معزز قارئین!۔ یوں تو، میرے مرحوم دوست ، تحریک ِ پاکستان کے کارکن ، مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی سالگرہ اُن کے بیٹے، چیئرمین "P.E.M.R.A" پروفیسر ، مرزا محمد سلیم بیگ لاہور میں اپنی والدہ صاحبہ اور عزیز و اقارب کے ساتھ مناتے ہیں لیکن، مَیں بھی کبھی کبھی لاہور اور اسلام آباد میں محمد سلیم بیگ کی موجودگی میں ، اپنے مُخلص دوست کی سالگرہ منا لیتا ہُوں ۔تین دِن قبل لاہور میں میرے ڈیرے پر یہی اہتمام تھا۔ جہاں دوستوں نے ، قائداعظمؒ کے بچے کھچے پاکستان میں تحریک پاکستان کے مخالفین ’’ کانگریسی مولویت کی باقیات‘‘ کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لِیا تو، مجھے علاّمہ اقبالؒ کا یہ شعر یاد آیا کہ … جلانا ہے مجھے ہر شمع دِل کو ، سوزِ پنہاں سے! تیری تاریک راتوں میں ، چراغاں کر کے چھوڑوں گا! یعنی۔ ’’ اے ہندوستان میں اپنی چُھپی ہُوئی جلن سے ، ہر دِل کی شمع روشن کردینا چاہتا ہُوں ۔ مَیں تیری اندھیری راتوں میں چراغاں کا سماں پیدا کردوں گا ‘‘۔ تقریب میں موجود تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ امرتسری ، کے پوتے ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کے سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید اور تحریکِ پاکستان کے دوسرے (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان سیّد مختار حسین شاہ بخاری کے بیٹے ، انگریزی روزنامہ (The Nation) کے ایڈیٹر سیّد سلیم بخاری، میاں محمد اکرم کے فرزند ’’ نوائے وقت‘‘ کے سینئر کارکن اور معروف شاعر سعید آسیؔ اور رانا فضل محمد چوہان کے بیٹے (راقم اُلحروف )کے علاوہ تحریک ِ پاکستان کے نامور قائد ( 1903ء سے 1906ء تک ) اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل سیّد محمد علی جعفری المعروف ’’ بابا جعفری‘‘ کے نواسے سیّد محمد یوسف جعفری اور امرتسر کے تحریک پاکستان کے کارکن جناب غلام مصطفی بٹ المعروف ’’موسیٰ امبر سریا‘‘ کے فرزند پاکستان تحریک انصاف کی ہائی کمان کے رُکن زکریا بٹ اور انفارمیشن گروپ کے بابر علی رضا قصوری نے اپنے اپنے انداز میں ’’چراغاں ، چراغاں ، کئے جا رہا ہُوں ! ‘‘ کا انداز اپنایا۔ بابر علی رضا قصوری کی آمد سب سے پہلے ہُوئی تو، مَیں نے اُن سے کہا کہ ’’ بابا بُلھّے شاہ قصوریؒ کا کوئی شعر تو سُنائیں تو، اُنہوں نے یہ مصرعہ سُنایا کہ … ’’بُلھّے شاہ ، اَساں مرنا ناہیں ، گُور پیا کوئی ہَور!‘‘ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں جب، ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے عوام کو ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان ‘‘ کا لارا لگایا تو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ کہا کرتے تھے کہ ’’ بہت پہلے بابا بُلھّے شاہ نے تو، ہر بندے کو اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا مانگنے کی تلقین کی تھی کہ … ’’مَنگ اُوئے بندیا، اللہ کولوں، گُلی، جُلّی، کُلّی!‘‘ یعنی۔ ’’ اے بندے!۔ تُو اللہ سے ، روٹی ، کپڑا اور مکان مانگ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں 1964ء سے 1965ء تک سرگودھا میں جنابِ مجید نظامی کے روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار تھا ۔ 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب ہونا تھا ۔ صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ٔ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوا ر تھیں۔ ضلع سرگودھا میں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کی انتخابی مہم ؔکے انچارج تحریکِ پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد ، مجھے اور میرے صحافی دوست (مرحوم) تاج اُلدّین حقیقت ؔ امرتسری کو ’’ مادرِ ملّت ‘‘ سے ملوانے لاہور لے گئے ۔ لاہور میں مادرِ ملّت ؒ کا قیام کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر میاں منظر ؔبشیر کے بنگلے پر تھا۔ وہاں مادرِ ملّتؒ سے میری اور تاج اُلدّین حقیقت ؔکی ملاقات ہُوئی ، اُسی وقت لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم کی بھی ۔ میرا سرگودھا سے لاہور آنا جانا رہتا تھا ۔ مَیں جب بھی لاہور جاتا تو ، میری مرزا شجاع اُلدّین بیگ سے ملاقات ہوتی۔ مَیں ایک بار میاں محمد اکرم کی دعوت پر پاکپتن شریف بھی گیا ۔ میاں محمد اکرم کو ،پاکپتن شریف میں آسودۂ خاک حضرت فرید اُلدّین مسعود المعروف ’’بابا شکر گنج ؒ کا بہت سا کلام از بَر تھا۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران جب، پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستان کے بہادر لوگوں کی شان میں میرا ایک ’’ملّی ترانہ ‘‘ بار بار ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا تو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اپنے دو دوستوں کے ساتھ مجھے مبارک دینے کے لئے سرگودھا تشریف لے آئے ۔ تقریباً 45 سال بعد مَیں نے برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا ، جسے ’’نظریاتی سکول ‘‘کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے کمپوز کِیا، جب 22 فروری 2014ء کو ، "The Causeway School"۔ کے طلبہ و طالبات نے اُسے مل کر گایا تو’’ وائیں ہال‘‘ تالیوں سے گونج اُٹھا ۔ اِس پر جنابِ مجید نظامی نے مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ مَیں اُداس ہو کر سوچ رہا تھا کہ ’’ کاش مرزا شجاع اُلدّین بیگ حیات ہوتے تو، مجھے مبارک باد دیتے ! لیکن، چار دِن بعد مرزا سلیم بیگ اور بیگم مرزا سلیم بیگ نے میرے اعزاز میں اسلام آباد میں میرے اور اپنے مشترکہ دوستوں (Families)کی بھرپور دعوت کی تو، مَیں آبدیدہ ہوگیا۔ معزز قارئین!۔ لاہور کے نامور قانون دان اور سیاستدان ملک حامد سرفراز امرتسری (مرحوم) سے بھی میری دوستی تھی، جب میرے یہ دونوں امرتسری دوست اکٹھے ہوتے تو، زیادہ تر تحریکِ پاکستان کے کارکنوں اپنے اکثر ’’امبرسری ‘‘ دوستوں کے کارنامے بیان کرتے۔ملک حامد سرفراز صاحب کی اولاد سے میرا رابطہ نہیں رہا لیکن، مَیں جب بھی مرزا محمد سلیم بیگ اور اُن کے تینوں فرزندان 20 سالہ موسیٰ سلیم بیگ ، 17 سالہ سلیمان سلیم بیگ اور 15 سالہ خضر سلیم بیگ کو دیکھتا ہُوں تو ، مَیں اُن تینوں کے چہروں میں اُن کے دادا مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا چہرہ دیکھ رہا ہوتا ہُوں ۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ ’’ پوتا/ پوتے اپنے دادا کا دوسرا رُوپ ہوتا ہے/ ہوتے ہیں‘‘ ۔ 20 جون 1998ء کو مرزا محمد سلیم بیگ کی شادی ہُوئی تو، مَیں لندن میں تھا۔ واپس آیا تو اُس نے اپنی دُلہن طاہرہ ؔسے میری ملاقات کرائی اور کہا کہ "Sir" یہ ہے آپ کی بہواور یہ بھی آپ کی طرح راجپوت ؔہے ؟‘‘۔ مَیں نے دُلہن سے کہا کہ ’’ بیٹی!۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ ’’ میری اور تمہاری شادی ’’ وَٹے سٹّے ‘‘ کی شادی ہے؟‘‘۔ طاہرہ نے کہا کہ ’’ وہ کیسے؟۔ مَیں نے کہا ، اِس لئے کہ ’’ مَیں راجپوت ہُوں اور میرا سُسرال ’’برلاس مُغل بیگ‘‘ ہے اور تم بھی راجپوت اور تمہارا سسرال بھی ’’برلاس مُغل بیگ!‘‘پھر مرزا محمد سلیم بیگ اور بیگم طاہرہ سلیم بیگ نے میرا مؤقف تسلیم کرلِیا۔ قیام پاکستان کے بعد مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ، وہ بہت مہمان نواز تھے ۔ مجھے اور کئی دوستوں کو اپنے مہمان بنا کر لاہور میں مُغل بادشاہوں کی تعمیر کردہ عمارتوں اور باغات میں پکنک منانے کے لئے لے جاتے تھے ۔ ایک دِن مَیں اور ہمارے دوسرے دوست شالا مار باغ میں مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ’’ عوامی جمہوریہ چین کے سیّاحوں کا ایک گروپ وہاں آگیا۔ اُن میں سے دو چینی سیّاح ہمارے ساتھ فر،فرؔ اردو بولنے لگے تو ،مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے اُن سے کہا کہ ’’ پاکستانی قوم اپنے عظیم لیڈر قائداعظمؒ سے بہت محبت کرتی ہے اور آپ کے عظیم لیڈر مائوزے تنگ سے بھی، جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی کُھل کر امداد کی تھی‘‘۔ اِس پر چینی سیّاحوں نے بیگ صاحب اور ہم سب کو "Salute" کِیااور پاک چین دوستی کے نعرے لگائے۔ معزز قارئین!۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی سالگرہ کی تقریب میں سیّد سلیم بخاری چھائے رہے اور اُن کے بعد برادران سیّد یوسف جعفری ،سیّد شاہد رشید ، سعید آسیؔ اور زکریا بٹ ۔ بٹ صاحب کو تو، لاہور اور متحدہ پنجاب کی تواریخ کا "Encyclopedia"کہنا چاہیے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’ اُن کے قائد، وزیراعظم عمران خان ، قائداعظمؒ کے پاکستان میں چراغاں کرنے کا ، کتنی جلد اور کیسے اہتمام کرتے ہیں ؟۔ پرانے دَور کے پنجاب میں تو ،گائوں کا کوئی بھی گھبرّوُ ،کسی بھی مُٹیار سے یہ کہہ کر خُوش ہو جاتا تھا کہ … ماں دِیے، موم بتییّ، سارے پِنڈ وِچّ چانن تیرا! …O…