باب حریم حرف کو کھولا نہیں گیا لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا خوئے گریز پائی نقش قدم نہ پوچھ منزل کی سمت کوئی بھی رستہ نہیں گیا یہ گریزئی نقش پا اپنی جگہ ایک وصف سہی مگر اختراع اور تخلیق کا سلیقہ اور قرینہ بھی تو ضروری ہے، نئے راستے تراشنا ہرکس و ناکس کام بھی تو نہیں۔ کیا کیا جائے یہ عہد بھی تو قحط الرجال کا ہے۔ اکثر رجال تو وبال ہی ثابت ہوتے ہیں۔ وہ مرد خلیق والی بات بھی نہیں، کہ جس کا ذکر حضرت اقبال نے کیا تھا۔ اقبال نے تو شاہین کا ذکر بھی کیا تھا۔ مگر کیا کریں کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور۔ اب تو عام سی وضعداری اور اخلاقیات بھی مفقود ہیں۔ دکھی دل کے ساتھ تذکرہ کرنا پڑتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ ماجدہ انتقال کر گئیں تو ظاہر ہے انہیں لاہور بھیجا گیا ،کہ تدفین ہو سکے اب اس پر تبصرہ کرنا کہ پوتوں کو اپنی دادی کا پارسل بھیجنا اچھی روایت نہیں ،ایک نئی بھونڈی روایت تو ہو سکتی ہے ہماری درخشندہ اقدار میں سے نہیں۔ بڑے پن کا تقاضا تو یہ ہے کہ تعزیت کی جائے اور دعائے مغفرت، ایک اور نابغہ ترجمان نے بلاول کی وساطت سے مریم کے لئے نیک دعا کی کہ وہ بھی قرنطینہ میں سکون کریں ۔خدا کے لئے یہ کس قسم کی سیاست ہے ایسے ہی ایک استاد کا شعر یاد آ گیا: خطائوں کی چبھن فوراً کہاں محسوس ہوتی ہے ندامت کی طرف آتا ہے دل آہستہ آہستہ یہ تو شعر برائے شعر ہے، یہاں کسی کو ندامت نہیں ہونے لگی کہ اس میں تو ایک بڑا پن ہے ۔اصل میں ہمارے حکمران کارکردگی کے حوالے سے صفر ہیں ،کہ اس سے نیچے یعنی منفی کی طرف گامزن ہیں۔ کہنے کو ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں ،تو وہ جو منہ میں آتا ہے اسے روکنے سے قاصر ہیں۔ ظاہر ہے ایسا اظہار غصے اور نفرت کے باعث وجود پاتا ہے۔ آپ کے ناکارہ پن سے پی ڈی ایم کارآمد نظر آنے لگی، کرونا تھریٹ کے باوجود ان کے جلسوں اور ریلیوں میں ہزاروں لوگ نکلے ہیں ،تو اس میں ہاتھ حکومت کا ہے، وہ سب تو مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ خان صاحب فرما رہے ہیں، اپوزیشن تحریک سے حکومت کو نہیں عوام اور معیشت کو خطرہ ہے۔ ہائے ہائے خاں صاحب!یہ تو بتائیے کہ عوام اور معیشت کے پلے آپ نے چھوڑا کیا ہے۔ اپوزیشن تو پچھلے اڑھائی سال میں تھی ہی نہیں۔ اتحادیوں نے آپ کو مکمل تعاون دیا۔ بے شمار قرضے بیرونی امداد‘ کرونا ایڈ اور پھر یوٹیلیٹی بلز میں بے تحاشا اضافہ اس سب کے باوجود آپ مدّا ڈالنے کے لئے کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ بھی گھبرا گئے: ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا رونے والے تجھے کس بات پر رونا آیا میرے معزز قارئین:آپ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں ،آپ کو اس کا حق ہے مگر میں تو اپنی دیانتداری سے دل کی بات کاغذ پر رکھ دیتا ہوں۔میرا یہی منصب ہے کہ زہر کو قند نہ کہوں اور ہارے ہوئے شخص کو ظفر مند نہ لکھوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل رہا ہے مگر سچ نے سچ اور جھوٹ نے جھوٹ رہنا ہے۔ اب دیکھیے ناں ہمارے عمران خاں صاحب نے بے شمار فالورز پیدا کئے، جو ان کے ساتھ ہر قوالی پر سنگت کرتے ہیں۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ حالات و واقعات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سب کا مزاج اور کیمسٹری ہی بدل دی ہے ۔ کیا تماشا ہے کہ انہوں نے سونامی کو نئے معنی دیے۔ اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے بعض اوقات تو خان صاحب وضاحتوں میں بہت معصوم نظر آتے ہیں، ان کا وضاحتی بیان یہ آیا ہے، کہ انہوں نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانوں کا تذکرہ یوں نہیں کیا تھا کہ دو سال میں بن جائیں گے ،یہ تو پانچ سالہ منصوبہ تھا۔ چلیے ہم یہ بھی مان لیتے ہیں مگر یہ کہا کہ پچھلے اڑھائی سال میں لاکھوں نوجوان بے روزگار ہو گئے۔یہ بھی درست ہے کہ کورونا نے بھی منفی اثرات ڈالے مگر کورونا سے پہلے بھی تو ڈیڑھ سال تھا اور بعد میں بھی وہی حال ہے۔ اب بتائیے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے کہ کیا اس میں کوئی فارن فنڈنگ اور باہر سے ملنے والی کورونا امداد کا کیوں سوال نہیں کر سکتا۔ حکومت کے نمائندوں میں ایک بے دلی سی محسوس ہوتی ہے کہ جیسے وہ خود پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ ان کے متعلقہ وزیر باتدبیر کا بیان پڑھ کر مجھے ہنسی آ گئی کہ فرماتے ہیں نواز شریف کو واپس لائیں گے ان کی بات ان کے لہجے سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، پھر خود ہی تضاد میں کہنے لگے نواز شریف کو ان کی والدہ کی موت لاہور نہیں لا سکی، تو ہم کیسے لا سکتے ہیں۔ بس ایک لاحاصل بحث ہے جس کے پیچھے یہ لگے ہوئے ہیں۔ بس چل چلائو نظر آ رہا ہے اڑھائی سال تو گزر گئے باقی بھی گزر جائیں گے حسن عباس نے تو کہا تھا: بازار جاں میں مہنگا بہت تھا گل مراد ارزاں تھی صرف شاخ تمنا خرید لائے ایک بار پھر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اندر سے وہ برداشت تحمل اور بردباری تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اچھی بات ہے مگر اس میں مقابل میں دشمن ہونا چاہیے۔ مگر یہ انتقام مواخذہ اور محاسبہ میں نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ جرم کی تفتیش اور سزا عدالتوں کا کام ہے یا پھر کسی حد تک نیب کا مگر اسے سیاست زدہ کر دیا گیا۔ نیب عیب نظر آنے لگا یہ میں نہیں عدلیہ یعنی سپریم کورٹ نے ان کی فعالیت پر ریمارکس دیے تھے اس نے آٹا چوروں کو نہیں پکڑا، اس کے برعکس حکومت کی کمال کارکردگی کہ رانا ثناء اللہ پر 20کلو ہیروئن ڈال دی۔ قسمیں کھا کھا کر اس کو سچ بتانے والے بعد میں آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ اس معاملے حکومت کی خوب بد اڑی۔ اب ملتان میں کیا ہو رہا ہے وہی پرانا دور پکڑ دھکڑ اور وہی جلسے کو ناکام بنانے کے ہتھکنڈے ۔ پی ڈی ایم کے کارکنوں نے سٹیڈیم گیٹ کے تالے توڑ دیے جس پر فردوس عاشق اعوان متعلقہ لوگوں کے ہاتھ توڑنے کی بات کر رہی ہیں سب جانتے ہیں کہ تحریکوں میں کیا ہوتا ہے ہر جگہ آپ نے جلسے روکے مگر سب جگہ ہو گئے آپ اپنا کام کرتے جائیے اپوزیشن اپنا کام۔مردہ اپوزیشن زندہ بھی آپ نے کی۔ آپ نے عوام کو کچھ نہیں دیا اگر دیا بھی تو چھٹیاں۔ کورونا کو میں بہانہ نہیں کہوں گا مگر کورونا کے نام پر تعلیم کو برباد کرنا اچھی بات نہیں سکولوں اور کالجوں میں ایس او پیز کے تحت سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، اس شعبے میں بہت سے استاد بے چارے بے روزگار ہو گئے۔ چھوٹے سکول اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے میں تو چاہتا ہوں کہ حکومت کوئی اچھا کام کرے تو ہم توصیف کریں۔ سب طاقتیں آپ کے ساتھ ۔ اتنی مضبوط حکومت آج تک کسی کو نہیں ملی: دھوپ اتری اشجاد سے بھی دھوکہ کھایا یار سے بھی دل میں پھول کھلا تو پھر چھنبے لگے کچھ خار سے بھی