افلاطون نے کہا ’’جو کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ وطن کی خدمت کرے، اس میں سوچنے سمجھنے کی طاقت کے ساتھ قوت عمل کا بھی ہونا ضروری ہے‘‘۔2014ء میں عمران خان اسلام آباد دھرنے کے دوران میاں نواز شریف کے طرز حکمرانی کو غلط اور ذاتی مفادات کی سیاست قرار دیتے رہے۔ جب مسلم لیگ ن نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو کنٹینر پر اپنا بجلی کا بل جلا کر عوام کو بل جمع نہ کروانے پر بھی اکسایا۔نواز شریف حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے بجلی بنانے والے نجی اداروں کو 450ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ادا کیا تو عمران خان نے بجلی چوری روکنے کے بجائے قومی خزانے سے ادائیگی کا الزام دھر دیا۔ آج عمران خان کی حکومت میں لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے۔ نہ صرف بجلی کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں بلکہ سرکلر ریٹ کی مد میں بھی حکومت 2250ارب روپے کی مقروض ہو چکی ہے۔ حکومتی وزیر مشیر دن رات ماضی کے حکمرانوں کی لوٹ مار کے اعداد و شمار تو عوام کو ازبر کروا رہے ہیں مگر کوئی یہ بتانے کے لئے تیار نہیں کہ حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لئے کیا کیا اقدامات کئے ۔کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ قوم صرف بجلی کی مد میں 2250ارب کی ایک بار پھر کیسے مقروض ہو گئی؟۔ تحریک انصاف کو صاف شفاف چلنا تھا یہ کیسی شفافیت ہے کہ پاور سیکٹر میںکے 5سو ارب کے گھپلے کا انکشاف ہوتا ہے اس گنگا میںوزیر اعظم کے بجلی کے مشیر کا نام گرامی بھی آتا ہے مگر حکومت اس لوٹ مار کے متعلق عوام کو باخبر رکھنے اور احتساب کے بارے میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔ جو وزیر اعظم کشکول لے کر گھومنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کا وعدہ کرتے تھے آج خود بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے در پر سجدہ ریز ہیں۔ جس کا دعویٰ تھا کہ اسحق ڈار ایسے شبدہ باز کے بجائے اس کے پاس اسد عمر کی صورت میں ایسا وزیر خزانہ ہے جو اس قوم سے آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر کے دے سکتا ہے اور پاکستان کو قرضہ لینے کے بجائے دوسرے ممالک کو قرضہ دینے والا ملک بنا سکتا ہے۔ اس کو محض چند ماہ بعد ہی کیوں تبدیل کرنا پڑا اس پر کئی بات کرنے پر تیار نہیں۔ اپوزیشن پر دن رات الزامات دھرنے والے مشیران عوام کو یہ کیوں نہیں بتا تے کہ جس تحریک انصاف کی حکومت میں نہ صرف ایک کروڑ نوکریاں پیدا ہونا تھیں بلکہ یورپ اور امریکہ سے لوگوں نے پاکستان میں نوکری کے لئے آنا تھا۔ آج اسی تحریک انصاف کی حکومت میں کروڑوں لوگ بے روزگار کیسے ہو گئے؟۔وہ عمران خان جو پاکستان کو ریاست مدینہ ایسا ملک بنانے کے دعویدار تھے اور عوام کو حضرت عمرؓ کا قول سنایا کرتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرتا ہے تو اس کے عمر ؓ ذمہ دار ہوں گے آج ان کی اپنی حکومت میں روزانہ بھوک اور افلاس سے اوسطاً پانچ خودکشیاں کیوں ہو رہی ہیں؟؟ جب ریاست مدینہ کے دعویدار حکمران سے اس بابت سوال کیا جاتا ہے تو کہتے ہے’’میں کیا کروں‘‘!!! جو کھلے لفظوں اعتراف کرتے ہیں کہ مہنگائی کم نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی 2014ء کے عمران خان کا جب 2020ء کے عمران خان سے موازنہ کرتے ہیں تو ان کی زبان پر آفتاب حسین کی یہ التجا ہوتی ہے: گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر جو ہو سکے تم سے آنیوالے دنوں کے رنگین خواب لکھنا 2014ء کے خوش کن ،دلفریب خوابوں میں رنگ بھرنے کا وقت آیا تو یہ کہہ کر حکومت اپنی بے بسی رونا رو رہی ہے کہ اٹھائی سال تک ان کی حکومت کو ملکی معیشت کے حالات کا ہی علم نہ ہو سکا۔ ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار آج انکشاف کر رہے ہیں کہ آدھی مدت پوری کرنے کے باوجود آج بھی ان کو درست اعداد و شمار مہیا نہیں کیے جا رہے! حالانکہ حکومت کوعوام کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ غلط اعداد و شمار فراہم کرنے والی افسر شاہی کے خلاف عمران خان کی حکومت نے کیا اقدامات کئے۔ آج عمران خان کو شکوہ ہے کہ ان کو اقتدار میں آنے سے پہلے سرکاری اداروں نے بریفنگز نہیں دی تھیں یہ بھی شایدانہیں امریکی صدر جو بائیڈں کی بریفنگز سے یاد آیا، ورنہ اگلے اڑھائی سال بھی یونہی دیواروں سے سر ٹکراتے رہتے!ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اعداد و شمار نہ ملنے کا دعویٰ وہ عمران خان کر رہے ہیں جو کنٹینر پر عوام کو یورپ اور امریکہ کی ترقی کا راز یہ بتایا کرتے تھے کہ وہاں اپوزیشن حکومتی اقدام پر نظر رکھنے کے لئے شیڈو کابینہ بناتی ہے اپوزیشن میں شیڈو کابینہ کا جو وزیر ہوتا ہے وہی حکومت میں آنے کے بعد اسی محکمے کا وزیر بنتا ہے۔ آج عمران خان اپنی حکومت کی ناتجربہ کاری کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی حکومت میں 15وزارتوں کا ریکارڈ رکھنے والے وزیر بھی موجود ہیں۔ ان کے وزیر پیپلز پارٹی اور مشرف حکومت کے ادوار میںبھی وزیر رہ چکے ہیں۔ناتجربہ کاری کا جواز اس لئے بھی نہیں بنتا کیونکہ عمران خان نے ناتجربہ کار کابینہ کے ساتھ 40کے قریب تجربہ کار مشیر اپنے ساتھ بٹھا رکھے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو اپنے تجربہ کار وزیروں کی قومی خزانہ سے’’ تجربہ کاری‘‘ دکھائی نہیں دیتی ۔ان کے نجی بجلی گھر کے مالک مشیر کے قومی خزانہ سے اربوں روپے فائدہ حاصل کرنے کے انکشافات ہوئے مگر تحریک انصاف اس حوالے سے عوام کو حقائق بتانے سے اجتناب برتتی رہی۔ عوام مہنگائی بے روزگاری سے تنگ آ کر آج ایک بار پھر بقول عمران خان ا کے نہی’’ چوروں لٹیروں‘‘ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ عوام کا تحریک انصاف کی حکومت سے بیزار ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ پاکستانیوں کو لوٹنے والے چور لٹیرے ہی بھلے لگنے لگے ہیں عوام کی حالت تو بقول جان کاشمیری یہ ہے کہ: دوستوں اور دشمنوں میں کس طرح تفریق ہو دوستوں اور دشمنوں کی بے رخی ہے ایک سی!