مجھے نہیںعلم کہ عبدالصمد بچ سکا ہوگا یااسکی نبض ڈوب چکی ہوگی شائدوہ بچ کر اسپتال میں اپنے گھاؤ بھرنے کا انتظار کررہا ہوجو اسے صرف اس بناپر لگے کہ اسکا نام رام سنگھ ہے اور نہ وہ مندر میںگھنٹے بجاتا ہے اورنہ ان کی طرح کسی دیوی دیوتا کی پو جا کرتا ہے اسکا دین دھرم الگ ہے وہ مسلمان ہے اور ’’غلطی‘‘ سے بھارت کاشہری ہے ، اس نوجوان کی ڈوبتی ہوئی نبض اور اکھڑتی سانسوں کے ساتھ دیئے گئے بیان کی وڈیو سوشل میڈیا پر چکراتی پھر رہی ہے وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال لایا گیا تھا اوراسٹریچر پر اکھڑی اکھڑی سانسوں کے ساتھ بتا رہا تھا کہ انہوں نے چھوٹتے ہی مجھ پر حملہ کیا ۔۔۔ کہنے لگے ۔۔۔یہ ملا آگیایہ کورونا پھیلا رہا ہے ۔۔۔ اس وقت وہاں جان پہچان کے ہندو محلے داربھی موجود تھے لیکن کسی نے مجھے نہیں بچایا۔۔۔ بعد میں عبدالصمد کے باپ نے نیوز چینلز کو بتایاکہ میرے بیٹے کی زرا طبیعت خراب ہوئی تھی یہ کیمسٹ سے دوا لینے گیاتھاوہاں کچھ ہندو لڑکے بھی کھڑے تھے انہوںنے اسے دیکھا توان میں سے ایک نے کہا وہ آگیا کٹوا،موسلا کورونا پھیلانے اور پھر سب سے اس پر پل پڑے مارنے پیٹنے لگے وہ بیچارہ چیختا چلاتا ہی رہ گیا۔ بھارت میں انتہا پسند جنونی ہندؤں کے ہاتھوں اس طرح کے واقعات عام ہوچکے ہیں ،ہندوتوا کے جنونی انتہا پسند باقاعدہ پلاننگ کرکے اپنا ٹارگٹ چنتے ہیںیہ کہیں جمع ہوتے ہیں اور آتے جاتے کسی اکیلے مسلمان کو گھیر کر مارنے لگ جاتے ہیں،لوہے کے راڈاور ڈنڈوں چاقوؤں سے مسلح یہ اوباش سیکنڈوں میں اپنے شکار کی ٹانگیں ہاتھ توڑ دیتے ہیں سر پھاڑ ڈالتے ہیں،اس کارروائی کی باقاعدہ موبائل فون سے وڈیو بنائی جاتی ہے او ر اسے پھر سوشل میڈیا پر ڈالاجاتا ہے کہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلے اور ہندو توا کے جنونیوں کے حوصلے بلند ہوں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس 1925ء میں ناگپور میں کیشو ابلی رام ہیٹر گیوار نے قائم کی اپنے قیام کے دو سال بعد ہی اس کے زہریلے ناگ اور ناگنوں نے بھارتی معاشرے کو ڈسنا شروع کردیا1927کو ناگپو ر میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں اس جماعت کی پہلی کامیابی تھی اسکے بعد یہ تنظیم بزور طاقت بھارت کو ہندو ریاست میں بدلنے کی کوشش کرتی رہی،مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والانتھورام بھی اسی تنظیم کا رکن تھا جس کی برسی اب انتہا پسند بڑے اہتمام سے مناتے ہیں ،اس جماعت کے لچھن دیکھ کر انگریزوں نے اس پر پابندی لگادی تھی ،بٹوارے کے بعد بھی یہ جماعت پابندیوں کی زد میں رہی لیکن اس جماعت کا تعصب پابند نہیں رکھا جا سکا ،اس جماعت نے منظم انداز میں ہندومت کے مدارس کھولے ،عسکری تربیت کے مراکز قائم کئے اور اپنے ہم خیال لوگوں کو مختلف شعبوں میں منظم کرنا شروع کیا،ون بندھو پریشد، راشٹریہ سیوکا سمیتی،ونواسی کلیان آشرم،بھارتیہ مزدور سنگھ،اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد جو کہ اسکی طلباء تنظیم ہے متحرک رہی بھارتیہ جنتا پارٹی اس جنونی تحریک کا سیاسی ونگ ہے جو اسکی پالیسیوں کے مطابق راج سنگھاسن میں فیصلے کرتے ہوئے اس تحریک کو آگے بڑھا رہی ہے ،اس وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آر ایس ایس ہی کے کارکن رہے ہیں جنہوںنے سقوط پاکستان میں مکتی باہنی کے لئے باقاعدہ رضاکار کے طور پر کام کیا اور اسکا اعتراف اپنے دورہ بنگلہ دیش میں اپنی زبان سے کیا۔ آرایس ایس کی پیشانی میں اسکے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی خو دکومخلف شعبوں میں بڑا منظم کررکھا ہے اور کئی شعبوں میں ’’مورچے‘‘ کھول رکھے ہیں۔ بی جے پی کسان مورچہ انتہا پسندو ہندو دہقانوں او ربی جے پی مہیلا مورچہ اسکی خواتین کی تنظیم ہے ان کا مقصد صرف اور صرف بھارت کو ہندو ریاست بناناہے اور ایسے وقت میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی صورت میں آر ایس ایس کی حکومت ہو توپھر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے واقعات ہونا اچنبھے کی بات نہیں یہ سب نہ ہوتا تو عجیب لگتا اسکے مختلف گروپس مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ سے ہندو بنانے کے مشن پر بھی کام کررہے ہیں ،شدھی تحریک کو موجودہ دہائی میں ’’گھرواپسی پروگرام ‘‘کا نام دیا گیا ہے 2014ء میں آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد نے زور شور سے یہ تحریک چلانے کا اعلان کیاان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمان عیسائی اور دلت صدیوں پہلے ہندو ہی تھے جواپنے مذہب سے بھٹک گئے اب انہیں واپس گھر آجانا چاہئے سنگھ پریوار کے سربراہ اشوک سنگھل کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ عیسائی اور مسلمان دراصل ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں انہیں انکے آباؤاجداد کے دھرم میں لانا کوئی غلط نہیںآر ایس ایس کی ذیلی تنظیم جاگرن منچ کے سربراہ نے 2015ء میںتین لاکھ عیسائی اور مسلمانوں کی ’’گھرواپسی‘‘ کا انکشاف کیا تھا ،نو مئی 2020ء کو بھارتی میڈیا میں چالیس خاندان کے ڈھائی سو مسلمانوں کی پوجا پاٹ کی تصویرکے ساتھ ہندو مذہب میں شمولیت کی خبرنے بھارتی اقلیتیوں میں تشویش پھیلا رکھی ہے گھر واپسی پروگرام کے آغاز پروشوا ہند پریشد کے ترجمان نے فتح پور میں بیان دیا تھا کہ گھر واپسی کے ذریعے ہندو مذہب قبول کرنے والے مسلمان ہمارے نزدیک محب وطن کہلائیں گے ،یعنی صاف بات ہے جو ہندو دھرم میں نہیں آئے گا وہ غدار کہلائے گا ۔۔۔بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر حملوں اورخوف وہراس پھیلانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں گھیر گھار کر اس بند گلی میں دھکیل دیا جائے کہ جس کے کونے پر مندر کا گھنٹہ لگاہو،تنگ نظرحکومت میں آنے والے دن بھارتی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لئے مشکلات کا پیغام لارہے ہیںلیکن مسلمانوں کی زندگی عذاب بنانے والے نہیںجانتے کہ ’’اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا جتناکہ دباؤ گے۔۔۔‘‘ یعنی کہ مان لینا چاہئے کہ آر ایس ایس بھارت میں ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ رہی ہے بھارتی مسلمان عیسائیوں اور سکھوں کے ساتھ مل کر ایک عظیم تحریک اٹھا سکتے ہیں !