وزیر اعظم عمران خان نے کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کے دبائو میں آکر چین سے تعلقات تبدیل نہیں کریں گے ۔انہوں نے کہاکہ چین امریکہ مخالفت تشویشناک ہے دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی مغربی طاقتیں افغانستان جیسے ممالک کو کسی گروپ کا ساتھ دینے پر مجبور نہ کریں ۔سب سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ وزیر ا عظم کا یہ بیان پاکستان کے 22کروڑ عوام کی خواہشات کی ترجمانی ہے۔ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے آن کیمرہ طویل ترین اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکاء کو افغانستان ،کشمیر اور ملک کی اندرونی صورتحال بارے بریفنگ دی ۔ قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا کہ دوسروں کی جنگ لڑیں گے نہ کشمیر نظر انداز ہو گا ۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اقوام متحدہ کے مستقل نمائندے سے کشمیر سمیت علاقائی سلامتی کی مجموعی صورتحال بارے تبادلہ خیال کیا ہے۔آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کہ ابھرتے خطرات سے نمٹنے کے لیے موجودہ ڈاکٹرائن جاری رکھنا ہوگی ۔چینی صدر شی جن پنگ نے بھی امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دھونس جمانے والوں کا سر دیوار چین پر مار کر پاش پاش کردیںگے۔بہر حال کسی کی بھی لڑائی ہو پاکستان کو اپنی آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنا ہوگا ۔ وسیب میں ایک نئی سیاسی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے اعلا ن کردیا ہے کہ وہ صوبے کی جنگ لڑیں گے ،میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم نے ان کرداروں کو تلاش کرنا ہے جو صوبے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ صوبے کا وعدہ ابھی تک پورا کیوں نہیں ہوا ؟سیاسی ماہرین بتاتے ہیں کہ صوبے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے کرداروں کا اشارہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی طرف ہے ۔ اس موقع پر جہانگیر ترین نے یہ کہنا بھی مناسب سمجھا کہ میرا پیپلز پارٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہے مگر قومی اسمبلی نے مخدوم شاہ محمود قریشی اور بلاول بھٹو زرداری کا جو ملاکھڑا ہوا اس کے تانے بانے موجودہ سیاسی کشمکش سے ملتے نظر آتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ مخدوم شاہ محمود قریشی وفاداریاں تبدیل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور وہ کل بھی وزیر اعظم بننے کے امیدوار تھے اور آج بھی ان کے دل سے یہ خواہش ختم نہیں ہوئی ۔ اس پر مخدوم شاہ محمود قریشی نے بلاول کو شو بوائے کہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہاکہ بلاول زرداری ہے بھٹو نہیں ہے ۔جہانگیر ترین کے نئے بیان نے وسیب میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ چوتھے سال میں سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اتر جاتی ہیں اور شکاری نئے جال بننے کے آرڈر دے دیتے ہیں اور پھر الیکشن کے موقع پر سادہ لوح عوام شکاریوں کے ان جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ وسیب کا ذ کر چلا ہے تو یہ بھی عرض کروں کہ گزشتہ شب ملتان ٹی ہائوس میں نوجوان صحافی رازش لیاقت پوری کی کتاب’’اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ‘‘ کی تقریب رونمائی تھی ۔ مہمان خصوصی وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب تھے جبکہ صدارت ڈی سی او ملتان علی شہزاد نے کی ۔ اس موقع پر علی شہزاد نے کہاکہ ملتان سے پہلے میں رحیم یار خان میں ڈی سی او تھا رحیم یار خان کو میں کبھی نہیں بھول سکوں گا ۔انہوں نے کہاکہ مجھے یاد ہے کہ خانپور کیڈٹ کالج کے قیام کے لیے دھریجہ صاحب میرے پاس آئے میں نے اس کام کو آگے بڑھایا اور انشاء اللہ اس سال کلاسیں شروع ہو جائیں گی۔ اس پر سرائیکی رہنما ملک اللہ نواز وینس نے یاددہانی کرائی کہ ملتان کیڈٹ کالج کے لیے بھی پیش رفت کریں ۔علی شہزاد نے کہاکہ ہم ملتان کے مسائل حل کریں گے ۔ڈاکٹر اطہر محبوب نے اپنے خطاب میں کہاکہ اللہ پاک کا شکر ہے کہ میں 6سال سے وسیب کی خدمت کررہاہوں اور خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام میرے لیے باعث افتخار ہے ۔میں نے علی شہزاد کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ ملتان ایک شہرنہیں بلکہ ایک جہان کا نام ہے اور اس کی تاریخ اتنی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی تاریخ ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قدیم زمانے میں ہندو تاریخ نویسی کے فن سے آگاہ نہ تھے اور ان کی قدیم کتابوں میں تاریخ نویسی کی بجائے روایت نگاری کا راج نظر آتا ہے ثانیاً ملتان شمالی ہندوستان کا قدیم ترین شہر ہونے کے ساتھ ساتھ زمانہ قبل از تاریخ کا اہم تجارتی مرکز بھی رہا ہے اس لیے یہ عہد قدیم سے ہی بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ بنا رہااور یہاں کے تاریخی آثار ناپید ہو گئے ہیں ، جن کی شہادت اور مشاہدہ سے قدیم تاریخ کی تدوین میں مدد مل سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک ملتان کی کوئی مستند تاریخ نہیں لکھی گئی اسی لیے ملتان کے قدیم تاریخی ناموں اور موجود ملتان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ دستیاب نہیں قیام پاکستان کے بعد ملتان نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے اور اب ملتان وحدت پاکستان کا ایک اہم شہر بن گیا ہے اپنے جغرافیائی محل ووقوع اور سوئی گیس سب سٹیشن کی وجہ سے ملتان کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی ہے ملتان کے قدیم ناموں کے سلسلے میں ہمارا سب سے معتبر ماخذ البیرونی ہے (یہ فاصل مہندس اور ہئیت دان 973ء میں خیوہ میں پیدا ہوئے اور 1048ء میں غزنی میں وفات پائی)اسلام کے اس مایہ ناز فرزند نے سنسکرت زبان میں کمال حاصل کیا اور اس کی بدولت اس نے ہندوستان کے رسم ورواج علوم وفنون اور طرز معاشرت پر اپنی لازوال تحقیق ’’کتاب الہند‘‘ لکھی کہتے ہیں کہ محمود غزنوی کے زمانے کا یہ مشہور مورخ ملتان کے علم کا چرچا سن کر یہاں سنسکرت سیکھنے آیا تھا۔البیرونی کتاب الہند میں ایک کشمیری مصنف ’’اوپ ٹالا‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں ملتان مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے اور اوپ ٹالا کی رائے ہے کہ ملتان کا اصل نام’’کشپ پورہ‘‘ تھا چونکہ یہ شہر بار بار بستا اور اجڑتا رہا ہے اس لیے مختلف زمانوں میں یہ شہر ہنس پور، بھاگ پور، سنب پور،مولستھان پور، پرہلاد پور اور مولتارن وغیرہ کے ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔