شہریت ترمیمی ایکٹ کم ازکم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کوئی حیرت واستعجاب کامعاملہ تھا اورنہ ہی وہ اسے کوئی انہونی سمجھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کسی کے چہرے پہ خوف کے آثار نظرنہیں آرہے۔ انہیں اس امرکابخوبی علم تھاکہ مودی ان کے لئے ہٹلربن کرآچکاہے ۔شہریت ترمیمی ایکٹ لائے جانے کے بعد سے ایک طرف باشندگان ہند میں روز بروز بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ، مزاحمت میں ہر دن شدت آ رہی ہے، جو ایک خوش آئند اشارہ ہے اورممکن ہے کہ ہندوستان کے ٹوٹ جانے کایہ نقطہ آغاز ثابت ہو۔شہریت ترمیمی بل (CAA CAB)کے کالے قانون کے خلاف پورے ہندوستان میں صدائے احتجاج بدستورجاری ہے۔ہندوستانی یونیورسٹیز کے طلبہ نے نہ صرف یہ کہ اس بل کے خطرناک منصوبوں کو سمجھا؛ بلکہ اس کے خلاف زور دار آواز بلند کی اورمسلمانان بھارت کی حفاظت کے لئے ہر جبر و تشددکے با وجود سینہ سپرہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ طلبہ کے اس جوش و جذبے اور ان کی بیدار مغزی اور ان کی ہمت مردانہ کوسلام ہے۔ اس قابل فخر تاریخی اقدام جو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شروع ہوا ہے کو ہندوستان کے مسلمانوں کے روشن مستقبل کا اشارہ سمجھاجاناچاہئے۔ ان حالات میں ہندوستان کی مسلم قیادت پہ سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں، دور قریب سے یہ آواز سنائی دے رہی ہے کہ کہاں ہے مسلم قیادت؟ کیوں ان کی زبانوں پہ مہر لگ گئی ہے؟ اگر قیادت لیڈر شپ ایک با شعور، با صلاحیت ، مخلص اور بیدار مغز ہیئت ترکیبی کا نام ہے تو ہندوستانی مسلمانوں میں وہ قیادت موجود ہے،وہ ہر گز بانجھ نہیں ہے۔البتہ اگر کسی فرد واحد کی آمریت ، یا کسی متفق علیہ نجات دہندہ کا نام قیادت ہے تو مسلم قوم ایسی قیادت سے یقینا محروم ہے۔ لیکن اس قسم کی سوچ ناقص علم و آگہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لیکن ہندوستانی مسلمانوں کواس امر میں سخت حیرانی ہے کہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے ملت کے جگر گوشوں اور تعلیمی اداروں کے طلبہ نے جس بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے اور میدانِ انقلاب میں کود پڑے ہیں مگرمسلمان جماعتوں کے قائدین ان بچوں کی ہمت افزائی کرنے ،ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے اور اور ان کی پشت پناہی کرنے کے لئے ایک ہنگامی میٹنگ تک نہیں بلاسکے ۔ اس قدر سرد مہری کا مظاہرہ کیوں؟ یہ تو ان کے وجود و بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر اس وقت نہ اٹھے تو مستقبل کا مورخ ہر گز ان کو معاف نہیں کرے گا۔ طلبہ نے جس محاذکا انتخاب کیا ہے اسی کی جیت میں ہی بھارت کے مسلمانوںکی حفاظت پنہاں ہے۔گراس وقت طلباء تحریک کو مسلم قیادت کی بھر پور حمایت اور پشت پناہی حاصل نہ ہوئی تو اس قیادت پہ ظلم کی تائید کرنے کا الزام عائد ہو گا ۔ ہندوستان میں مسلم قیادت ہے ، یعنی وہ قیادت موجود ہے جو قرآن و سنت کی کسوٹی پر کھرے اترنے والے اصولوں کی روشنی میں ملت کی رہنمائی کی اہلیت رکھتی ہے ۔ کیا اس اہلیت کے بغیر ہی مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیت علمائے ہند،جماعت اسلامی ہند، جمعیت اہل حدیث ، بریلوی مکتبہ فکر اور اہل تشیع کی اپنی اپنی تحریکیں اپنے اپنے کاز میں سرگرم سفر ہیں ؟ اصل سوال اس وقت یہ ہے کہ یہ تنظیمیں کہاں روپوش ہیں؟ یہ اپنی الگ الگ قیادتوں کے ساتھ مشترکہ ملی ،قومی اور وطنی مسائل پہ مشاورت کے لئے ابھی تک یکجا کیوں نہیں ہوئیں ؟ہندوستانی مسلمانوںکی حفاظت کی خاطران کی فکر مندی، ان کی سرگرمیاں اور ان کی فراست ایمانی کے جلوے ابھی تک کیوں نمودار نہیں ہوئے؟اگر یہ تنظیمیں اپنی اپنی مصلحتوں کی بنا پر متحدہ پلیٹ فارم تشکیل نہیں کر سکتیں تو کم از کم مشترکہ مفادات میں مشاورت تو کر سکتی ہیں ، لائحہ عمل وضع کر کے ملت کی رہنمائی تو کر سکتی ہیں ، بکھرے ہوئے منتشر اجزا کو جوڑ کر ایک متعین سفر کی سمت رہنمائی تو کر سکتی ہیں ، اگر یہ سب کر سکتی ہیں تو پھر کیوں اقدام نہیں کر رہی ہیں ؟ آخر کس دن کا انتظار ہے ؟ واضح رہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ ہندوستانی مسلمانوں کے وجود کو ملیامیٹ کر ے گا ۔ اگر اس وقت مسلم قیادتیں اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں سے باہر نہیں آتیں، اپنی اپنی مصلحتوں کے خول سے نہیں نکلتیں ، یا گھر بیٹھے ہی کم از کم اپنے جگر گوشوں کے انقلابی مزاحمت کی رہنمائی نہیں کرتیں ، اگر حالات کی پکار اور وقت کے ضمیر کی آواز کو نہیں سنتیں ۔ اگر اپنی سرد مہری کوترک کر کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جس اہم اورزبردست اقدام کا آغاز ہوا ہے اس کو نتیجہ خیز بنانے میںاپنا کردار ادانہیں کرتیں۔ ابھی تک جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک منتشر بھیڑ ہے اسے مزید مفید ، کار آمداور منصوبہ بندی سے انجام تک پہنچانے کے لئے مسلم قیادت کوباضابطہ طورپرآگے آناہوگا ، کیونکہ ہندوستان کے مسلمان انہیں امید و بیم کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اگرہندوستانی مسلمانوں پرمسلط کردہ یہ جنگ آج نہ جیتی گئی تو پھرسارا ہندوستان مسلم کش فسادات کا شکار ہو جائے گا۔ یوپی اور بعض دوسری ریاستوں میں مسلمانوں پر اس قدر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا، درون خانہ پردہ نشینوں کی عزتوں سے کھلواڑ ہورہاہے، مسلمانوں کی جائیدادیں قرق کی جارہی ہیں، دوکان ومکان پر قبضہ کیا جارہاہے، اور وہ سب دوہرایا جارہاہے کہ جو یہودیوں کو بسانے کے لیے ارض فلسطین پہ کیا گیا، ایسے میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مزاحمت کے سوا کیا کوئی اور راستہ رہ جاتا ہے؟ کیا صرف کاغذات ٹھیک کرالینے کی بات کرنا سادہ لوحی نہیں ہوگی؟ کیا شہیدوں کا خون رائیگاں جائے گا؟ کیا عام برادرانِ وطن کی طرف سے ملک کے تاراج ہونے کے جس خوف کا اظہار کیا جارہا ہے اس کو سنجیدگی سے لیا جائے گا؟ کیا ہندوستان کے مسلمان جان ومال کی مزید قربانیوں کا عزم کرسکیں گے؟ یا وھن کے شکار ہوکر ذلت وپستی پر راضی رہیں گے؟ یا انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ مردان حرثابت ہونگے؟ اگر ایسا ہے تو مردان حر اٹھیں اور اپنے حصے کا کام کرجائیں۔