سیکولر، لبرل اور جمہوری معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہر ظلم کو کوئی نہ کوئی خوبصورت نام دے کر اس کی سرپرستی اور وکالت کرنے لگتے ہیں۔ فرانس اور یورپ میںبیسویں صدی کے آغاز یعنی،1900ء کے بعد سے قائم ہونے والے سیکولر، لبرل اور جمہوری معاشرے، دو انتہائی خونیں اور نفرت انگیز اجتماعی تعصب کے ادوارسے عبارت ہیں۔ پہلا دور یہودیوں کے خلاف تھا، جسے ’’سامیت کے خلاف‘‘ (Antisemitism)کہا جاتا ہے۔ یوں تو یہودیوں سے نفرت صدیوں سے عیسائی معاشرے کا حصہ رہی ہے ، لیکن یہ نفرت اپنے عروج پر ان جمہوری ادوار میں ہی پہنچی۔ علم و عرفان اور تحقیق کے دروازے کھلے تو یورپی ممالک کی تمام جمہوریتوں اور بادشاہتوں میں نسلی برتری کی ایک تھیوری بہت مقبول ہوئی ، جس کے تحت سفید نسل کو ایک برتر نسل قرار دیا گیا اور یہودیوں کو کمتر۔کہا گیا کہ یہودی اگر عیسائیت قبول بھی کر لیں، تب بھی وہ ’’پسماندہ‘‘ ہی کہلائیں گے۔ 1903ء سے 1906ء تک کے تین سا ل وہ ہولناک عرصہ ہے جب یورپ کی ’’جمہوری اکثریت‘‘ نے ’’یہودی اقلیت‘‘ کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی۔ یہودی اپنے طور پر یہ سمجھ رہے تھے کہ اب چونکہ’’ عیسائی مذہب‘‘ ، ریاست سے علیحدہ ہو گیا ہے اور سیکولرحکومتیںوجود میں آگئیں ہیں، اس لیئے ہم بھی سکون میں آئیں گے، لیکن اس کے برعکس ان کے گھروں اور دکانوں پر اجتماعی حملے شروع ہوئے ،تو انہوں نے دفاع کے لیئے ہتھیار اٹھالیئے، لیکن بیچارے بری طرح کچلے گئے۔ یورپ کے 64 شہروں میںیہودیوں کا بے دردی سے قتل عام ہوا۔ جنگ عظیم کی شکست کے بعد، جرمنی کے الیکشنوں میں ہٹلر کی تاریخی جیت نے ان یہودیوں پر ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے قتل عام کے دروازے کھول دیئے۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ میں رہنے والے یہودیوں میں سے 60 فیصد قتل کر دیئے گئے۔ لاتعداد محقیقین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نفرت دراصل 1930ء کی کساد بازاری کے دوران یہودی تاجروں کے مستحکم ہونے سے پیدا ہوئی تھی۔چونکہ ان کا معیشت پر کنٹرول ہو گیا تھا، اس لیئے ردِ عمل میںان کا قتل عام کیا گیا۔ انہی سیکولر، لبرل اور جمہوری معاشروں کی دوسری نفرت انگیز اور خونیں پہچان ’’اسلامو فوبیا‘‘ (Islamophobia) ہے۔ یہودیوں کی طرح مسلمانوں سے نفرت بھی صدیوں پرانی ہے۔’’ عیسائی یورپی دنیا‘‘، یہودیوں کو حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر چڑھانے کا مجرم سمجھتی ہے اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں کی ’’بیت المقدس‘‘ کی فتح ، آج تک ان کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ طویل اور کئی صدیوں پر محیط صلیبی جنگیں انہی یورپی ممالک نے لڑیں،’’ بیت المقدس‘‘ میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا اور پھر ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ کے ہاتھوں ’’متحدہ مسیحی یورپ‘‘ کی افواج کی ذلت آمیز شکست ایک ایسا زخم ہے جو آج بھی رستا رہتا ہے۔ ’’اسلامو فوبیا‘‘ کے الفاظ سب سے پہلے اسی نومولود سیکولر، لبرل فرانس کے مشہور مصور، الفانسے ڈاینٹ (Alphonse Dinet) کی لکھی گئی رسول اکرم ﷺ کی سوانح عمری میں استعمال ہوئے، جو 1918ء میں شائع ہوئی۔ یہ سوانح عمری جب انگریزی میں ترجمہ ہوئی تو اسلامو فوبیا کی بجائے ’’ضرر رساں اسلام‘‘ (Inimical Islam) کے الفاظ استعمال کیئے گئے۔ اسلامو فوبیا، مسلمانوں سے نفرت، یورپی معاشروں میں مسلمان بحثیت ایک بگاڑ کی علامت، جیسے تصورات سے اس دور کے یورپ کے ناول، افسانے ، فلسفے کی کتابیں، مضامین اور شاعری کے مجموعے بھرے پڑے ہیں۔ فرانس نے 1905ء میں جب سیکولر، لبرل طرزِ حکومت اپنایا تو صرف ایک سال بعد ہی اس کے’’ نو آبادیات کے محکمے‘‘ (Colonial Department) کے سربراہ نے 1906ء میں ایک سرکاری رپورٹ شائع کی، جس کا عنوان تھا ’’Islamic Threat: Myth or Reality‘‘ (اسلامی خطرہ: افسانہ یا حقیقت) ۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں سے یہ نفرت 1917ء میں روس میں آنے والے ’’کیمونسٹ بالشویک انقلاب ‘‘کی وجہ سے دب گئی۔ پوری سرمایہ دارانہ کارپوریٹ دنیا، ’’کیمونزم‘‘ کے خوف سے اسقدر کانپ رہی تھی کہ اس نے اپنی تمام نفرتوں کو بھلا کر صرف اور صرف کیمونزم کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد سے لے کر سویت یونین کے خاتمے تک کے پینتالیس سال ایک خوفناک سرد جنگ کا عرصہ ہیں۔ یہ ویت نام، کیوبا، انگولا، جنوبی امریکہ کے ممالک اور ہند چینی کے علاقے میں قتل و غارت گری کا ایک طویل دورہے۔ یہ دور ختم ہوا تو سیکولر، لبرل اور جمہوری یورپ نے اپنا ایک صدی پرانا ’’اسلامو فوبیا‘‘ کا ہتھیار نکالا اور چند سالوں میں مسلمانوں کو دنیا بھر میںبدنام کرکے رکھ دیا۔ آج یہ ہتھیار خاص طور پر یورپی دنیا کے مسلمانوں کے خلاف انتہائی شدت کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے۔ سیکولر، لبرل اور جمہوری معاشروں کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے ہر ظلم کو محترم اور باعزت بنانے (Glorify) میں کمال رکھتے ہیں۔ جب یہودیوں کے خلاف ’’ہولوکاسٹ‘‘کی قتل و غارت جاری تھی تو یہودیوں کو تہذیب دشمن اور ملک کے غدار ثابت کرنے میں پورا مغربی معاشرہ مصروف تھا۔ یہودیوں سے منسوب ’’پروٹوکولز‘‘ (Protocols) ، جسے صہیونیت کی ’’بانی دستاویز‘‘ کہا جاتا ہے، انہیں 1903ء میں خاص طور پر چھاپا گیااورپھر اسے ویسی ہی نفرت کی کتاب قرار دیا گیا، جیسے آج قرآن پاک کے بارے میں ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔یہودیوں کو یورپ کے سیکولر، لبرل اور جمہوری معاشرے کے لیئے ایک ایسا خطرہ قرار دیا گیا ،جو ایک دن ان کی معیشت، سیاست اور معاشرت پر قبضہ کر لے گا اور پھر اس خوف کو ہتھیار بنا کر ہر شہر میں یہودیوں کا قتلِ عام جائز قرار دیا گیا۔ اسی جدید سیکولر، لبرل اور جمہوری یورپی معاشرے کو جب اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کو باعزت اور محترم بنانا مقصود تھا ، تو پھر اس مقصد کے حصول کیلئے ایسی تمام آوازوں کو دبانا بھی بہت ضروری تھا، جو اسلام کے حق میں بولی جاسکتیں تھیں۔ مشکل یہ تھی کہ یہ بھی دکھانا تھا کہ ہم تو ’’آزادیٔ اظہار‘‘ (Freedom Of Speech) کے قائل ہیں۔یوں نفرت انگیز ماحول بنانے کے لیئے کے خلاف دو نئے تصورات تخلیق کیئے گئے اور عوام میں مقبول بھی کروائے گئے۔ ایک ’’طرزِ زندگی‘‘(Life Style) کی بقا کی جنگ اور دوسرا ’’نفرت انگیز گفتگو‘‘ (Hate Speech) ۔یورپی طرزِ زندگی کو کسی سکھ کی پگڑی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا، عیسائی راہبہ (Nun) کی ’’Hud‘‘(ہڈ) بھی غلط نہیں، لیکن’’ مسلمان کی داڑھی‘‘ اور ’’عورت کا حجاب‘‘ ،ان کی طرزِ زندگی پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔۔اس ظالمانہ تصور کے خلاف اگر کوئی مسلمانوں، اسلام اور اسلامی اقدار کے حق میں آواز بلند کرنا چاہے توان یورپی ملکوں میں ’’ جمہوریت کی اکثریت‘‘ سے قائم ایک ظالمانہ اور آمرانہ ’’جمہوری‘‘ نظام فوراً’’ نفرت انگیزگفتگو‘‘(Hate Speach) کے نام کئے گئے جرم میں اسے قید کرسکتا ہے، اسکی زبان بندی کی جاسکتی ہے، جرمانے اور شدید سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس کے برعکس طرزِ زندگی، ’’Life Style‘‘ کی حفاطت کے لیئے اور اس کی سربلندی کے لیئے اگر کوئی آرٹسٹ، رسول اکرم ﷺ کے گستاخانہ کارٹون بنائے تو سیکولر، لبرل اخلاقیات اور آزادیٔ اظہار کے نام پر اس کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے ممالک کی طرزِ زندگی کو خوف (Threat)کس سے ہے۔ کیا پوری دنیا کے ستاون اسلامی ممالک میں،دنیا میں بسنے والے ایک ارب پچاس کروڑ مسلمان ان کے لیئے خطرہ ہیں۔ ۔ہر گز نہیں۔۔ یہ ستاون اسلامی ممالک تو ایسے ہیںجن کے اکثر ممالک میں خودسیکولر، لبرل اور جمہوری حکمران ہیں، یاپھر چند ایک میں قدیم بادشاہتیںہیں۔ مراکش سے لے کر ملائیشیا تک اکثر جگہ جمہوری طور پر منتخب ’’آئینی‘‘ نظام قائم ہے اور سیاستدان، یورپ کے طرزِ زندگی کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔ ’’اسلامو فوبیا‘‘ تو دراصل ان مسلمانوں کے لیئے ہے، جو یورپ میںآباد ہیں، اورانہیں دن بدن یورپی معاشروں کے لیئے پریشانی اور خطربنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمان گذشتہ بیس سالوں سے ایک ایسا ’’جزیرہ‘‘ بن چکے ہیں جو یورپی معاشرے میں بالکل الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ دنیا کے سب سے معتبر تحقیقی ادارے ’’PEW‘‘نے 2017ء میں ان یورپی مسلمانوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی، جس کا عنوان تھا، ’’Europe's Growing Muslim Population‘‘ (یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی)۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر آج یورپ کے تمام دروازے مسلمانوںکے لیئے بند بھی کر دیئے جائیں تو بھی یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کو مسلسل بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ایسا کیوں ہے ؟ (جاری ہے)