درد اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی لو جی ’’ہم بھی فارغ ہوئے شتابی سے‘‘۔ نہ جانے یہ ستم ظریف اخبار والے ایسی سرخی کیوں جماتے ہیں کہ عاصم باجوہ معاون خصوصی اطلاعات، فردوس عاشق فارغ، فارغ لفظ کے اوپر باقاعدہ تخلص والا نشان بھی ڈال رکھا ہے جیسے کہ فارغ محترمہ کا تخلص ہو۔ ویسے محترمہ نے خان صاحب کے حق میں نثری قصیدے تو بہت کہے ہیں اور بعض دفعہ تو انہوں نے حد ہی کردی۔ یہاں تک کہہ دیا کہ جتنی خوش حالی خان صاحب لے کر آئے پچھلے ستر برسوں میں اس قوم کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے عوام کبھی اتنے سکھی نہیں تھے۔ لگتا ہے اب خان صاحب خوش آمد اور خوش آمدیوں سے تنگ آ گئے ہیں۔ جو بھی ہے پی ٹی آئی والے خوش ہیں کہ اب پیرا شوٹرز سے جان چھڑائی جا رہی ہے اور ممکن ہے کہ اصلی نظریاتی لوگوں کو آگے لایا جائے۔ کچھ لوگ فردوس عاشق اعوان کی سبکدوشی سے اللہ واسطے ہی خوش ہیں اور کچھ میرے جیسے افسردہ بھی کہ اچھی خاصی رونق لگی ہوئی تھی۔ ان میں حس مزاح بھی تھا جس کا مظاہرہ انہوں نے امداد لینے والی خاتون کے ساتھ مکالمہ میں کیا۔ اس خاتون کے آٹھ بچے تھے تو انہوں نے اسے کہا کہ اس کامیاں اس کے علاوہ کیا کرتا ہے۔ ویسے تو یہ حس مزاح کی بات تھی مگر کچھ سنجیدہ اور غصیلے لوگ کہہ رہے کہ محترمہ کی سبکدوشی اسی خاتون کی بددعا سے ہوئی۔ اس سے پیشتر محترمہ ایک خوفناک طنزیہ اور مزاحیہ جملہ کشمالہ طارق کو سکرین پر کہہ چکی ہیں جو لکھا نہیں جا سکتا۔ آپ خود تحقیق کرلیں۔ ایک شرارتی شخص نے اس سبدوشی پر ایک مصرع تبصرہ کے طور پر لکھا ہے جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔ چلیے پورا شعر لکھ دیتا ہوں۔ اب مجھ پہ نزع کا عالم ہے تم اپنی وفائیں واپس لو جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں مجھے منیر نیازی کے گھر کا واقعہ یاد آ گیا۔ منیر نیازی اور میں ان کے کمرے میں بیٹھے تھے تو کسی نے ایک لفافہ دروازے سے اندر پھینکا۔ وہ ڈاکیہ تھا۔ نیازی صاحب کہنے لگے ویکھ کیہ اے۔ میں نے لفافہ ان کودیا۔ اس میں پیڈ کا ایک صفحہ تھا جس پر ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک مصرع تھا اور اوپر لکھا تھا جنرل ضیاء الحق کی شہادت پر مصرع تھا۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ بہرحال تبدیلیاں حکومتوں کے اندر آتی رہتی ہیں کہ وزارتوں کے مقدر بدلتے رہتے ہیں۔ وہ تو مشیر تھیں ویسے وزیروں اور مشیروں کی اتنی بھرمار ہے کہ عدلیہ کو کہنا پڑا کہ اتنی مشاورت کی آخر کیا ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ضرور ہے کہ شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات بنا دیا گیا ہے کہ ان کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ وہ سیدھی بات کرتے ہیں مگر میرے دل نے میری رائے کی مخالفت کی کہ تمہیں احمد فراز کی ’’محاصرہ‘‘ تو بہت پسند ہے اور وہ نظم ایک شاہکار ہے۔ فراز صاحب نے ضیاء کے دور میں جو کچھ لکھا اور پھر ضیاء کے غضب سے انہیں کس نے کیسے بچایا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ لیکن ہم تب چونکے جب پرویز مشرف نے فراز کے گلے میں میڈل ڈالا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب مشرف کی کارستانیوں کے باعث انہوں نے میڈل واپس کرنے کا اعلان کیا۔ تب وہاں اتفاق سے میں بھی موجود تھا۔ ثمینہ راجہ، محبوب ظفر اور دوسرے دوست۔ پھر انہوں نے ایک مرتبہ ایک تلخ جملہ کہہ دیا کہ انہیں پراپرٹی ڈیلنگ پسند ہے اور ان کے بیٹے فوج میں ہیں۔ ان کا سامان سڑک پر دھر دیا گیا۔ جو بھی ہے وقت وقت کی بات ہے اب شبلی فراز کو اپنی صلاحیتیں منوانا ہے اور فراز صاحب کے امیج کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ فراز کی کیا بات ہے کل ہی نہیں میں نے مولانا طارق جمیل کے تناظر میں ان کا ایک شعر دیکھا: یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا باقی رہے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ وہ اعزازی حیثیت سے شبلی صاحب کے ساتھ ہوں گے۔ آپ اس کو اعزاز ہی سمجھیں۔ اگر آپ اقبال کا مندرجہ ذیل شعر کو سمجھتے ہیں تو آپ کی سمجھ میں سارا سیٹ اپ آ جائے گا۔ اچھا دل کے پاس رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ویسے اچھی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا تو کم از کم ان کے اپنے اندر تو یہ عمل جاری ہے۔ کسی کو لگا دیا جاتا ہے او رکسی کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ کبھی اپنے لوگوں کے قلمندان بدل دیئے جاتے ہیں۔ شاید اس پر آپ معترض ہوں کہ یہ لوگ تو پی ٹی آئی کے نہیں تھے۔ بعد میں در آئے اور انہوں نے آٹا چینی پر اپنے ہاتھ صاف کئے اور الٹا پی ٹی آئی کو داغدار کیا۔ چلیے اب تبدیلی کی کوششیں تو جاری ہیں کہ بیروزگاروں اور چھوٹے کاروبار کی مدد کے لیے 75 ارب کا پیکیج دیا گیا ہے۔ کہنے والے تو یہ کہتے تھے کہ کورونا حکومت کو بچا گیا مگر اب تو حکومت لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لاک ڈائون کو سمارٹ کرنا حکومت کا کریڈٹ ہی تو ہے۔ ویسے بھی اس صورت حال سے بچ نکلنا سمارٹ آدمی ہی کا کام ہے۔ چلیے کچھ نہ کچھ ریلیف لوگوں کو ملے گا۔ ویسے اگر کچھ وزیر مشیر بھی کم کرلیے جائیں تو شاید یہ قوم کے لیے ریلیف ہی ہو۔ مگر کیا کریں کہ یہاں صرف تبدیلی کا چلن ہے۔ ہمارے دوست اور کمال کے تخلیق کار افضال بیلا کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال پہلے وزیر اطلاعات کے لیے شبلی فراز کا نام تجویز کیا تھا اور یہ بھی کہا کہ چلو اچھا ہو گیا کہ اب موصوف مزید بالغ نظر ہو گئے ہیں۔ یعنی دیر آید درست آید۔ افضال بیلا بھی کمال ہیں اپنی مصروفیت کے باوجود پی ٹی آئی کے لیے سوشل میڈیا پر مورچہ سنبھالے رکھتے ہیں اور ان سے کوئی بچ کر نہیں جا سکتا۔ تاہم بیلا صاحب نے فردوس عاشق اعوان کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی ہمیں تو ان سے ہمدردی ہے کہ وہ استعفیٰ کے وقت گلوگیر تھیں یا ہمیں ایسے محسوس ہوا اصل میں وہ ہر وقت خوش ہی رہتی ہیں اور اپنے مخالف پر فقرے بازی کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان سے کسی طور کم نہیں ہیں۔ ان کے فقروں میں بھی کاٹ اور تیزی ہوتی ہے وہ یہ کام فواد و فیاض کی طرح غصے میں نہیں بلکہ ہنستے ہوئے کرتی تھیں جس سے نشتر کی سی تیزی ان کی بات میں آ جاتی تھی کبھی کبھی ان کی زبان ضرور لڑکھڑا جاتی تھی اور وہ کچھ کا کچھ کہہ جاتی تھی مگر اس میں بھی لوگوں کے لیے تفریح کا سامان ضرور ہوتا تھا جو بھی ہے ہمیں ان کے فارغ ہونے کا افسوس ضرور ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: کس کس ادا پہ اس کی میں واروں نہ اپنا دل اس پر ہے ختم خامشی اس پر سخن تمام