اسی طرح معقولات میںقطب الدین رازی ؒکی قطبی ،قاضی محب اللہ بہاری(1707ء ) کا سلم العلوم، میرسیدشریف جرجانیؒ کی کتابیںمیر قطبی اور صغریٰ کبریٰ جبکہ اثیرالدین ابہریؒ( 1344ء )کی ایساغوجی ،علامہ تفتازانی ہی کی تہذیب اور عبداللہ یزدیؒ(1575 ء )کی شرح تہذیب جیسی کتابیں درس نظامی کے تحت پڑھانے کا معمول تھا۔ درس نظامی کا دوسرا دور1866میںدارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد شروع ہوتاہے۔ دارالعلوم دیوبند میں بھی مولانا نظام الدین سہالویؒکے مذکورہ نصاب درس نظامی کو اپنایاگیاتاہم اس میں کچھ ترمیمات کی گئیں ۔مثلاً تفسیر میں دارالعلوم دیوبند والوں نے دور اول کے درس نظامی کی نہج پرطلباء کو تفسیر جلالین اور تفسیربیضاوی کو پڑھانے کیساتھ ساتھ قرآن کے دس دس پارے ترجمے کیساتھ پڑھانے کااہتمام بھی کیا۔اس پر مستزاد یہ کہ دارالعلوم نے قرآن فہمی میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی مشہور کتاب الفوزالکبیر اورتجویدPronunciation))کے باب میں شیخ عایض قرنیؒ کی لکھی گئی کتاب’’ جمال القرآن ‘‘ بھی نصاب میںشامل کردیں۔ حدیث میںپہلے صرف مشکوٰۃ المصابیح پڑھائی جاتی تھی لیکن دارالعلوم نے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ دہلوی کی تقلید میں اس باب میں مشکوٰۃ کے ساتھ ساتھ محمدبن اسماعیل ؒبخاری 810-870)کی شہرہ آفاق تالیف ’’صحیح بخاری،امام مسلم ؒ 815-87 ء )کاصحیح مسلم ،امام ترمذی ؒ 824-892) ء )کی سنن ترمذی، امام ابی داودؒ 817-889) ء )کی تالیف سنن ابی داوداور امام مالک93-179) ھ )ومحمدؒ کے موطائین کے علاوہ امام طحاوی ؒ 853-933) ء ) کی’’شرح معانی الآثار ‘‘ کوبھی نصاب کاحصہ بنادیا۔ فقہ میں’’ ہدایۃ ‘‘ کوناکافی سمجھ کر دارالعلوم میں اس باب میں امام قدوری ؒ کی مشہور کتاب القدوری، عبداللہ بن احمدبن محمود النسفیؒ (710 ھ ) کی تالیف کنز الدقائق جبکہ علم میراث میں شیخ سراج الدین سجاوندیؒ کی کتاب سراجی پڑھانے کا بھی اہتمام ہونے لگا ۔ اصول فقہ میں نورالانوار ، تلویح توضیح کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا اور ساتھ ساتھ اصول الشاشی اور الحسامی کوبھی نصاب کا حصہ بنادیا۔علم الکلام میں شرح العقائد کو اسی طرح رہنے دیاگیا تاہم ’’شرح عقائد جلالی،شرح مواقف اور رسالہ میرزاہد کو نصاب سے خارج کرکے اس کی جگہ’’ عقیدہ طحاویہ‘‘ کو نصاب میں شامل کیا۔علم نحو کے باب میں دور اول میں پڑھانے جانے والی تمام کتابوں کادرس اسی طرح رہنے دیا گئیںلیکن علم صَرف میں شافیہ ابن حاجب کی جگہ علم الصیغہ داخل کردیا۔اسی طرح ادب میں نفحۃ العرب، معلم الانشاء اور مقامات الحریری جیسی کتابیں داخل کی گئیں جبکہ ریاضی کی ان تمام کتابیں نصاب سے خارج کی گئیں جو درس نظامی میں داخل تھیں ۔تقسیم ہند کے بارہ برس بعدیعنی 1959ء کوپاکستان (ملتان )میں مولانا شمس الحق افغانی ، مولاناخیرمحمد جالندھری، مولانایوسف بنوری اور مولانامفتی محمودجیسے مدبر علماء کی سرپرستی میں وفاق المدارس کے نام سے دینی مدارس کیاایک تعلیمی بورڈ تشکیل دیا گیا۔وفاق المدارس نے بھی دارالعلوم دیوبند میں پڑھائے جانے والے نصاب درس نظامی کو اپنایا تاہم اس میں دور نوکے پیش نظر کچھ ترمیمات کی گئیں۔ مثال کے طور پرقرآنیات میں’’ تبیان فی العلوم القرآن‘‘ ، حدیث میں ’’ریاض الصالحین ،امام ابوحنیفہ ؒ کا’’مسندامام ابوحنیفہ‘‘علامہ کی تالیف ’’آثارالسنن ابن ماجہ ‘‘ اور علامہ ترمذی ؒ کی ’’شمائل ترمذی ‘‘ کا اضافہ کردیا۔اسی طرح علم بلاغت میں ’’ دروس البلاغۃ ‘‘ جبکہ علم فلکیات میںقدیم فلکیات کی بجائے مولانا شبیر احمد کاکاخیل کی تصنیف’’ فہم الفلکیات‘‘ داخل کردی گئی۔ درس نظامی کے دور اول میں عربی ادبیات پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی لیکن دارالعلوم دیوبندنے اس باب میںمولانا اعزاز علی ؒ ( 1902-1955 ء )کی تالیف’’ نفحۃ العرب ‘‘، علامہ ابو محمد قاسم الحریری(متوفی516 ھجری ) کا مقامات، مشہور عرب شاعر متنبی کی دیوان متنبی ، ابوتمام کا حماسہ اور سات جاہلی شعراء کے قصائد پرمشتمل کتاب سبع معلقات کے علاوہ طریقۃ العصریہ اورقراۃ الراشدہ بھی بڑھادیں۔گو کہ درس نظامی کے ان تینوں ادوار میں پڑھانے والی کتابوں کا موضوعاتی جائزہ لینے کے بعد کہا جاسکتاہے کہ درس نظامی (دور اول ) میں معقولات کو پہلے، عربی زبان وگرائمر کودوسرے اورعلوم دینیہ یاعالیہ کو تیسرے درجے کی حیثیت حاصل تھی لیکن وفاق المدارس نے طلباء کو پچاس فیصد سے زیادہ علوم دینیہ ، تیس فیصد عربی زبان وگرائمر اوربیس فیصد سے بھی کم معقولات پڑھانے کو ضروری سمجھا ۔آخر میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جولوگ مدارس کے نصاب (درس نظامی ) کو فرقہ واریت کا ذمہ ٹھہراتے ہیں ،ان کے لئے عرض ہے کہ الحمدللہ اس نصاب کے پہلے ڈھائی سو سالہ تاریخ نصابی ایسی کوئی کتاب نہ توماضی میں شامل تھی اور نہ عصر حاضر میں شامل ہے جو فرقہ واریت پھیلنے کا موجب بنے۔ بلکہ اس نصاب میں ’’شرح تہذیب ‘‘ کے نام سے منطق کی ایک ایسی کتاب ضرور شامل تھی اور اب بھی ہے جس کے مصنف علامہ عبداللہ یزدی ؒ ( 1575 ء ) شیعہ المسلک تھے۔اسی طرح مذکورہ نصاب اگرچہ حنفی المسلک علماء کا تیار کردہ ہے لیکن دیکھاجائے تواس میںشافعی المسلک عالم دین علامہ سعدالدین تفتازانی کی بھی چار کتابیں شامل ہیں۔اسی طرح ادب کی مشہور کتاب ’’ سبع معلقات ‘‘ بھی اس وقت درس نظامی کا حصہ ہے جس کا صرف ایک شاعر مسلمان اور باقی سب غیر مسلم ہیں ۔لطف کی بات تویہ بھی ہے کہ اس نصاب میں متنبی جیسے شاعر کے دیوان سے بھی استفادہ کیاجاتاہے جنہوںنے ا پنے دور میں نبوت تک کا دعویٰ کیاتھا۔جاتے جاتے موصوف وزیر صاحب کے اس دعوے کی وضاحت بھی کرتاچلوں کہ سوویت۔ افغان جہاد کے زمانے میں بیشک امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے جہاد کے موضوع پر لکھی گئی کچھ کتابیںیہاں کے بعض کنٹرولڈاور ہائی جیکڈ مدارس اور اسکولوں میں بھجوائی گئیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام دینی مدارس کا نصاب مغرب سے درآیاتھا بلکہ حقیقت وہی ہے جومستند تاریخ کی روشنی میں اوپر بیان کیاگیاہے۔ وما علینا الاالبلاغ۔