ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ محترم عرفان صدیقی کے ہمراہ میرے ہاں آئے کہ صدیقی صاحب کی کتب میرے پبلشرز سے شائع ہو رہی تھیں۔ شاہد صاحب پہلی ہی نظر میں ایک نستعلیق شخصیت کی صورت دل میں اتر گئے۔ پھر پتہ چلا کہ ان کا سبجیکٹ بھی انگریزی ہے اور Lumsمیں پڑھا رہے ہیں۔ میری ان کے ساتھ انگریزی کی مناسبت بھی بن گئی۔ اس کے بعد ان سے نیشنل بک فائونڈیشن کے کتاب میلہ میں ملاقات ہوئی۔ یہ تو معلوم ہوتا رہا کہ وہ ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے وائس چانسلر تک پہنچ گئے ہیں ایک بات بہرحال میرے لیے نئی تھی کہ اپنی وضع قطع سے ایک تدریسی اور رکھ رکھائو والا شخص تخلیق کار بھی ہو سکتا ہے ان کے ناول کی دھوم سنی جس کا نام تھا’’آدھے ادھورے خواب‘‘ اس پر سعدیہ قریشی کا شاندار کالم بھی 92نیوز میں پڑھا۔ اس ناول کا موضوع بھی تو سعدیہ کے مزاج کے ساتھ لگا کھاتا تھا۔ اب کے جب میں کتاب میلے میں گیا تو عرفان صدیقی نے نہایت محبت اپنے کالموں کا انتخاب عطا کیا اور وہیں ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنا ناول میرے سپرد کرنے کا کہا مگر رش کے باعث ہم دونوں کتاب میلے میں کھو گئے۔ انہوں نے کمال مہربانی سے وہ اچھوتا ناول میرے گھر کے پتے پر روانہ کر دیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کسی بھی شاعر کے لیے سب سے مشکل کام ٹک کر بیٹھنا ہے اور اس سے بھی دشوار کسی ناول کو پڑھنا ہے۔ یہ الگ بات کہ ایک مرتبہ مجھے چوٹ لگی تو میں نے آگ کا دریا جیسا ضخیم ناول بھی پڑھ ڈالا۔ کورس میں موجود ناول تو مجبوری سے پڑھے اردو میں بھی جنت کی تلاش اور آگے سمندر ہے جیسے ناول بھی پڑھے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کا ناول ’’آدھے ادھورے خواب نے تو مجھے باندھ کر بٹھا دیا۔ ایک دو روز میں یہ تشنگی چھوڑ کر ختم ہو گیا۔ مگر میں ابھی تک پروفیسر سہارن رائے اور امتثال آغا کے ساتھ گھومتا پھرتا ہوں۔ ایک آئیڈل ازم سے میں روشناس ہوا ایک خیر مجھ میں در آئی۔ پتہ چلا سچ بھی تو جنون ہے۔ تین پتیوں والا پھول میرے دل میں آن کھلا ہے۔ اگر میں ناول کا نتیجہ نکالوں تو یہ شعر بن جائے: اختتامِ سفر کھلا ہم پر وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ چلیے ایک شعر اس کے ساتھ اور ملا لیںتو پروفیسر رائے کا پیغام بھی نقش ہو جائے: اے شب آگہی ستارے چن بام روشن ہیں ماہتاب کے ساتھ اس ناول کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آپ محسوس کرتے ہیں جیسے آپ رم جھم میں بھیگتے جا رہے ہیں اور سبک خرام ہوا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کہیں تکلف نامی کوئی شے نہیں۔ غیر محسوس طریقے سے بتایا گیا ہے کہ اب بھی معاشرے کو بدلنے میں کتاب کا بڑا عمل دخل ہے اور کتاب سے بھی زیادہ استاد کا خلوص اور دیانت ہے۔ اگرچہ اس کہانی کی رو آپ کو مغالطے میں بھی بہاتی ہے کہ شاید یہ کہیں وہیں گھسا پٹا پیار کا معاملہ تو نہیں کہ جو اکثر عمر رسیدہ استادوں کو شاگردوں سے ہو جاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں تقدیس کی صورت گری نہیں ہو پاتی۔ رفتہ رفتہ آپ کے اندازے غلط ہوتے جاتے ہیں اور تیرگی سے یا جھٹپٹے سے باقاعدی روشنی نمودار ہوتی ہے آنکھوں کی برسات اور پھر سوچ کے آسمان پر قوس قزح۔ مجھے یہ ناول اس لیے بھی زیادہ اپیل کیا کہ انصاف کی بحالی کی تحریک اپنے پس منظر میں رکھتا ہے اور اسی تحریک کے ایک بہادر مجاہد رائے صاحب ہیں جو عارضہ قلب کے باوجود عملی طور پر وکلاء کے ساتھ برابر کے شریک بلکہ آئیڈیا میکر ہیں۔ اتفاق یہ کہ میں بھی اس وکلاء تحریک میں آمریت کے خلاف باقاعدہ شامل رہا۔ ٹرک پر چڑھ کر کرد صاحب کی موجودگی میں نظمیں پڑھیں۔ میں اس فضا کو جانتا ہوں کہ ہر وقت خدشہ تھا کہ کون اٹھا لیا جائے اور پھر اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا ایسے سیٹ اپ میں سہارن رائے کو اپنی رائے رکھنے کی اجازت کیسے مل سکتی تھی۔ وہ صرف کتابی پروفیسر نہیں تھے اور نہ حسابی۔ ناول کی ایک خوبی کردار نگاری ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے کردار بالکل حقیقی نظر آتے ہیں۔ دلچسپی شروع سے آخر تک قاری کو ہلنے نہیں دیتی۔ آغاز اور انجام ایسے ملے ہیں کہ ایک نظم کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرد اور عورت کی نفسیات سے خوب خوب واقف ہیں بلکہ وہ قاری کی نفسیات بھی جانتے ہیں وہ کہیں بھی پکڑائی نہیں دیتے۔ اپنی مرضی سے کہانی چلاتے ہوئے قاری کو زمینی حقیقتوں سے جوڑتے ہوئے افقی سمت لے جاتے ہیں۔ آپ کی بدگمانی خوش گمانی میں بدلنے لگتی ہے۔محبت کا باقاعدہ ایک فلسفہ اس میں موجود ہے کہ محبت اپنے مشن کے ساتھ بھی ہو سکتی بلکہ اصل محبت وہی ہے جو آپ کو اپنے نظریے سے ہو اور یہ محبت اپنی انا سمیت ہر شے کی قربانی دیتی ہے ایثار کرتی ہے اور اپنے آپ کو تنہا کرتی ہے۔ رائے صاحب کہتے ہیں۔ ’’محبت اپنے آپ کو منوانے کی خواہش کا نام ہے جب ہم محبت کے معبد میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی شہرت مرتبہ اور انا اس کی دہلیز پر رکھ دیتے ہیں‘‘ کہاں شعیب بن عزیز آن کھڑے ہوئے: دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب میں تیرے فقیروں میں میں تیرے غلاموں میں بس اسی طرح رائے صاحب نے اپنے آدرش سے محبت کی۔ عوام کی خوشحالی اور غریبوں کی آنکھوں میں اچھے اور خوشنما خواب سجانے کے لیے انہی کی سحر انگیز شخصیت کا کمال ہے کہ امتثال آغا نے اقوام متحدہ کی آفر چھوڑ کر ایک پرائمری سکول میں پڑھانا شروع کر دیا ایک بے انت جذبے کے ساتھ نئی نسل کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اس ناول میں پراسراریت بھی ہے۔ جب رائے صاحب امتثال سے کہتے ہیں کہ وہ اسے پہلے بھی کہیں مل چکے ہیں مجھے منیر نیازی چین سے واپسی پر بتایا کہ انہیں قدیم مکانوں کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے وہ یہ پرانے گھر پہلے بھی کہیں دیکھ چکے ہیں۔ ایک شعر یاد آ گیا: اتنا لکھوں گا ترے بعد ترے بارے میں آنے والوں نے تجھے پہلے ہی دیکھا ہو گا ڈاکٹر شاہد صدیقی کو شاعری سے بھی شغف ہے۔تبھی تو انہوں نے عبید امجد کی زبان میں بات کی اور کس قدر جامعیت سے فلسفہ حیات رائے کے کردار کو سونپا: دوست یہ سب سچ ہے لیکن زندگی کاٹنی تو ہے بسر کرنی تو ہے گھات میں ہے منتظر چلے یہ تیر ہرنیوں نے چوکڑی بھرنی تو ہے ہم نے بھی اپنی نحیف آواز کو شاملِ شورِ جہاں کرنا تو ہے زندگی اک گہری کڑوی لمبی سانس دوست پہلے جی بھی لیں مرنا تو ہے یہ آواز حرف کی آواز ہے جسے تعلیم کی صورت معاشرے کا حصہ بنانا ازبس ضروری ہے خوابوں کا یہ سلسلہ نسل درنسل اپنی تعبیروں کی تعاقب میں رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب ایسے ناول اور لکھئے۔