہ چمن اور پشین کا ہے جہاں اچکزئی قبیلہ آباد ہے۔ اس علاقے کا ایک وسیع سطح مرتفعائی مقام ’’دوبندی‘‘ہے ،جس کی وسعتوں میں اگر آپ کھوجائیں تو راستہ ملنا مشکل ہوتاہے۔ انسانی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی سے دور یہ پرسکون جنت جہاں اچکزئی قبائل آباد ہیں، میں جب پہلی دفعہ 1987ء میں اس علاقے میں گیا تو اس کے حسن اور وسعتوں میںایسا کھویا کہ گھنٹوں گم سم رہا۔ اس علاقے کے اچکزئی قبائل کو قبائلی عصبیت، پشتون روایت اورجھوٹے علاقائی حالات بیان کر کے ستر سال سے مسلسل ورغلایا جاتا رہاہے۔ لیکن اسی سرزمین سے اور انہی اچکزئی قبائل سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسے نوجوان کو پیدا کیا جو ان اچکزئیوں کی اولاد میں ہے، جو قوم پرست گروہوں کا ہراول دستہ تھے۔ یہ نوجوان حفیظ اللہ خان ہے،بلا کا خوش نویس ہے، خوبصورت گفتگو کرتا ہے۔لیکن اس نے ایک کمال کر دکھایا۔وہ گذشتہ دنوں ’’فلسفہ پشتونستان‘‘ کے نام سے 272صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب مارکیٹ میں لایا ہے کہ یوں لگتا ہے اس نے گذشتہ ایک سو سالوں میں اٹھنے والے تمام سوالوں کا تاریخی طور پر جواب دے دیا ہو۔اپنے آباء و اجداد کی غلطیوں کا ازالہ اس سے بہترانداز میںنہیں ہو سکتا تھا۔ کتاب بتاتی ہے کہ کیسے قیام پاکستان کے پہلے دن سے لے کر آج تک اچکزئی قبائل کو افغانستان سے امداد اور اسلحہ کے ساتھ ٹریننگ بھی ملتی رہی ہے۔ کتاب میں نہ صرف واقعات کا ذکر ہے بلکہ تصویری اور دستاویزی شہادتیں تک موجود ہیں۔ شاید ہی کوئی سوال ایسا ہو جو ولی خان کی کتاب ’’حقائق حقائق ہیں‘‘ سے لے کر اب تک اٹھایا گیا ہو اور اس نوجوان نے اس کا حیران کن جواب نہ دیا ہو۔لگتا ہے سرمائے کی کمی کی وجہ سے قلم فاؤنڈیشن والٹن لاہور نے کتاب سادہ سی چھاپی ہے۔ اسے تو بہت دیدہ زیب اور جاذبِ نظر چھپ کر ہماری ہر لائبریری ، کالج اور سکول کی زینت ہونا چاہیے۔