بھٹو صاحب اپنی سزائے موت کے خلاف اپیل میںعدالت عظمیٰ کے روبروپیش تھے، جہاں انہوں نے کسی بھی دنیاوی عدالت میں اپنا آخری بیان ریکارڈ کرایا،انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں سرائیکی دھرتی کے عظیم المرتبت صوفی بزرگ شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا یہ شعر سنایا،’’درداں دی ماری دلڑی علیل اے، سوہنا نہ سنڑدا ڈکھاں دی اپیل اے‘‘(دردوں کا مارا یہ میرا دل بہت علیل ہے، محبوب ہے کہ میرے دکھوں کی اپیل سنتا ہی نہیں۔) اس وقت کی اندھی،بہری اور گونگی عدالت اس شعر کے مفاہیم کیا سمجھتی، اسے تو بس وہی کرنا تھا جس کے لئے اسے ہدایت تھی، بھٹو صاحب کو خواجہ غلام فرید ؒ کا یہ شعر سزائے موت سے تو نہ بچا سکا لیکن آج خواجہ غلام فرید ؒکی دھرتی کے لوگ جو اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اس پر خواجہ غلام فرید ؒسرکار کی کافی کا یہ شعر ضرورصادق آتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس سرزمین کو حکمران طبقہ جس طرح سے مختلف شکلوں میں دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کھا رہا ہے، ایسی مثالیں تو دنیا کے کسی خطے میں بھی نہیں ملتیں۔جس خطے کے ایک امیر نے اپنی ریاست پاکستان کے وجود پر قربان کردی ہو، جس خطے کے سپوت سرصادق محمد خان خامس عباسی نے نئی ریاست کے ملازمین کی پہلی تنخواہ کی ادائیگی کے لئے اپنے خزانے کے منہ کھول دئیے ہوں، جس رعایا کے امیر نے بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح ؒکوسواری کے لئے اپنی قیمتی رولزرائس دان کر دی ہو،آج اسی خطے کے لوگ اپنے ہی گھرمیں اجنبی ٹھہرا دئیے گئے ہیں اور بھکاریوں سے بدتر زندگی جھیلنے پر مجبور ہیں۔اپنی زبان بولنا،اپنی ثقافت کی ترویج کی باتیں کرنا،اپنے بچوں کے لئے تعلیم وصحت کامطالبہ کرنا،اپنے وسائل کی لوٹ مار پر صدائے احتجاج بلند کرناان کے لئے جرم ٹھہرا دیا گیاہے،وہ اپنے لئے الگ صوبے کی مانگ کرتے ہیں تو انہیں غدار ہونے کے طعنے دئیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ پنجاب ٹوٹا تووفاق ٹوٹ جائے گا۔خواجہ غلام فرید کی سرزمین کے لوگ مملکت خداداد کی آزادی میں دی گئی اپنی قربانیوں کا صلہ نہیں مانگتے لیکن بطور پاکستانی چوتھے درجے کے شہری ہوکر زندگی گزارنے سے انکار کرتے ہیں تو ان کے انکار کوغداری کا نام نہ دیا جائے، انگریزوں کے گھوڑے نہلانے والے اور ان کے بوٹ پالش کرنے والے سیاسی وڈیروں کی اولاد آج بھی ان پر مسلط ہے اور اسے مقتدر طبقے کی غلامی میں دے کر اس کی قیمت وصول کررہی ہے۔جن کے دادا ،پردادا انگریزوں کی چاپلوسی کرکے جاگیروں کے مالک بنے آج ان کے پوتے پڑپوتے تخت لاہور سے مل کر اپنے عوام کا استحصال کررہے ہیں ۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ایک ماہ قبل ن لیگ کو داغ مفارقت دے کرجنوبی پنجاب صوبہ محاذقائم کرنے والوں کے شجرے اٹھا کر دیکھ لیجئے،یہ سب انگریزوں کے آلہ کار اور ان کے سہولت کار تھے،انگریزوں کی خدمات کے عوض انہوں نے جاگیریں سمیٹیں اور وڈیرے بن بیٹھے۔اب انہیں اچانک اپنے علاقے کی محرومیوں کا احساس کیوں اورکیسے جاگ گیا ہے، ان کی پچھلی تین چار نسلیں کہاں تھیں اور انہوں نے سرائیکی خطے کی محرومیوں پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کئے رکھی،اگر وہ اپنے علاقوں اور اپنے عوام سے مخلص تھے تو وہ اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے حقوق کی بات کرتے اور اس کے لئے آواز بلند کرتے، انہیں یہ مروڑ اچانک کیوں اٹھے ہیں، یقیناًاس کا کوئی پس منظر ہے، سیاسی وڈیرے اپنے ذاتی مفاد کے بغیر اپنا وقت اور اپنے لفظ ضائع نہیں کرتے۔ میں ڈیرہ اسمٰعیل خان سے ر حیم یارخان تک دریائے سندھ کے ارد گرد پھیلے سرائیکی خطے کے سترہ اٹھارہ اضلاع کے بے بہازرعی اور آبی وسائل کی بات نہیں کرتا، صرف تین ڈویژنوں ملتان، بہاول پو اور ڈیرہ غازی خان کو ہی لے لیجئے،گندم کی ملکی پیداور کا لگ بھگ ساٹھ سے ستر فیصد،کپاس کا تقریباًستر فیصد، کمادکا بھی اندازاًساٹھ فیصد،گوشت اور دودھ کا ساٹھ سے ستر فیصد،سبزیوں اور دالوں کا کم وبیش ساٹھ فیصد یہی تین ڈویژن دیتے ہیں اور صلے میں انہیں کیا ملتا ہے، بھوک ،پیاس ، دھکے ، طعنے اور الزام ، کیایہی ہے ان کی زندگی کہ غیرملکی قرض کا بوجھ لے کر دنیا میں آنا اور کسمپرسی کی زندگی گزار کر قبروں میں اتر جانا۔نہ یہاں کوئی اسپتال کھلتا ہے نہ کوئی تعلیمی ادارہ دیا جاتا ہے،جی ٹی روڈ اور موٹر وے کے سوا کہیں اس علاقے کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی ڈھنگ کی سڑک ہی دے دی جائے،اکا دکاسڑکیں صرف وہاں تعمیر کی جاتی ہیں جہاں ان کے پالتو سیاسی وڈیروں کی جاگیریں یا گھر ہیںیا پنجاب کے شاہی خاندان نے اپنی جاگیریں قائم کرلی ہیں۔جب قومی بجٹ سے وسائل کی تقسیم کی بات ہوتی ہے تو تخت لاہورپورے پنجاب کی آبادی کی بنیاد پر ساٹھ فیصد وسائل کا دعویدار بن جاتا ہے اور جب پنجاب کے اندر وسائل تقسیم کرنے کی نوبت آتی ہے تو جنوبی پنجاب کی پچپن ساٹھ فیصدآبادی کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف صرف ڈھائی فیصد دئیے جاتے ہیں، وہ بھی ان کا آلہ کار سیاسی وڈیرہ ہڑپ کر جاتا ہے، شریفوں کے پچھلے تیس پینتیس برسوں میں سرائیکی خطے کے ساتھ یہی بدمعاشی ہو رہی ہے اور پھر یہ کہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھائو تو غداری کے تمغے دئیے جاتے ہیں اور اس میں یہی مقامی وڈیرہ شاہی بھی پیش پیش رہتی ہے اور ہمیشہ تخت لاہور کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ دراصل سرائیکی خطے کی محرومیاں اور مظالم پچھلے تین چار عشروں سے انتخابی اسٹنٹ بن چکاہے، جب بھی انتخابات سر پر آتے ہیں ، سیاسی جماعتوں، جاگیرداروںاور عوامی سیاست پر مسلط ان سیاسی وڈیروں کواپنے علاقے کی محرومیاں ، ناانصافیاںاورپریشانیاں یادآجاتی ہیںاور الگ صوبے کی یاد ستانے لگتی ہے۔ بی بی کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبے کا شوشا چھوڑا گیا لیکن پنجاب میں برسراقتدار شریف خاندان نے بہاول پور صوبے کا واویلا مچا کر معاملہ گول کردیا۔شریف خاندان پچھلے تیس پینتیس برسوں سے پنجاب میں سیاہ وسفید کا مالک ہے،وہ جنوبی پنجاب کے سارے وسائل سمیٹ کر لاہور پر خرچ کر کے اور اپنی جیبیںبھر کے وفاق کو کمزور کررہا ہے لیکن کوئی ہاتھ ایسا نہیں تھا جو ان کی بے اعتدالیوں پر قدغن لگاتایاانہیں نانصافیوں سے روکتا ،یہ خاندان مقامی سیاسی وڈیروں کی ملی بھگت سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہاہے۔ بی بی کی شہادت کے بعدتو شریف خاندان بلا شرکت غیرے اس ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بن بیٹھاہے اور اب وہ کسی بھی قومیت، کسی بھی سیاسی جماعت اور کسی بھی ادارے کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔اب ان کا زور توڑنے کے لئے ایک ماہ قبل سرائیکی اور پنجابی آبادگار وڈیروںکے اشتراک سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے قیام کا اعلان ہوا ، علاقے کی اور اپنے عوام کی محرومیوں کے لئے لڑ مرنے کی نوید سنائی گئی، بڑی بڑی باتیں ہوئیں آج اچانک یہ سب کے سب اپنی اپنی نشستوں پر تحریک انصاف کے ٹکٹ کی یقین دہانی حاصل کر کے اس کی پناہ گاہ میں جا بیٹھے ہیں ، حیرت ہے ، ایک مہینے میں اتنی بڑی تبدیلی۔عمران خان خبردار رہیںکہ جو وڈیرے اپنے عوام کے نہیں ہیں،پیپلزپارٹی کے نہیں رہے، ن لیگ کے نہیں رہے وہ عمران خان سے بھی مخلص نہیں ہو سکتے۔ وفاق کو بچانا ہے توپنجاب کے اندر ایک اورصوبے کا قیام ملکی سلامتی کے لئے ضروری ہے، پنجاب بٹے گا تو وفاق بچے گا،آپ اسے کوئی نام دے دیجئے ،سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ کہہ لیجئے لیکن کر گزرئیے کہ وقت بہت کم ہے ،اب دھوکے پر دھوکا نہیں چلے گا، اس لئے کہ عوام تھوڑی بہت کہانی سمجھ گئے ہیں۔