اندازے یہی آ رہے تھے کہ نریندر مودی بھارت کا عام الیکشن یا تو ہار جائیں گے یا پھر بہت کم مارجن سے جیتیں گے اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکیں گے۔ پھر یہ پلوامہ کا واقعہ ہوگیا اور گویا مودی کی کشت نیم ویراں میں بہار کا جھونکا آ گیا۔ پلوامہ میں فوجی قافلے پر خودکش حملہ کرنے والا مقبوضہ کشمیر کا نوجوان لڑکا تھا جس کی ماں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے اس پر اتنا ظلم کیا کہ وہ فدائی بن گیا لیکن بھارت کہتا ہے کہ حملہ پاکستان سے ہوا۔ مقبوضہ وادی کے چپے چپے پر سات لاکھ فوجی اور نیم فوجی تعینات ہیں۔ کنٹرول لائن پر ناقابل عبور باڑ کھڑی کردی گئی ہے‘ پھر بھی حملہ پاکستان سے ہوا۔ یہ سچ ہے تو بھارت کو چاہیے‘ مزید سات لاکھ فوج وادی میں لے آئے اور کچھ ہو نہ ہو‘ ایک ریکارڈ جو بن جائے گا کہ اسی لاکھ کی آبادی پر چودہ لاکھ سینک لگانے کی مثال اور کہاں ملے گی۔ بھارتی مظالم سے یہ ایک خودکش حملہ آور سامنے آیا ہے‘ ایسے اور بھی آ گئے تو پھر بھارت کیا کرے گا۔ مودی جنگ تو خیر کیا کریں گے‘ پاکستان سے بدلہ لینے کی باتیں کرکے اپنی انتخابی مہم چمکانے کی کوشش ضرور کریں گے بلکہ یہ مہم انہوں نے شروع بھی کردی ہے اور بھارتی میڈیا ان کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ امریکہ بھارت کے بے ثبوت الزام کی تائید کر رہا ہے اور اس کے محکمہ خارجہ نے ایسا بیان پاکستان کے خلاف دیا ہے کہ اگر امریکہ سے جاری نہ ہوا ہوتا تو یہی لگتا کہ بھارت کے دفتر خارجہ سے جاری ہوا ہے۔ بھارت اور امریکہ دونوں یہ کہہ رہے ہیں کہ حملہ جیش محمد نے کیا ہے جس کا بیس کیمپ پاکستان میں ہے حالانکہ جیش یہاں کب کی کالعدم ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے مشکلات نظر آ رہی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آگ اگل رہے ہیں‘ پاکستان کے پردھان منتری اس پر بالکل خاموش ہیں۔ وہ مودی کو چھوٹا آدمی کہہ چکے ہیں‘ شاید یہی سوچ ان کے جواب دینے میں آڑے آ رہی ہے کہ بڑے آدمی چھوٹے لوگوں کے منہ نہیں لگا کرتے۔ کچھ دخل شاید ان کی مصروفیات کا بھی ہو۔ بھارت نے جارحانہ سفارتی مہم بھی شروع کردی ہے‘ مقصد پاکستان پر کوئی پابندی وغیرہ لگوانا ہے۔ ہماری طرف سے خاموشی اور سکون ہے۔ شاہ محمود قریشی کمال کے مہذبانہ جواب دے رہے ہیں۔ لگتا ہے‘ چھوٹے موٹے لوگوں کی الٹی سیدھی حرکتوں سے صرف نظر کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکمران جماعت کی بانی قیادت تو یوں بھی شریف فیملی کی بیماری کا مذاق اڑاتے رہنے کی بھاری ذمہ داری نبھانے میں لگی ہے۔ پہلے مودی کے یاروں سے نمٹ لیں‘ مودی کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ ہمارے شعلہ بیاں وزیر اطلاعات ایک بھارتی چینل پر نمودار ہوئے تو تہذیب کا مجسم نمونہ بنے نظر آئے۔ بھارت میزبان آگ بگولہ‘ یہ برف کا گولہ نظر آئے۔ بھارتی میزبان کے تابڑ توڑ حملوں پر میرا خیال ہے۔ آئی تھنک۔ نہیں ایسی بات نہیں ہے کہ ریشمی جوابات دیتے رہے۔ اچھی بات ہے‘ گھر میں چاہے جیسی بھی لڑائی بھڑائی ہو‘ باہر تو آدمی کو شائستگی کا نمونہ ہونا چاہے اور یہی تو رول ماڈل پرویز مشرف کا بھی تھا۔ ٭٭٭٭٭ بھارت نے چڑھائی کی تو اس کا ہم نفس‘ برادر ملک ایران کیوں پیچھے رہتا۔ سوئے اتفاق سے جس روز پلوامہ میں حملہ ہوا‘ اسی روز ایرانی بلوچستان میں زاہدان کے قریب بھی ایسا بھی حملہ ہوا جس میں 41 ایرانی فوجی مارے گئے۔ یہ حملہ جیش عدل نامی تنظیم نے کیا۔ یعنی ادھر بھی جیش‘ ادھر بھی جیش۔ یہ تنظیم ماضی کی جنداللہ ختم ہونے کے بعد بنی۔ اور یہ ایرانی بلوچستان میں سنی آبادی کے خلاف حکومتی کارروائیوں کے ردعمل میں وجود میں آئی ہے۔ حملے کے فوراً بعد ایران کا موقف تھا کہ یہ کارروائی امریکہ‘ اسرائیل اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی کارستانی ہے۔ علاقائی اتحادیوں کی اصطلاح لچک دار تھی‘ آسانی سے پاکستان کو بھی شامل کیا جاسکتا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اگلے ہی روز پاسداران کے کمانڈر انچیف جنرل محمد علی جعفری پاکستان پر برس پڑے۔ فرمایا‘ جیش کی پاسداری پاکستانی ادارے کرتے ہیں‘ حملہ آور پاکستان سے آئے۔ وہ ان کے خلاف کریک ڈائون کرے ورنہ یہ ذمہ داری ہم خود نبھائیں گے۔ جنرل صاحب کی بڑی مہربانی کہ ذمہ داری ازخود نبھانے سے پہلے ہمیں مہلت دے دی کہ ہم خود ہی کریک ڈائون کریں‘ اس کے بعد تو پھر ’’ورنہ‘‘ ہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایرانی بلوچستان ملک کا باعتبار رقبہ سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن آبادی محض 25 لاکھ۔ یہ سنی اکثریت کا علاقہ ہے۔ ملک کا سب سے غریب‘ سب سے پسماندہ‘ سب سے مفلوک الحال صوبہ۔ یہاں سڑکوں ریلوں کا وجود برائے نام سے بھی کم ہے۔ ریاستی حسن سلوک کا یہ عالم کہ آئے روز سترہ اٹھارہ برس کے بلوچ نوجوانوں کو پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے۔ وسیع و عریض صحرائوں پر مشتمل اس صوبے میں تیل کے ذخائر ہیں جن کا کوئی ثمر اسے نہیں ملتا۔ اسی کے ساحل پر چاہ بہار بندرگاہ بن رہی ہے۔ایران کو یہاں فوجی نقل و حرکت میں اس لیے بھی مشکلات ہیں کہ نہ صرف یہ صوبہ بلکہ اس سے ملحق دوسرے صوبے بھی صحرائی ہیں جیسے کہ کرمان اور تین خراسان (خراسان نام کے تین صوبے ہیں‘ شمالی خراستان‘ رضوی خراسان اور جنوبی خراسان)۔ یہاں دو تحریکیں چل رہی ہیں۔ ایک کی بنیاد مذہبی ہے یعنی جیش عدل‘ دوسری قوم پرست ہے اور گریٹر بلوچستان کے نام سے الگ ملک بنانا چاہتی ہے۔ اس کے نقشے میں افغانستان کے بلوچ علاقے بھی شامل ہیں۔ ایران کا اپنا مفاد ہے کہ وہ بلوچوں کے ساتھ کچھ نرمی کرے۔ دست ستم سے ہاتھ یکسر نہ اٹھائے‘ البتہ ہاتھ ’’ہولا‘‘ ضرور رکھے ورنہ بات بڑھ گئی تو چاہ بہار کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔ پاکستان کا ایران سے کوئی جھگڑا نہیں۔ اس کے اپنے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ جھگڑا ہو تو بھی ایران میں دخل اندازی کی فرصت اور توفیق کہاں۔ ایسی کوئی سوچے ہی نہیں۔ اب ایران کی مرضی ہے‘ وہ بھارت کی خوشی کے لیے کہاں تک جاتا ہے۔