غلام عباس پیپلز پارٹی کے جیالے تھے برسوں قبل عمران خان کو پیارے ہو گئے۔ کل کونسل آف نیشنل افیئرز کی ہفتہ وار نشست میں انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف اور میاں نواز شریف دور کے وزیر قانون زاہد حامد کے صاحبزادے علی زاہد کے بالمقابل انتخابی معرکے کی کتھا سنائی۔ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی سے مل کر پورے ملک میں الیکشن چوری ہونے کا شور مچا رہی ہے اور مورد الزام خلائی مخلوق کو ٹھہرایا جا رہا ہے مگر غلام عباس نے ریٹرننگ افسروں کے دستخطوں سے جاری ہونے والی دستاویزات دکھا کر ثابت کیا کہ زاہد حامد جیسے بااثر افراد کے حلقوں میں دھاندلی کا نشانہ پی ٹی آئی کے مخلص اور پرجوش امیدوار بنے جو تیرہ ہزار کی لیڈ سے جیتنے اور پولنگ عملے سے مبارکبادیں وصول کرنے کے بعد گھر چلے گئے مگر ریٹرننگ افسر کے دفتر سے بمشکل ڈیڑھ دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسر ڈیڑھ دو دن تک غائب رہنے کے بعد تھیلے لے کر پہنچے تو ان کی تیرہ ہزار کی لیڈ ختم اور تین ہزار سے ہار مقدر ہو گئی۔ وہ بار بار پوچھتے تھے کہ ؎ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے ری کائونٹنگ کے مرحلہ پر ریٹرننگ افسر نے لکھ کر دیا کہ بعض تھیلے سربمہر نہیں۔ اگر تھیلے سربمہر ہیں تو اندر لفافے کھلے ہیں اور بعض لفافوں کو ٹیپ لگا کر بند کیا گیا ہے جن میں موجود ووٹوں پر طرح طرح کی مہریں لگی ہیں اور یہ الیکشن کمشن کی مہر سے الگ مہر لگے ووٹ علی زاہد کے ہیں۔ ریٹرننگ افسر نے ری کائونٹنگ کے بعد رپورٹ میں تسلیم کیا کہ اعتراض صرف غلام عباس کو نہیں فریق ثانی کو بھی ہے۔ سی این اے میں الیکشن کی شفافیت‘ الیکشن کمشن کے کردار اور سابقہ حکومت کے علاوہ اپوزیشن کی غلط حکمت عملی کا تفصیل سے ذکر ہوا اور اس بات پر عمومی اتفاق رائے پایا گیا کہ جب تک ریٹرننگ افسر‘ پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمشن کے دیگر عملے کو کسی بھی قسم کی بے ضابطگی‘ نااہلی اور کسی امیدوار سے ملی بھگت پر جوابدہ اور مستوجب سزا نہیں ٹھہرایا جاتا، ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد محض خواب ہی رہے گا اور الزامات کی سیاست ختم نہ ہو گی۔ غلام عباس کا موقف پیش کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کا کہا حرف آخر ہے‘ اگر فریق ثانی جواب دینا چاہے تو یہ کالم حاضر ہے تاہم الیکشن کمشن نے 2013ء کے تجربے اور جسٹس (ر) ناصر الملک کی پیش کردہ جوڈیشل کمشن رپورٹ سے سبق نہ سیکھ کر قوم کے ساتھ سخت زیادتی کی اور ہر قسم کی دھاندلی کے الزامات سے پاک انتخابات کی قومی خواہش پوری نہ ہونے دی۔ مختلف حلقوں میں دھاندلی کی شکایات ہیں۔ کچھ درست ،کچھ غلط اور اکثر مبالغہ آمیز‘ مگر مسلم لیگ(ن)‘ پیپلز پارٹی‘ ایم ایم اے اور دوسری جماعتوں کے ’’اتحاد برائے شفاف انتخابات ‘‘نے روز اوّل سے جو موقف اختیار کیا وہ ابھی تک عقل سلیم کے لیے ناقابل فہم ہے۔ سب سے زیادہ عجوبہ روزگار‘ مؤقف مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کا ہے مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کو پیپلز پارٹی کی طرح 2013ء کے مقابلے میں زیادہ نشستوں پر کامیابی ملی جس پر سجدہ شکر بجا لانے کی ضرورت ہے مگر چونکہ مولانا خود دونوں نشستوں سے بری طرح ہارے لہٰذا الیکشن دوبارہ کرانے کا مطالبہ ہے۔ محمود خان اچکزئی کی جماعت کو تین نشستوں پر ایم ایم اے نے ہرایا۔ دو نشستوں پر وہ اسفند یار ولی کی جماعت سے ہارے مگر تبرا وہ فوج اور دیگر قومی اداروں پر بھیج رہے ہیں اور اس ڈھٹائی پر شرماتے بھی نہیں بندہ پوچھے کہ مولانا !دھاندلی ہوتی تو آپ کی نشستیں بڑھتی یا کم ہوتیں؟ اور اچکزئی صاحب اگر واقعی آپ کے امیدوار دھاندلی سے ہرائے گئے تو آپ گریبان مولانا کا پکڑیں یا اسفند یار ولی کا‘ مگر دونوں سے شیرو شکر ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے وعدے اور عزم کے مطابق ان ادھیڑ عمر جماعتوں اور بار بار آزمائی قیادت کو شکست دے کر خوفزدہ کر دیا ہے۔2013ء تک تو ان جماعتوں نے تحریک انصاف کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ عمران خان کو وہ سیاسی دائو پیچ سے ناآشنا ایک کھلاڑی ‘ان کے پیرو کاروں کو جذباتی نوجوان اور کرپشن کے خلاف ایجنڈے کو غیر سیاسی سوچ کا آئینہ دار سمجھتے رہے۔2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف دھرنے کو تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل جل کر ناکام بنایا تو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی سوچ مزید پختہ ہوئی کہ عمران خان تن تنہا کوئی سیاسی معرکہ سر کرنے کی پوزیشن میں ہے نہ انتخابات میں کامیابی کا ہنر جانتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو بیک وقت کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ایک بال سے دو وکٹیں گرانے کا دعویٰ درست ثابت ہوا۔ اس نے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹ لے کر اپنی مقبولیت ثابت کی جبکہ انتخابات کے بعد تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر میاں نواز شریف ‘ مریم نواز اور میاں شہباز شریف کی ان انتخابی تقریروں کی قلعی کھول دی کہ عمران نیازی اور آصف علی زرداری اندر سے ملے ہوئے ہیں اور تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا مطلب پیپلز پارٹی کو کامیاب کرانا ہے۔ مخالف جماعتوں نے 2014ء میں جو بیانیہ عمران خان کے دھرنے اور انتخابی دھاندلی کے خلاف وضع کیا 25جولائی کے بعد خود اس کی مٹی پلید کر ڈالی اور یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے مفاد کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ انتخابات میں ناکامی سے زیادہ مخالف جماعتوں کو تحریک انصاف کی کامیابی کا رنج ہے اور عمران خان کا اقتدار سنبھالنا ان کے لیے سوہان روح ہے۔ شامل باجہ جماعتوں کو تو شاید احساس ہی نہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا مقصد واضح ہے اگر عمران خان لوٹ مار‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور نمود و نمائش کے موجودہ مکروہ کلچر کو پندرہ بیس فیصد تبدیل کر پایا‘ اچھی حکمرانی کا آغاز کر دیا‘ تھانیدار اور پٹواری کا عوام دشمن رویہ بدلا اور قومی وسائل نمائشی منصوبوں کے بجائے تعلیم‘ صحت اور روزگار کے منصوبوں پر خرچ ہونے لگے تو 1985ء سے اب تک عوام کا خون نچوڑنے والی سیاسی جونکوں کا مستقبل تاریک اور حقیقی جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے جس میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوں گے اور عوامی نمائندے مافیا اور ڈان کے بجائے اپنے ووٹروں کے خادم، تابعدار اور ملک و قوم کے وفادار۔ یہی خوف اپوزیشن کے اتحاد کا جذبہ محرکہ ہے اور قائم ہونے سے پہلے حکومت کے خلاف مکروہ پروپیگنڈے کا بنیادی سبب۔ 2014ء میں دھاندلی کے الزامات کو درست ماننے اور انتخابات کو این آر او کا الیکشن قرار دینے والے منکرینِ عمران اگر آمادۂ احتجاج ہیں تو یہ اپنے اپنے حصے کی لوٹ مار بچانے کی تدبیر ہے‘ شفاف انتخابات کی خواہش نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملا‘ ورنہ دھاندلی صرف ان حلقوں میں نہیں ہوئی جہاں تحریک انصاف کے امیدوار جیتے‘ جہاں یار لوگوں کا دائو لگ گیا وہاں انتخابات شفاف ہوئے جہاں نہیں لگا وہاں دھاندلی کا شور؟ اندرون سندھ پیپلز پارٹی‘ وسطی پنجاب میں مسلم لیگ اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مذہبی جماعتوں کے اُمیدواروں کی کامیابی اگرشفاف انتخابات کا نتیجہ ہے باقی جگہ دھاندلی ہوئی‘ کوئی باشعور ایسی احمقانہ بات کیسے مان سکتا ہے؟۔ گویا اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمشن کو نتائج تبدیل کرتے ہوئے یہ علاقے اور جیتنے والے امیدوار یاد نہ رہے۔ غلام عباس کی باتیں سن کر تو یوں لگتا ہے کہ آر ٹی ایس کی بندش بنیادی طور پر تحریک انصاف کے سونامی کو روکنے کی کوشش تھی ورنہ بندش سے پہلے بھی تحریک انصاف جیت رہی تھی بعد میں بھی وہی جیتی‘ نتائج کی رفتار اور جیت کی اوسط البتہ متاثر ہوئی۔