ایک اخبار میں جماعت اسلامی کے رہنما امیر العظیم کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ مدارس کے بنک اکائونٹ منجمد کرنا تشویش ناک ہے۔ کوشش کے باوجود کسی اور اخبار میں یہ بیان نہیں مل سکا، شایداسی اکیلے اخبار نے چھاپا۔ البتہ اس دوران وفاق المدارس کی تنظیموں کے بیانات میں یہ نکتہ بھی شامل تھا جسے سرخی میں تو نہیں، متن میں جگہ ملی۔ بیان کے اگلے روز ایک اخبار کے تجزیہ نگار نے اپنے کالم میں اس کی تفصیل بیان کی اور بتایا کہ کم و بیش ڈیڑھ سو بڑے مدارس کے بنک اکائونٹ منجمد ہو چکے ہیں اور یہ وہ مدرسے ہیں جن کا دہشت گردی کے حوالے سے بننے والی اے بی سی کسی کیٹگری میں نام نہیں ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ان مدارس میں طلبہ کی تعداد کم ہو گئی ہے، اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، بچوں کا کھانا کم پڑ رہا ہے، بعض مدرسے بند ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔ مدرسوں پر نگرانی اتنی سخت ہے کہ چندہ دینے والے ڈرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ کئی برس ہوتے ہیں کہ بال بتدریج کالے کرنے والی ایک پراڈکٹ کا اشتہار ان الفاظ میں آیا کرتا تھا کہ پھر سے جواں نظر آئیے، رازداری کے ساتھ۔ مطلب یہ تھا کہ اگر آپ کے بال 20فیصد، 30فیصد یا اس سے بھی زیادہ سفید ہو رہے ہیں تو خضاب مت لگائیے۔ سب جاننے والوں کو پتہ چل جائے گا کہ آپ نے خضاب لگایا ہے۔ اس لیے کہ ابھی کل تو اتنے بال سفید تھے، آج سارے کالے کیسے ہو گئے۔ ہماری پراڈکٹ ہر روز ایک آدھ فیصد بال کالے کرے گی، رفتہ رفتہ کالے بالوں کی شرح بڑھتی جائے گی، جاننے والوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ فارمولا بڑی ذہانت والا تھا لیکن چلا نہیں۔ پراڈکٹ فیل ہو گئی، کارخانہ بند ہو گیا۔تب حکومت پی ٹی آئی کی نہیں تھی، پھر بھی بند ہو گیا۔ بہت’’انٹیلی جنٹ‘‘ آئیڈیا تھا، یہ تو ماننا پڑے گا۔مدارس کے ساتھ بھی ایسا ہی ’’ذہین‘‘ فارمولا برتا جا رہا ہے، رفتہ رفتہ، رازداری کے ساتھ۔ واشنگٹن میں گئے مہینوں کے دوران بہت کچھ طے ہوا اور کیا پتہ کیا کیا طے ہوا، کیا کیاطے ہونے پر اتفاق کیا گیا۔بہر حال، لگتا یوں ہے کہ مدارس کے خلاف کوئی کریک ڈائون نہیں ہو گا، کسی مدرسے کو بند نہیں کیا جائے گا، کسی کے اساتذہ کو ہراساں نہیں کیا جائے گا لیکن رفتہ رفتہ، رازداری کے ساتھ والا فارمولا۔ بچے پریشان نہ ہوں، حکومت جگہ جگہ لنگر کھولے گی۔ چائلڈ لیبر پھر سے بڑھنے لگی ہے، آپ بھی اس میں شامل ہوں، کھانا سرکار کے لنگر سے کھائیں، چائلڈ لیبر سے جو پیسے ملیں، وہ بچا کر رکھیں۔ ٭٭٭٭٭ چند دن پہلے حماد اظہر نے ہمراہی وزیروں کے ساتھ پریس کانفرنس کی تھی کہ معیشت درست راستے پر چل پڑی ہے۔ یار لوگوں نے اعتبار نہیں کیا لیکن دیکھو،اب انٹرنیشنل گواہی بھی آ گئی۔ وزیر صادق و امین حکومت کے ہوں اور ان کی بات غلط نکلے، یہ کیسے ممکن ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی مسابقتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو تین درجے ’’ترقی‘‘ دے دی گئی ہے اور اس کا نمبر 107سے 110ہو گیا ہے۔ خود فیصلہ کر لیں کہ 107کا عدد بڑا ہے یا 110کا۔ ہم بڑے عدد پر آ گئے ہیں، یعنی درست راستے پر چل پڑے ہیں۔ بعض میڈیا گروپوں نے پروف کی غلطی سے ’’ترقی‘‘ کی جگہ تنزلی کا لفظ لکھ دیا ہے۔ انفراسٹرکچر کی سہولتوں کے حساب سے پاکستان کا نمبر 93سے ’’بڑھ‘‘ کر 105پر آ گیا، یعنی 12نمبروں کا اضافہ معاشی استحکام نمبر 103سے ’’بڑھ‘‘ کر 116ہو گیا، یعنی 13درجے کی تاریخی ترقی۔ یہ اعدادوشمار کئی مہینے پرانے بہی کھاتوں کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں بعد کے مہینوں میں تو ترقی جانے کہاں سے کہاں جا پہنچی ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ چند روز پہلے صدق و امانت کے مجسمے شیخ رشید نے یہ اطلاع دی کہ کوٹ لکھپت جیل سے مریم نواز کے زیر استعمال ایک موبائل فون پکڑا گیا ہے اور موبائل فون بھی نہیں، اس کے ذریعے ’’اہم‘‘ رابطوں کا بھی سراغ مل گیا ہے۔ ’’اہم‘‘ کی وضاحت نہیں تھی لیکن ظاہر ہے، نریندر مودی وغیرگان ہی مراد ہوں گے۔ انتظار تھا کہ ان تہلکہ خیز رابطوں کے انکشاف کے اندر سے مزید تہلکے برآمد ہوں گے لیکن آئی جی اور سپرنٹنڈنٹ جیلخانہ نے تردید کر دی کہ کسی کے قبضے سے کوئی موبائل فون برآمد نہیں ہوا، افواہ کو خبر بنایا گیا ہے۔ یہ تردید سراسر جھوٹ تھی لیکن افسوس کے لوگوں نے اس جھوٹی تردید پر اعتبار کر لیا، اس سچے تہلکے کو اہمیت نہیں دی جو سدابہار سچے شیخ رشید نے مچایا تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف پولیس افسر جن کی بات کے سچے ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں، دوسری طرف صرف سچے ہی نہیں، اعلانیہ سچے شیخ رشید۔ اعلانیہ سچے ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ شیخ صاحب پچھلے بیس بائیس برس سے ہر تین مہینے بعد بھری پریس کانفرنس میں یہ اعلان دہراتے آ رہے ہیں کہ میں نے آج سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب کسی کے سچے ہونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ جی؟ ٭٭٭٭٭ شیخ جی کے سچے ہونے سے یاد آیا، سال ڈیڑھ پہلے کی بات ہے شیخ الاسلام اور پی ٹی آئی والوں نے نواز شریف کی ملز میں ’’را‘‘ کے سینکڑوں ایجنٹ ملازم کے طور پر بھرتی ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ شیخ صاحب سمیت لکھنے والی کئی شخصیات نے حب الوطنی کے مرثیے پڑھے تھے، چینلز پر ایک سے بڑھ کر ایک فریادی پروگرام ہوا تھا۔ شیخ جی ان سینکڑوں ایجنٹوں کا کیا بنا؟ قوم کو بتائیے گا ضرور اور ہاں، بتانے سے پہلے یہ اعلان دہرانا مت بھولیے گا کہ میں نے آج سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک ہفتے میں چوتھی بار بجلی کی قیمت پونے دو روپے یونٹ مہنگی کر دی گئی۔ یوں ان سات آٹھ دنوں میں بجلی لگ بھگ ساڑھے چار روپے یونٹ مہنگی ہوئی ہے۔ لگتا ہے یہ سب وزیر اعظم کے ’’احساس‘‘ پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔