اس محسن نما دوست کو ملے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا۔ ایسے دوست خوش قسمتی سے ملتے ہیں ورنہ تو معاملہ احمد فراز کے بقول ہر دوست ہوتا نہیں ہاتھ ملانے والا کے مصداق دوستی کے پیمانے پر چند لوگ ہی پورے اترتے ہیں میں ان کے کلینک پر گیا تو ڈاکٹر صاحب کے پاس مریض لڑنے مرنے پر تلا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب جواباً مسکرائے جا رہے تھے میں باادب طالب علم کی طرح ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب محکمہ لائیو سٹاک پنجاب سے سے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے عہدے پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اب انہوں نے باضابطہ جانوروں کے علاج کے لئے ایک وسیع و عریض دفتر بنا رکھا ہے جو شخص آیا تھا وہ اس بات پر ناراض تھا کہ ادویات نے اثر نہیں کیا۔ وہ اپنے ساتھ مردہ مرغیوں کا تھیلا بھر کر لایا تھا۔ ڈاکٹر نے اپنے پوسٹمارٹم روم میں اس کے سامنے ایک مرغی کی اس بیماری کی تشخصی کی کہ کس طرح انتڑیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا وہ شخص اپنے ہاتھ میں استعمال شدہ ادویات کی خالی بوتلیں۔کچھ کے سٹکرز فارمولے کے ساتھ دکھائے جا رہا تھا اور ڈاکٹر احمد سعید مسکرائے جا رہے تھے جب اس کا تھوڑا سا غصہ کم ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ تمام ادویات دو نمبر ہیں ان کا فارمولا وہی ہے جو میں نے لکھ کر دیا ہے مگر ان ادویات میں اگر میڈسن 25فیصد ہے تو اسی فارمولے کو 15فیصد کے ذریعے ڈرم بھر بھر کر اور بوتلیں بنا کر بیچی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ زیادہ تر لوگ جو ادویہ سازی سے وابستہ ہیں بے شک وہ انسانوں کے لئے بنائی جا رہی ہوں یا جانوروں کے لئے وہ دو نمبری کے ذریعے ضمیر بیچ کر تھوڑا فارمولا ڈال کر زیادہ سے زیادہ مقدار اور تعداد میں ادویات تیار کرتے ہیں ایک انکشاف انہوں نے اور کیا کہ اکثر کارخانے اور باہر ادویات درآمد کر کے پھر اسی طرح کے سٹیکرز بوتلیں اور پیکنگ میں دو نمبر ادویات تیار کرتے ہیں اس کے دو تین نقصانات ہوتے ہیں ایک تو خریدار کی جیب تراشی دوسرا یہ کہ بیمار تندرست ہونے کی بجائے مزید بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔بیمار مرغیوں کو مارکیٹ میں بیچ کر وہی وائرس انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے اس کے علاوہ حکومت کو نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ بندرگاہوں پر ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں سیلز ٹیکس میں بھی چوری کرتے ہیں۔میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ اس طرح کے دھندے کو چیک کرنے والے نہیں ہیں ڈاکٹر صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ حکومت کے تمام شعبے کام کر رہے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ حرام خور مافیا ادویہ سازی کارخانہ داروں بلکہ مافیا سے مل کر یہ کام کرتا ہے کیونکہ جو دوائی مقامی طور پر تیار ہوتی ہے اسی کو چیک اور پاس کے بغیر منظوری نہیں ملتی مگر بے ایمان اور ضمیر فروش لوگوں کی کمی نہیں ہے سرکاری افسران اور اہلکار چند پیسوںکے لئے عوام اور جانوروں سے لے کر حکومت تک کا نقصان کرتے ہیں۔ انہوں نے نام لے کر چند مافیاز کے گروہوں کا نام لے کر بتایا کہ اس دونمبری اور ہیرا پھیری کے کاروبار میں ایک سال کے اندر ارب پتی بن گئے ہیں ۔ حکومت ہر شخص پرچیک کرنے والا شخص کھڑا نہیں کر سکتی اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اگر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے کہ جب تک انسان کا ضمیر اسے منفع کرے اسی کے علاوہ اس مستقل اور دائمی مرض کا کوئی حل نہیں ہے ہم جب ایک دوسرے کا احساس اور خیال نہیں رکھیں گے تو یہ کام فرشتے تو نہیں کریں گے۔ڈاکٹر صاحب نے انتہائی تاسف اور افسوس کے ساتھ بتایا کہ مجھے زیادہ تر ایمانداری کی وجہ سے پوسٹنگ میں مشکلات کا سامنا پڑتا تھا مگر میں کسی سے نہ تو سفارش کرواتا تھا اور نہ ہی سفارش پر ادویات کی منظوری دیتا تھا وہ کہنے لگے کہ میں نے جہاں بھی عوام کی خدمت کی ہے کئی دفعہ جانوروں کی ادویات اور ٹیکے جن کے تھیلے بھر بھر کر عملہ ہسپتال میں فری ادویات دینے کی بجائے خود گھروں میں ڈیروں یا فارم ہائوسز پر جا کر ایک ایک دن کی دس ہزار کی دیہاڑی لگاتے تھے ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی تو ایک کسان جس کی حالت ناگفتہ بہ تھی آیا اور کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو تقریباً ایک سال ہو گیا ہے ریٹائر ہوئے آپ کے جانے کے بعد آج تک سرکاری ہسپتال سے فری ادویات نہیں ملیں اور پھر اگر عملے کے دل میں رحم آ جائے تو دوائی کی پرچی بنانے کے ساتھ ساتھ میڈیکل سٹور کا نام لکھے کر دیتے ہیں کہ کہاں سے خریدنی ہے ڈاکٹر صاحب سے پھر نہ رہا گیا اور گویا ہوئے کہ یہ کسان جس دونمبری کا اشارہ کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا کہ مہینے بعد یہ لوگ مذکورہ میڈیکل سٹور پر جاتے ہیں یا وہ اپنے کسی شخص کے ہاتھ ایک لفافے بھیج دیتے ہیں اور جس بھی کمیشن کی ایک معقول رقم ہوتی ہے وہ مذکورہ ڈاکٹر کی بھیجی گئی سلپس جمع کر کے رکھے جاتے ہیں اور مہینے بعد کمیشن کا حساب کر کے باعزت طریقے سے ڈاکٹر صاحب کے گھر پر رقم پہنچا دی جاتی ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے بڑے فخر سے سینہ تان کر بتایا کہ الحمد اللہ ‘ اللہ اس نیک نیتی کا یہ صلہ دیا ہے اولاد کا اتنا سکھ ہے کہ اللہ ہر ایک کو ایسی نعمت اور ایسی اولاد سے نوازے تمام بچے اپنے اپنے گھروں اور اپنے اپنے شعبے میں اپنا نام پیدا کر رہے ہیں میں نے اجازت لینے سے قبل پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے ویٹرنری کا انتخاب کیوں کیا حالانکہ انسانوں کی بیماریوں کے ڈاکٹرز تو پلازوں کے مالک بن گئے ہیں وہ کہنے لگے یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے یہ توفیق دی کہ انسان تو اپنی زبان یا حرکات سکنات سے اپنی بیماری یا تکلیف بتا سکتے ہیں اور پھر لیبارٹریز کے ذریعے جدید تشخیص ہو جاتی ہے مگر اللہ کی یہ بے زبان مخلوق جس کی زبان سوائے خالق اور مالک کے کوئی اور نہیں سمجھتا اور پھر یہ کہ انسان بڑا یا بچہ وہ ٹھیک ہو جاتا ہے تو کسی ڈاکٹر کو بتانے نہیں آتا مگر جانوروں کو آرام آتا ہے تو اس کے جسم کا ایک ایک بال اللہ کے حضور دعا کرتا ہے ۔ میں نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اٹھا تو سارے راستے یہی سوچتا آیا کہ اگر موجودہ حکومت جو کہ ہر ایک کو شک کی نظر دیکھتی ہے ان کے دور میں بھی اگر اس طرح کی دونمبری کے کاروبار نہ رکے تو ایک بل اتفاق رائے سے منظور کروائیں۔ دونمبری کو لعن طعن کرنے کی بجائے سلام کیا جائے ورنہ لعن طعن کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔