درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی اس سے پہلے کہ ہم محبت اور ضرورت کی بات کریں کہ کچھ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہو محبت تو ٹپک پڑی ہے خود آنکھوں سے۔ اے میرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی۔ ویسے نفرت بھی بہت منہ زور ہوتی ہے۔ بغض و عداوت تو لہجے ہی سے عیاں ہو جاتی ہے۔ اس وقت پورا ملک سابق سپیکر ایاز صادق کی حالیہ گفتگو کے بارے میں انگشت بدنداں ہے کہ اسے کیا کہیے اور ادھر ناطقہ سربگر یباں کہ اسے کیا لکھیے۔ انہوں نے وہ کچھ کہہ دیا کہ باقی کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ بلنڈر اسی کو کہتے ہیں۔ پریشر ککر میں کھانا تو پک جاتاہے مگر اس میں بہت زیادہ احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ سیفٹی والو پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ اڑ بھی جاتی ہے اور ہلتا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر پریشر ککر کو انڈیکشن کے بغیر کھولنا پڑے تو اور زیادہ احتیاط لازم ہے۔ بعض اوقات سارا سالن ہی باہر آن گرتا ہے اور کھولنے والے کے ہاتھ پائوں جل جاتے ہیں۔ پریشر ککر بعض اوقات پھٹ بھی جاتا ہے کچھ ایسی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے پیارے وطن کی سلامتی ہی دائو پر لگا دی جائے۔ یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو ایاز صادق اپنی جماعت ہی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے لیے پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے ہیں۔ ابھی تو لوگ نوازشریف کے بیانیہ پر حیران تھے اور ایک سطح پر سوچ رہے تھے کہ شاید تنگ آمد بجنگ آمد کی مثل آخری کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مصالحت کی کوشش چاہے شہباز شریف کی شکل میں کی مگر ان کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ انہوں نے چپ رہ کر بھی دیکھ لیا تھا۔ مگر ایاز صادق کے بیان سے تو وہ بیانیہ مصدقہ طور پر ملک دشمن ہو گیا۔ ویسے یہ کامن سینس کی بات ہے کہ ابھی نندن کی رہائی ایک گڈ چینجر تھا۔ دنیا کو بتانے کے لیے تھا کہ پاکستان امن پسند ہے اور جارحیت کے جواب میں بھی امن برباد نہیں کرنا چاہتا اور پھر یہ جنیوا معاہدے کے تحت تھا۔ مزید براں یہ کہ اندر کی باتیں سرعام کردیں اور اس پر شاہد خاقان عباسی کا یہ تبصرہ کہ یہ باتیں سکیورٹی میٹنگ میں نہیں ہوتیں بلکہ یہ ایاز صادق اور شاہ محمود قریشی کے درمیان ہوئیں، دل کو نہیں لگتا۔ اب ہمارا ازلی دشمن اپنی ہار کو فتح قرار دے رہا ہے حالانکہ دشمن کے دو جہاز گرائے گئے اور ابھی ندن گرفتار ہوا۔ پاکستان کی دھاک بیٹھی اور اس نے بہادر دشمن کی طرح ان کا گرتی موچھوں والا سورما بھیڑ بنا کر انہیں دے دیا کہ لے جائو اپنی سوغات۔ تب سے پوری قوم اپنی افواج کے اس کارنامے کو سرا رہی تھی اور ابھی نندن کے واپس کرنے پر پوری دنیا نے اسے اچھا فیلہ کہتے ہوئے بارا سافٹ امیج بتایا۔ ایاز صادق اس طرح تو دشمن کو طعنہ دیا جاتا ہے۔ مجھے کیا ہوا تو نے تنگ آ کر چاک کر ڈالا ترا دامن تھا تیری جیب تھی تیرا گریباں تھا سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پی ڈی ایم کیا کر رہی ہے۔ کم از کم انہیں اپنے اندر کی کالی بھیڑوں کو تو پہلے الگ کرلینا چاہیے تھا۔ اویس نورانی کا بلوچستان کو آزاد بلوچستان کہنا پھر محمود اچکزئی کا اردو زبان کو ہی نہ ماننا کہ یہ قومی زبان ہے پوری قوم کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار ہے۔ سردست اردو کے حوالے سے میں بتاتا جائوں کہ اسے قومی زبان بنانا قائد کا حکم اور آئین پاکستان کا حصہ ہے۔ اس انکار کا کیا مطلب؟ ایک بات دلچسپ فواد چودھری نے کی کہ اردو زبان کو نہ ماننے والوں کی تربیب ہی اردو نے نہیں کی۔ وگرنہ وہ قرینہ اور سلیقے سے گفتگو کرنا جانتے۔ اردو کی وکالت کرتے ہوئے فواد چودھری نے داغ کا شعر بھی غلط پڑھا۔ درست یہ ہے: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے فواد چودھری نے ایک اور شعر غلط پڑھا۔ انہیں تیاری کے ساتھ اسمبلی میں آنا چاہیے۔ ان کے لیے درست شعر لکھ رہا ہوں: آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی اچکزئی موصوف نے افغانستان والی باڑ اکھاڑ پھیکنے کی بات کی تو یہ بھی پی ڈی ایم کے کھاتے میں جائے گی۔ اس محب وطن کو جب اقتدار ملا تو سارے خاندان کو اکاموڈیٹ کرلیا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ پیچھے کوئی نہ کوئی ایجنڈا ضرور تھا وگرنہ نوازشریف کو پچھلے تیس پینتیس سالوں میں ڈکٹیشن نظر نہیںآتی۔ بادشاہت حاصل کرنے کی کون سی کوشش انہوں نے نہیں کی۔ خاندان ہی کیا اپنی برادری کو وہ کیسے محکموں میں لے کر آئے۔ چلیے پھر بھی وہ سیاست کریں مگر خود کو ملک دشمن ایجنڈے پر تو نہ لگائیں۔ ویسے رویہ پی ٹی آئی کا ان سے بھی زیادہ برا ہے کہ غدار غدار کی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔ آپ غدار غدار کی گردان کریں گے تو کوئی سچ مچ ویسا ہو جائے گا۔ خان صاحب بھی رگڑے کی بات ہی کرتے ہیں۔ جیلوں میں پھینکنے کی بات اور نہیں چھوڑنے کی باتیں۔ نوازشریف اینڈ پارٹی کا تو اب تک کچھ نہیں بگڑا۔ جہانگیر ترین کو نااہل ہو کر بھی پی ٹی آئی کا اہل ترین شخص تھا جو خان صاحب کے لیے جہاز بھر بھر کر لاتا ہی نہیں تھا پہلے ان کو مناتا بھی تھا۔ اب خان صاحب مطمئن ہیں کہ لڑائی ان کے گلے سے اتر کر کہیں اور پڑ گئی ہے۔ باقی رہی بات عوام کی۔ ان کی طرف سے عوام جائے بھاڑ میں۔