وزیر اعظم عمران خان نے دیامربھاشا ڈیم پر تعمیراتی منصوبہ بندی پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے اس کی فوری تعمیر کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ہونے سے تعمیراتی کام میں مقامی سامان اور افرادی قوت کے استعمال سے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل(ر)عاصم سلیم باجوہ کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان ایک تاریخی خبر ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کا تازہ تخمینہ 1400ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ابتدائی طور پر کام کرنے والے عملے کے لیے رہائشی کالونی، سڑکوں اور دیگر ضروری ڈھانچے پر کام لگ بھگ مکمل ہو چکا ہے۔ گلگت بلتستان کے علاقے میں تعمیر ہونے والے بھاشا ڈیم سے 4500میگاواٹ بجلی حاصل ہونے کا امکان ہے جبکہ اس میں 6.40ملین ایکڑ فیٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا۔ پانی ذخیرہ کے لیے200مربع کلو میٹر کا علاقہ منصوبے میں شامل کیا گیا ہے، بھاشا ڈیم توانائی کی قلت کے شکار پاکستان کے لیے ایک مفید منصوبہ ہے تا ہم ماہرین کے مطابق یہ کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ پہاڑی اور پتھریلے علاقے کی وجہ سے بھاشا ڈیم سے نہریں نکال کر اردگرد کے علاقوں میں آبپاشی کے لیے استعمال نہیں ہو سکتیں جبکہ کالا باغ دریائے سندھ کے پانی کے نہری استعمال کے لیے سب سے زیادہ موزوں مقام سمجھا جاتا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی منصوبہ بندی 2008ء میں مکمل ہوئی۔ اس وقت تعمیراتی لاگت کا تخمینہ 12.6ارب ڈالر لگایا گیا۔مارچ 2008ء میں منصوبے کی تفصیلی ڈرائنگ مکمل کر لی گئی۔ اگست 2012ء میں منصوبے کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے بڑے شراکت داروں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کر لی۔ بھارتی اثر و رسوخ نے ان اداروں کو منصوبے سے الگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ دونوں نے کہا کہ ڈیم ایک متنازع علاقے میں تعمیر کیا جا رہا ہے اس لیے پاکستان اگر فنڈز چاہتا ہے تو اسے بھارت سے این او سی لینا ہو گا۔ 20اگست 2013کو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ورلڈ بینک اور آغا خان فائونڈیشن کو بھارتی این او سی کے بغیر منصوبے کے لیے فنڈز فراہم کرنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اور آغا خان فائونڈیشن منصوبے کے بڑے فنانسر بننے پر تیار ہو گئے ہیں۔ اگست 2013ء میں ہی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم پر یکے بعد دیگرے کام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ بتایا گیا کہ بھاشا ڈیم پر 12برس تک کام مکمل ہو جائے گا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے منصوبے کی باقاعدہ منظوری دیتے ہوئے2017ء کے آخر تک تعمیراتی کام شروع کرنے کی ہدایت کی۔ نومبر 2017ء میں ایک بار پھر یہ منصوبہ مشکلات کا شکار ہو گیا۔ منصوبے کو تعمیراتی فہرست سے نکال دیا گیا۔ منصوبہ پاک چین راہداری پیکج میں شامل کیا گیا تھا لیکن چین نے منصوبے میں سرمایہ کاری کے بدلے انتہائی سخت شرائط عاید کر دیں۔ چین نے لاگت کا تخمینہ 14ارب ڈالر بتاتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ضمانت کے طور پر دوسرا کوئی بڑا ڈیم اس کے پاس گروی رکھا جائے۔ جولائی 2018ء میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے حکومت کو بھاشا ڈیم کی تعمیر کا حکم جاری کیا۔ جسٹس ثاقت نثار نے مہمند اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنی جیب سے 10لاکھ روپے دیئے اور تمام پاکستانیوں سے عطیات کی اپیل کی۔ اس فنڈ میں مسلح افواج، سرکاری ملازمین، نجی اداروں اور ان کے ملازمین اور عام افراد نے عطیات جمع کرائے۔ یہ عطیات بارہ ارب روپے کے لگ بھگ ہو چکے ہیں۔ یقینا اس منصوبے کو شروع کرنے کے لیے ساری رقم ایک ساتھ درکار نہیں ہو گی تا ہم ڈیم کے ابتدائی ڈھانچے کے لیے 5ارب ڈالر اور بعد میں پانی ذخیرہ اور چالو کرنے پر 7ارب ڈالر کا خرچ ہو گا۔ پاکستان توانائی کی کمی کا شکار ہے۔ آئی پی پیز نے تیل سے بجلی پیدا کر کے پاکستانی مصنوعات کی لاگت اس قدر بڑھا دی ہے کہ ہماری مصنوعات مسابقت کے قابل نہیں رہ گئیں۔ پن بجلی کے منصوبوں کو مسلسل تاخیر کا شکار کیا جاتا رہا ہے۔ اس سے توانائی مہنگی ہوئی اور ملکی ضروریات پوری کرنے میں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا ہوا۔ دنیا کے جس ملک نے ترقی کی اس نے توانائی کو سستا بنانے پر توجہ دی۔بھاشا ڈیم کسی ایک حکومت اور حکمران کا کریڈٹ نہیں۔ پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک ان کوششوں میں شامل رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس منصوبے میں معاونت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام نے ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے بہت دعائیں کیں اور حسب استطاعت عطیات جمع کرائے، ڈیم تعمیر کرنے کی خبر ان تمام پاکستانیوں کے لیے خوش کن اور امید افزا ہے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل مہمند ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے، وزیر اعظم خطے کی صورت حال، بھاشا ڈیم کے حوالے سے سابق تنازعات اور مالی وسائل کو دیکھتے ہوئے اس امر کی خصوصی نگرانی کا انتظام فرمائیں کہ منصوبہ کسی داخلی یا بین الاقوامی تنازع کا شکار ہو کر مزید تاخیر کا شکار نہ ہو۔ دوسری طرف کالا باغ ڈیم پاکستان کی توانائی اور زرعی ضروریات کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کو سیاست کی دلدل سے نکالنے کے لیے بھی چارہ جوئی کی جانی چاہئے۔