جیسے جیسے وہ وقت قریب آتا جا رہا ہے کہ جب سید الانبیاء ﷺ کی احادیث کے مطابق پوری دنیا ایک بڑی اور آخری جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی، سب سے زیادہ فکر و تردّداور پریشانی ان مسلمانوں کے بارے میں لاحق ہوتی ہے جو یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے براعظموں کے ایسے ممالک میں رہائش پذیر ہیں، جنہیں اسلامی تعلیمات کی کسی بھی توجیہہ کے تحت ’’دارالسلام‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ممالک کو ہمارے مسلمان فقیہہ کھلم کھلا ’’دارالکفر‘‘ بھی کہنے سے ہچکچاتے رہے ہیں، لیکن کسی بھی فقیہہ سے اگر فتویٰ طلب کیا جائے تو وہ ان ممالک کو ’’دارالکفر‘‘ کے زمرے میں ہی گنے گا۔ان تمام ممالک میں مسلمانوں کی ہجرت کسی دینی جذبے کے تحت نہیں، بلکہ خالصتاً مادی وسائل کے حصول اور پرتعیش زندگی کے تعاقب میں ہوئی ہے۔ بعثتِ رسول اللہ ﷺ سے لے کر اب تک کے ان چودہ سو سالوں میں مسلمانوں کا اپنے بام عروج میں بھی،یورپ کے ساتھ فاتح اور مفتوح کاتعلق صرف اور صرف ایک چھوٹے سے خطے سپین تک ہی محدود رہا ، جہاں 30اپریل 711ء کو طارق بن زیاد جبل الطارق(جسے مسلمانوں کی نفرت میں جبرالٹرکہا جاتا ہے) پر لنگرانداز ہواتھا اور بادشاہ روڈرک کی شکست کے بعد وہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی،جسے ازابیلا اور فرڈنیڈ کی مشترکہ افواج نے 1492ء میں ختم کیا۔ تقریباً سات سو برس کی سپین پر حکمرانی کے دوران مسلمانوں نے توسیع سلطنت کے لیئے کبھی یورپ کے ممالک کا رخ نہیں کیا۔ البتہ سپین جسے وہ اندلس کہتے تھے، وہاں تہذیب و تمدن علم و عرفان کا ایسا ورثہ چھوڑا ،کہ جس کی کوکھ سے نکلنے والی ’’تحریک احیائے علوم‘‘ (Renaissance)نے پورے یورپ کو علم ، آرٹ اور فن سے منور کیا۔ یورپ کا ایک اور شہرلیکن بہت ہی اہم مرکز،قسطنطنیہ بھی مسلمانوں نے فتح کیا۔ فتح قسطنطنیہ، سپین میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے سے صرف پچاس سال پہلے 29مئی 1453ء کو سلطان محمد فاتح کے 53 روزہ محاصرے کے بعد ہوئی۔لیکن اس فتح کے اثرات یورپ کے رہنے والوں کے ذہنوں پر بہت نفرت انگیز تھے۔ اس لیئے کہ قسطنطنیہ کی فتح سے عظیم بازنطینی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیاتھا۔ ان دو علاقوں کے سوا مغربی یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے براعظموں کے ساتھ مسلمانوں کا کبھی کوئی ایسا واسطہ نہیں رہا کہ مسلمان حکمرانوں کی تاریخ کو دہرا کر وہاں کے رہنے والوں سے کہا جاسکے کہ جب مسلمان یورپ پر حکومت کیا کرتے تھے تو اس وقت کے ظلم کی داستانیں ہمیں خون رلاتی ہیں۔ البتہ معاملہ اس کے بالکل الٹ رہاہے اور مسلمان اُمت خود کئی صدیاں یورپ کی مفتوح رہی ہے۔ یورپ کے پانچ ممالک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، سپین اور پرتگال کی نوآبادیاتی غاصب افواج نے مسلمانوں کے وسیع تر خطوں پر کئی سو سالوں تک قبضہ جمائے رکھا ۔ مسلمان حکمران یورپ سے ہمیشہ علیحدہ رہے اور اپنے علاقوں میں اور اپنی سلطنتوں میں پُرامن تھے ،کہ پوپ اربن دوم نے مسلمانوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کرکے بیت المقدس کی آزادی کے لیئے یورپ کو جنگ کے لیئے تیار کیا۔ پہلی صلیبی جنگ کی تیاری کیلئے جو مواد تیار ہواوہ فرانسیسی پادری پیٹر کی بیت المقدس کی زیارتوں کے بعد قصے کہانیوں سے ہوا۔اس نے ایسے جھوٹے قصے بیان کئے اورایسی ظلم کی داستانیں گھڑیں کہ جن سے مغرب میں رہنے والے عیسائیوں کا خون کھولتا۔ یہ پراپیگنڈہ اس قدر کارگر ثابت ہوا کہ 1097ء میں شروع ہونے والی پہلی صلیبی جنگ میں تیرہ لاکھ یورپی عیسائی شامل ہوئے تھے اور یہ جنگ 1145ء تک یعنی اڑتالیس سال چلتی رہی تھی۔ اس جنگ کے دوران 15جون 1099ء کو بیت المقدس پر عیسائی قبضہ ہوگیا ۔ اس جنگ کے دوران مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ اگرچہ صلاح الدین ایوبی نے دوسری صلیبی جنگ میں، 12اکتوبر 1187ء کو بیت المقدس واپس لے لیا تھا مگر اس کے باوجود یورپ نے 1268ء تک چھ مزید صلیبی جنگیں لڑیں اور پھربالآخر تھک ہار کر اپنے سرد علاقوں میں سمٹ کر رہ گیا۔لیکن ان جنگوں کے دوران وسیع پیمانے پر ہونے والے پراپیگنڈے نے یورپ کے عوام کے دلوں میںمسلمانوں سے نفرت کا بیج بویا۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کی مسیحی دنیا میں مسلمانوں سے نفرت کسی جنگ، ظلم یا تاریخی جبر کانہیں ہے، بلکہ گذشتہ چودہ سو سال سے مسلسل ہونیوالے ایسے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جس کا آغاز 675ء میں پیدا ہونیوالے عیسائی راہب جان دمشقی (John of Damascus)سے ہوا۔ تاریخ، ادب، ثقافت ، اصنافِ فن، غرض زندگی کے ہر پیشے میں مسلمانوں کا ایک نفرت انگیز روپ دکھایاجاتا ہے اور انہیں یورپ کے باشندوں کے مقابل میں بہت ذلیل و رسوا اور اخلاقیات سے عاری درندوں کے روپ میں پیش کیا جاتارہا ہے۔ یہ تمام پراپیگنڈہ جو یورپ کے پادری اور مؤرخین کئی صدیوں سے کرتے چلے آرہے تھے، اب اسے میڈیا نے سنبھال لیا ہے۔ یہ میڈیا، کتب، رسائل ، ٹی وی ڈاکومنٹریز اور ٹاک شو میں تو براہ راست نفرت پھیلاتا ہی ہے ،لیکن ان سب کے علاوہ انتہائی زہرآلود طریقوں سے فلموں اور ڈراموں کے ذریعے مسلمانوں کا ایک قابل نفرت چہرہ بھی پیش کرتا ہے۔ ان فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے یورپ کا ایک عام بچہ جو وہاں جوان ہوتا ہے، وہ بھی مسلمانوں کو حقارت کی نظرسے دیکھتا ہوا پروان چڑھتا ہے۔ مشہور مصنف جیک شاہین (Jack Shaheen)نے 2003ء میں ایک کتاب تحریر کی جس کا نام تھا ’’برے عربوں کا رقص‘‘(Reel Bad Arabs)۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان تھا ’’کیسے ہالی ووڈ ایک قوم کو بدنام کرتا ہے‘‘ (How Hollywood vilifies a People)۔ اس کتاب کی بنیاد پر 2006ء میں ایک ڈاکومنٹری بھی بنائی جا چکی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے 1896ء سے لے کر 2000ء تک ہالی ووڈ میں بننے والی ایک ہزار ایسی فلموں کا جائزہ لیا ہے جن میں عرب یا مسلمان کردار موجود تھے۔ ان ایک ہزار فلموں میں سے 936 فلمیں ایسی تھیں جن میں مسلمانوں اور عربوں کو منفی کرداروں کے روپ میں پیش کیا گیا، جیسے لٹیروں کے جتھے، غیر مہذب، قاتل، خانہ بدوش وغیرہ جبکہ عرب مسلمان خواتین کو رقاصہ (Belly dancer)، شیاطین کی آلہ کار، جاسوسوں اور حملہ آوروں کی خدمت گار کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ان تمام فلموں میں عربوں کو ایک لالچی اور پیسے کے لیئے کچھ بھی کرنے والی قوم کے طور پر فلمایا گیا۔ ان فلموں میں مسلمانوں خصوصاً عربوں کے کرداروں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔(1)ایک بہت برا عرب کردار، جو ہروقت برائی کے پیچھے لگا رہتا ہے ،اسے ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو دھماکے کرتا ہے، فائرنگ کرتا ہے ، چاقو چلاتا یا ایسے ہی دیگر جرائم میں ملوث ہوتا ہے۔(2)ایک کمزور کردار کا گھٹیا عرب جو نسبتاً جاہل نما بھولا ہے مگر عیش و عشرت اور جنسی بے راہ روی میں ڈوبا ہواہے اور انتہائی فضول خرچی و بے اعتدالی میں خود کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔(3)بدوؤں کے کردار قدیم ہوتے ہیں اور ان پر تہذیب و تمدن کا کوئی اثر نہیں دکھایا جاتا، یہ والا بدو عرب کردار اونٹ اور خیمے کے ساتھ ہی فلم میں نظر آتا ہے۔(4)ایک مغرور عرب کا کردارہوتا ہے جس کا بہت ہی خوفناک چہرہ پیش کیا جاتا ہے، ایک ایسا شخص جو اندرونی طور پر پریشان اور مضطرب ہے لیکن خواتین کو دباتا ہے، ان پر ظلم کرتا ہے،محبت ،عشق اور زندگی کے لطیف جذبات سے عاری ہے۔ 1921ء میں بننے والی فلم ’’دی شیخ ‘‘(The Sheikh)سے لے کر 1995ء تک بننے والی فلم ’’دلہن کا باپ‘‘ (The Father of the Brideتک یہ زہر آلود پراپیگنڈہ ان فلموں میں سکرپٹ کی بھول بھلیوں میں چھپا کر کبھی مزاح اور کبھی سنجیدہ طور پر کیا جاتا رہا ۔(جاری)