1993ء میں مجھے کراچی میں سعودی عرب سے آنے والے دو کشمیری نوجوانوں کی میزبانی کا موقع ملا۔ ان کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے تھا اور وہ پہلی بار پاکستان آئے تھے۔ براستہ سعودی عرب آنے والے وہ کشمیری نوجوان کراچی ایئرپورٹ کے ارائیول لاؤنچ سے باہر آئے تو بہت پرجوش تھے۔ ان کی دلی حالت ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ ابتدائی گفتگو میں ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ پاکستان نہیں بلکہ کسی مقدس خانقاہ میں آئے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ سعودی عرب سے چلے بھی وضوء کرکے ہوں۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تو راستے میں ان کی گفتگو تھمتے تھمتے مکمل سکوت طاری ہوگیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے چند جملے کشمیری زبان میں کہے اور پریشانی کے عالم میں ہکا بکا گاڑی سے باہر دیکھتے گئے۔ ہم گرومندر میں واقع قیام گاہ پہنچے تو تب بھی ان کا سناٹا نہ ٹوٹا۔ اگلے دن ہم نے انہیں کراچی شہر گھمایا تو وہ مزید کرب سے دوچار ہوتے گئے۔ رات گئے قیام گاہ لوٹے تو انہیں کریدنا شروع کیا۔ کچھ دیر تو وہ ٹالتے گئے مگر پھر ان میں سے ایک پھٹ پڑا "کیا یہ ہے وہ ملک جس سے وابستگی کے لئے ہم جانیں قربان کر رہے ہیں ؟ ہم نے تو بچپن سے یہی سنا تھا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ یہاں اسلام کہاں ہے ؟ کوئی مسلمان عورت اسلام کے قلعے میں آدھے آستینوں والی قمیض کیسے پہن سکتی ہے ؟ چادر اس کے سینے سے ہٹ کیسے سکتی ہے ؟ پورے مقبوضہ کشمیر میں ایک بھی کشمیری عورت ایسا نہیں کرتی کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر پورا ہی پاکستان کراچی جیسا ہے تو پھر بھارت اور پاکستان میں فرق کیا ہے ؟" ساری گفتگو یہاں شیئر نہیں کی جاسکتی، بس اتنا سمجھ لیجئے کہ انہوں نے پاکستان نامی اسلام کے قلعے کی پوری عمارت میں اپنی گفتگو سے گہری دراڑیں ڈالدی تھیں۔ مزید شرمساری سے بچنے کے لئے اگلے ہی روز انہیں اسلام آباد روانہ کردیا، اور وہاں سے ایک ہفتے بعد وہ براستہ سعودی عرب کشمیر لوٹ گئے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں دینداری کے کچھ ایسے معیار بھی پائے جاتے ہیں جن کی نظر میں آپ کا اور میرا ہی اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں جبکہ ہم پاکستانی خود کو جنید بغدادی سمجھے بیٹھے ہیں اور تبصرے کرتے ہیں ترک اور عرب مسلمانوں کی بے دینی پر۔ نوجوانی میں قرونِ اولیٰ کے کسی بزرگ کا قول پڑھا تھا کہ اگر صحابہ کرامؓ میں سے کوئی زندہ ہوکر قبر سے باہر آجائے تو وہ ہماری دین سے دوری دیکھ کر ہمیں کافر سمجھ لیں گے کہ دینداری کا جو معیار ہم چھوڑ کر گئے تھے وہ تو ان میں پایا ہی نہیں جاتا۔ ہمارے ہی اس عہد میں جب سوویت یونین بکھر گیا تو مفتی جمیل خان شہید، مولانا سعید احمد جلالپوری شہید اور کچھ دیگر حضرات ازبکستان کے دورے پر گئے۔ واپس آئے تو حضرت لدھیانوی شہید کو وہاں کے احوال بتاتے ہوئے آگاہ کیا کہ وہ قوم قرآن مجید کی صرف زیارت کو ہی مری جارہی ہے۔ ہم جہاں بھی گئے جسے بھی پتہ چلتا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں وہ ایک ہی بات پوچھتا "کیا تمہارے پاس قرآن مجید ہے ؟" ان کو دین کا کچھ بھی پتہ نہیں تھا لیکن قرآن مجید کو محض دیکھ لینے کے لئے ہی وہ اسقدر بیتاب تھے جس کی کوئی حد نہ تھی۔ حضرت لدھیانوی کے حکم پر قرآن مجید کے لاکھوں نسخوں کی طباعت کا منصوبہ شروع کیا گیا اور ساتھ ہی ازبک حکومت سے ترسیل کی اجازت مانگی گئی مگر اجازت نہ ملی۔ یوں یہ منصوبہ شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا۔ 1992ء میں جو ازبک نسل کھڑی تھی وہ سوویت دور میں پیدا ہو کر جوان ہوئی تھی۔ اسے دین کی تعلیمات تو کیا قرآن مجید کا نسخہ تک میسر نہ تھا۔ ایسے میں اس قوم کی دینداری کو اپنے معیار پر جانچنا عقلمندی ہوتی ؟۔ اس سے کچھ کم درجے کی پابندیاں اتاترک کے ترکی میں بھی لگیں۔ اسلامی شناختوں کو اس حد تک چن چن کر مٹایا گیا کہ کلام اللہ تک پر پابندی لگی۔ حکم تھا کہ قرآن مجید عربی میں نہیں پڑھا جائے گا۔ یہاں تک کہ ترک رسم الخط بھی عربی سے رومن نسل کا کردیا گیا۔ دین کو لوگوں کا نجی مسئلہ بتانے والی مغربیت نے ترکی کے گھروں میں گھس گھس کر خواتین کے سروں سے سکارف نوچ لئے۔ اس ماحول میں پروان چڑھنے والی نسل پر آپ اپنی دینداری کے زعم میں طنز کرنا چاہیں تو بصد شوق کیجئے مگر یہ جان لیجئے کہ سعودی علماء آپ کی دینداری سے متعلق بھی وہی تصور رکھتے ہیں جو آپ ترک قوم سے متعلق رکھتے ہیں۔ اس تکبر سے نکل آئیے کہ آپ کوئی جنید بغدادی قسم کی مخلوق ہیں۔ 24 میں سے اٹھارہ گھنٹے اپنے بھائیوں کے لئے گڑھے کھودنے والے اور وقف املاک اپنی اولاد کو سونپنے جیسا حرام کام کرنے والے اگر عمامہ باندھتے ہیں اور شلوار ٹخنوں سے اونچی رکھتے ہیں تو اسے دینداری نہیں فریب کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان عماموں کی آڑ میں شرعی احکام کی دھجیاں اڑاتے ہوئے حرام سے بھی باز نہیں آتے۔ دینداری محض لباس کا نام نہیں بلکہ اپنے کرتوت اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے مطابق کرنے کا نام ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم نے چند اسلامی علامات کو کل دین سمجھ رکھا ہے۔ ہم ان علامات کو تو بصد شوق اختیار کر لیتے ہیں لیکن ہمارے دن بھر کے معاملات اسلام کی روح سے بالکل متصادم ہوتے ہیں۔ اور پھر اس تکبر کا بھی شکار رہتے ہیں کہ ہم سے بڑا تو کوئی دیندار ہی نہیں۔