امریکہ نے سی پیک کیخلاف جلے دل کا پھپھولا پھر پھوڑا ہے اور پاکستان کو چینی سرمایہ کاری سے ڈرایا ہے۔ امریکی معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کے بیان سے ان پاکستانی احباب کی حوصلہ افزائی ہوئی ہو گی جو 2014ء سے سی پیک کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں۔ امریکی بیان کا جواب پاکستان کی طرف سے چین نے دیا۔ امریکی مہم ان خبروں کے بعد شروع ہوئی جن سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید پاکستان پھر سے سی پیک پر کام شروع کرنے والا ہے۔ عملاً یہ منصوبہ چودہ ماہ سے معطل ہے۔ اگرچہ خبریں اس طرح سے چھپتی رہیں کہ اس پر کام سست ہو گیا ہے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ سست کہنا تو رعایت دینے والی بات ہے۔ عمران خان کی سوچ شروع ہی سے واضح تھی، ان کے برسراقتدار آتے ہی پہلا نزلہ سی پیک پر گرا۔ اس سارے عرصے کے دوران عمران خان سے وابستگی رکھنے والے معتبر میڈیا حضرات شبانہ روز قوم کو سی پیک سے ڈراتے رہے، اسے نئی ایسٹ انڈیا کمپنی قرار دیتے رہے اور منصوبے میں شریف برادران کی کرپشن اور کمشن کی ہولناک کہانیاں بھی سناتے رہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اس منصوبے کا ریکارڈ منگوایا اور پھر کچھ عرصے بعد یہ دبی دبی سی خبریں اخبارات کے کونوں کھدروں میں شائع ہوئیں کہ کسی کرپشن یا کمشن کا سراغ نہیں ملا۔ تب سے کمشن اور کرپشن کی کہانیوں والے پروگرام بند ہیں۔ پھر کہیں یہ احساس ہوا کہ منصوبہ تو پاکستان کے فائدے میں ہے لیکن اس دوران چین کے خدشات اور مایوسی بہت بڑھ چکی تھی۔ منصوبہ بدستور موجود ہے لیکن ایسی حالت میں ہے کہ اسے لنڈورا کہتے ہی بنتی ہے۔ کراچی پشاور ریلوے ٹریک کی تجدید کا منصوبہ سرد خانے میں چلا گیا ہے اور چین مزید سرمایہ کاری سے گریزاں ہے۔ کمشن اور کرپشن کی تحقیقات تو ہو چکیں، لگے ہاتھوں یہ بھی معلوم کر لیا جائے کہ چودہ ماہ کی بزکشی سے پاکستان کو کتنا نقصان پہنا۔ اب تلافی مافات کی سوجھی ہے لیکن جو کھیت چگے جا چکے، پھر سے ہرے بھرے کیسے ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الیکشن 2018ء میں دھاندلی کی کہانی جھوٹی ہے اور فارن فنڈنگ کا افسانہ بھی جھوٹ ہے۔ دھاندلی کی حد تک تو ان کا دعویٰ بالکل درست ہے۔ الیکشن میں واقعی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ بھٹو مرحوم نے 1977ء میں جو الیکشن کرائے تھے، ان میں کم و بیش تیس پینتیس سیٹوں کا نتیجہ بدلا تھا، اسی لیے اسے دھاندلا کہا گیا، پھر تحریک چلی۔ چنانچہ افتخار درانی صاحب کا بیان بالکل درست ہے کہ دھاندلی ہوئی نہ دھاندلہ، جہاں تک فارن فنڈنگ کیس کا تعلق ہے، اس پر سماعت جاری ہے اس لیے دعوے کی تائید کی جا سکتی ہے نہ تردید۔ البتہ اتنا پوچھنے میں کوئی خرابی نہیں کہ اگر فسانہ سارا جھوٹ ہے تو پھر پی ٹی آئی نے رازداری برتنے کی درخواست کیوں دائر کر رکھی ہے۔ کیا وہ جھوٹی کہانی کو نظربد سے بچانا چاہتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ کشمیر کی آزادی کے لیے وفاقی حکومت نے کچھ ماہ پہلے کنٹرول لائن پر گیت کاری کی محفل سجائی۔ اب پنجاب حکومت نے بھی آزادی کشمیر میں حصہ ڈالنے کی ٹھانی ہے اور گورنر ہائوس میں عالمی معیار کا ’’کنسرٹ‘‘ رچانے کا پروگرام ہے۔ اس جشن طرب کو میوزیکل نائٹ کا نام دیا گیا تھا۔ یورپ سے کسی راک سٹار کو درآمد کیا گیا تھا۔ اس شاندار شب نغمہ کو کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا نام دیا گیا۔ کشمیری بھی کیا یاد رکھیں گے کہ ’’سجن‘‘رکھتے تھے۔ خیر، مخالفین کا یہ شکوہ تو ختم ہوا کہ حکومت کشمیریوں کے لیے ایک ٹوئیٹ جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ اب کہا جاسکتا ہے کہ ٹوئیٹ کرتی ہے اور کنسرٹ بھی۔ لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق پروگرام منسوخ ہو گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ جے یو آئی کو مذاکرات میں بتا دیا تھا کہ کوئی استعفیٰ آئے گا نہ اسمبلیاں ٹوٹیں گی۔ ان کا یہ انکشاف جے یو آئی کے رہنما مولانا غفور حیدری کے اس ٹی وی شو کے جواب میں آیا ہے جس میں مولانا حیدری نے کہا تھا کہ ہم نے دھرنا پرویز الٰہی کے وعدے پر ختم کیا؛چنانچہ استعفیٰ بھی آئے گا اور اسمبلیاں بھی ٹوٹیں گی۔ پرویز الٰہی نے اس ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے یہ وضاحت کی ہے جو آن دی ریکارڈ ہے۔ آف دی ریکارڈ جو کچھ کہا گیا اور جو کچھ ہوا، اس کے بارے آنے والا وقت بتائے گا۔ خود پرویز الٰہی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے جے یو آئی کو ٹھوس یقین دہانیوں کی امانت دے کر رخصت کیا۔