تقریباً 70 سال قبل ہمارے وطن عزیز کا دستور پہلی مرتبہ 26 جنوری 1956ء کو نافذالعمل ہوا۔ یہ 146,385 الفاظ پر مشتمل ایک ضخیم دستور ہے اور اسے ساری دنیا میں پسند کیا گیا۔ حالیہ عرصہ کے دوران سارے ملک اور ساری دنیا نے طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کا مشاہدہ کیا اور ان مظاہروں میں دستور کا موضوع بار بار اْٹھتا رہا یعنی دستور موضوع بحث رہا۔ مظاہرین اپنے دفاع میں دستور کا دیباچہ یا تمہید بار بار پڑھ رہے ہیں۔ احتجاجیوں کا ماننا ہے کہ ملک میں فی الوقت دستور کے بنیادی اصولوں کو کمزور کیا جارہا ہے اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ حکومت کررہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ دستور ہند کی بقاء کے بارے میں خدشات ظاہر کئے گئے بلکہ 70 سال قبل دستور ہند کے وجود میں آنے کے بعد وقفہ وقفہ سے اس کی بقاء کو لاحق خطرات کے بارے میں خدشات ظاہر کئے جاتے رہے ہیں۔ 26 جنوری 1950ء کو پہلی مرتبہ ہمارا دستور نافذالعمل ہوا۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ دستور ہند کی جو عمر ہے، وہ اپنے آپ میں خود ایک مثال ہے۔ خاص طور پر جب ہم قومی دستور سے متعلق عالمی تجربہ سے دستور ہند کا تقابل کرتے ہیں۔ امریکن اسکالرززچاری اپلیکنس ٹام گتسبرگ اور جیمس میلٹن نے سال 2009ء میں(قومی دستور کی بقاء ) کے زیرعنوان ایک کتاب لکھی اس میں بتایا گیا کہ دستور 1789ء سے اوسطاً صرف 17 برس ہی باقی رہا جبکہ جنگ عظیم دوم کے بعد جو نوآبادیات نے آزادی حاصل کی، ان ممالک کے دستور خاص طور پر مجہول رہے۔ مثال کے طور پر پاکستان، اس کے تین مختلف دستور ہے اور اس ملک نے زیادہ عرصہ بناء و دستور کے گذارا۔ جنگ عظیم دوم کے فوری بعد جن 12 ایشیائی ملکوں نے آزادی حاصل کی اور دستور کا مسودہ تیار کیا، ان میں سے صرف تین ملکوں کے دستور باقی ہے اور یہ تین ملک ہندوستان، تائیوان اور جنوبی کوریا ہیں۔ ان امریکی اسکالرزنے ہندوستانی دستور کی بقاء کیلئے اس کے ڈیزائن اور اس کی دیکھ بھال (جس طرح آزادی کے بعد ہمارے قائدین نے اس کے تحفظ کا خیال رکھا اور اس کی تدوین) کو ذمہ دار قرار دیا۔ دستور کی تیاری یا دستور سازی کا آغاز آزادی سے قبل 1946ء میں ہوچکا تھا۔ اس کی تیاری یوں ہی عمل میں نہیں آئی بلکہ تقریباً 300 ارکان پر مشتمل ایک منتخبہ دستور ساز اسمبلی نے چار برسوں تک اس پر مسلسل مباحث کئے اور دستور کے ہر نکتہ اور ہر پہلو پر تفصیلی غوروخوض کیا۔ دستور ساز اسمبلی کے ان ارکان نے خود ہندوستان کے آئیڈیا سے لے کر وفاقیت کی تمام پیچیدگیوں کا بغور جائزہ لیا اور ایک طویل عرصہ تک بحث و مباحثوں کے بعد ہندوستان کا دستور پائے تکمیل کو پہنچا۔ ہندوستان کے دستور کو دنیا کا ضخیم دستور کہا جاتا ہے جو 146,385 الفاظ پر مشتمل ہے۔ یہ کسی بھی بڑی سے بڑی ناول سے بڑا اور بلاشبہ دنیا کے دیگر ممالک کے دستور سے کئی گنا ضخیم ہے۔ تقابلی دستور پراجیکٹ (CCP) کے ڈیٹا میں دستور ہند کے متعلق مذکورہ نکات پیش کئے گئے ہیں۔ دستور ہند ضخامت کے معاملے میں سب سے آگے لیکن اس کیلئے کوئی مواقع نہیں۔ اپنی طوالت اور ضخامت کے باوجود ہندوستانی دستور دنیا کا جامع دستور نہیں ہے۔ تمام دستور حکمرانی کے اصول اور چوکٹھے قائم کرتے ہیں، لیکن گہرائی اور چوڑائی میں مختلف ہوسکتے ہیں۔ تقریباً تمام دستور مثال کے طور پر فوج اور مسلح فورسز کے حوالہ دیتے ہیں لیکن چند ہی ایسے دستور ہیں جن میں فن اور فنکاروں کا حوالہ پایا جاتا ہے۔ CCP کے مطابق دنیا بھر کے ملکوں میں جو دستور ہیں، ان میں اکثر 70 بڑے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے، کسی بھی ملک کے دستور نے تمام 70 موضوعات کا احاطہ نہیں کیا تھا تاہم چند ایک ملکوں کے دستوروں میں 70 کے قریب موضوعات شامل کئے گئے ہیں۔ کینیا اور زمبابوے کے دستور مثال کے طور پر ان موضوعات کا 80% احاطہ کرتے ہیں۔ دستور ہند میں 60% موضوعات کا احاطہ کیا گیا تاہم عالمی اوسط کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ 58% بنتا ہے۔ دستور کا مرکزی فعل یا کام حکمرانی کی تین شاخوں کو علیحدہ کرنا اور انہیں ان کے فرائض تفویض کرنا ہوتا ہے اور حکمرانی کی یہ تین شاخیں مقننہ، عاملہ اور عدلیہ ہیں اور حس انداز میں دستور یہ کام انجام دیتا ہے، بالآخر ملک کی سیاست، معاشرہ یہاں تک کہ معیشتوں کی تعریف کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 2004ء میں اسٹڈی کی گئی جس میں ٹارٹسن پرسن اور گیڈو ٹیبلینسی نے پایا کہ ایسے دستوری قواعد جو ایک پارلیمانی جمہوریت تشکیل دیتے ہیں، ان میں ایسے دستوروں کی بہ نسبت جو صدارتی نظام قائم کرنے میں بہتر اقتصادی کارکردگی اور معاشی نمو کو فروغ دینے والی پالیسیوں کے ساتھ جڑے رہنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں دستور ساز اسمبلی نے پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام کے درمیان انتخاب کو لے کر کافی مباحث ہوئے۔ ممتاز مورخ رام چندر گوہا نے اپنی انگریزی کتاب ‘‘(ہندوستان ،گاندھی کے بعد : دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تاریخ) میں لکھا ہے کہ ماہرین اور عوام کا ایقان ہے کہ متنوع تہذیب کے حامل اس ملک میں ایک محفوظ حکومت کی ضرورت ہے اور کسانوں کا احساس ہے کہ صرف پارلیمانی نظام ہی مضبوط حکومت فراہم کرسکتا ہے، اس لئے زیادہ تر برطانوی پارلیمنٹ کی بنیاد پر ہندوستان نے ایک ایسا نظام اپنایا جہاں منتخب قانون ساز قوانین کی تدوین کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور ایگزیکٹیو حکومت کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا ہے اور ایک آزاد عدلیہ قوانین کی برقراری کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ کئی دوسرے ملکوں نے اسی طرح کے سسٹمز یا نظام اپنائے ہیں، لیکن ہر شاخ جو اختیار رکھتی ہے، وہ مختلف ہوتے ہیں اس فرق کی مدت کو ظاہر کئے۔ سی پی آئی نے 190 ممالک کیلئے ان کے دستور کی بنیاد پر مقننہ کے اختیارات، عاملانہ اختیارات اور عدلیہ کی آزادی کے جامع اقدامات کئے۔ اس تجزیہ کے مطابق مثال کے طور پر ہندوستانی مقننہ پاکستانی اور امریکی مقننہ سے کم بااختیار ہے لیکن برطانیہ کے مقابل زیادہ طاقتور ہے۔ بحیثیت مجموعی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی مقننہ 190 ملکوں کی بہ نسبت کم طاقتور ہے لیکن اس کی عاملہ کو بہت زیادہ اختیارات اور عدلیہ کوعالمی اوسط کے مقابل عظیم تر آزادی حاصل ہے۔ (روزنامہ سیاست بھارت )