22 ویں راشٹریہ رائفلز کے میجر رام موہن رائے نے ان کے شوہرپر اذیتوں کی انتہاکردی۔ ان کے پوشیدہ اعضاء پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، سر عام گالیاں دی گئیں اور بے عزتی کی گئی، حالانکہ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے تھے‘‘۔ سکیورٹی فورسز والے افضل کو اکثر اٹھا کر اپنے کیمپوں میں لے جایا کرتے تھے، جہاں انہیں ٹارچر کیا جاتا اور بلا وجہ مارا پیٹا جاتا تھا۔ بعد میں یہ کام جموں و کشمیر کے اسپیشل آپریشن گروپ یعنی ایس او جی نے سنبھال لیا۔ ایس او جی والے انہیں پلہالن پٹن اور پھر ہمہامہ بڈگام لے گئے۔ وہاں بھی انہیں اذیتیں دی گئیں۔ وہاں ڈی ایس پی ونئے گپتا اور دیویندر سنگھ نے ان کی رہائی کے بدلے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔تبسم نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنے تمام زیورات فروخت کردیئے ۔ ایس او جی کے کیمپ میں ان کے شوہر کو یخ بستہ پانی میں رکھا جاتا تھا اور ان کی مقعد میں پٹرول ڈال دیا جاتا تھا۔شانتی سنگھ نامی ایک افسر نے تو زیادتی کی انتہا کررکھی تھی۔’’ اس نے میرے شوہر کو انتہائی سردی کی حالت میں ننگا کرکے الٹا لٹکا دیااور کئی گھنٹوں تک الٹا لٹکائے رکھا۔‘‘تبسم نے خط میں سوال کیا تھا ’’کہ آخر سکیورٹی فورسز والے ان کے شوہر کو جاسوس کیوں بنانا چاہتے تھے؟ ‘ افضل تو سکون کے ساتھ اپنے خاندان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی فورسز والوں نے آخر انہیں ایسا کرنے کیوں نہیں دیا؟‘‘ ایک دن دیوندر سنگھ نے ان کے شوہر سے کہا کہ انہیں ایک آخری کام دیا جائیگا اسکے بعد وہ ان کی دسترس سے دور ہونگے۔ ان کو ایک شخص کو کشمیر سے دہلی لے جانے کیلئے کہا گیا۔جب وہ ایس او جی کے کیمپ میںپہنچے تووہاں ان کی ملاقات محمد اور طارق نامی دو افراد سے کرائی گئی۔انہیں ان دونوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ جانتے تھے کہ آخر ان سے یہ کام کیوں لیاجارہا ہے‘‘۔ تبسم کہتی ہیں کہ افضل نے یہ تمام باتیں عدالت کو بھی بتائیں لیکن عدالت نے دو افراد کو لانے کا ان کا اعترافی بیان تو قبول کرلیا تاہم اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ان دونوں سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ نچلی عدالت میں انہیں اپنے دفاع کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ اعلی عدالت نے بھی گواہوں کے ساتھ دوبارہ جرح کرنے اور اسپیشل آپریشن گروپ کو عدالت کے کٹہرے میں بلانے کی ان کی درخواست ٹھکرا دی ۔2013 ء میںافضل گورو کی پھانسی کے بعد گوکہ پارلیمنٹ پر حملے کا ایک باب تو بند ہوگیا لیکن وہ اپنے پیچھے کئی بڑے سوالات چھوڑ گیا۔ عدالت عظمیٰ نے افضل گورو کو پھانسی کی سزا سناتے وقت ’’سماج کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن‘‘ کرنے کا جواز پیش کیا تھا۔300سے زائد صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ پر حملے کے معاملے میں مجرم کو صرف موت کی سزا ہی سماج کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرسکتی ہے۔ اسی طرح فروری 1996ء رمضان کا مہینہ تھا۔ دہلی میں ایک سفارت کار کے یہاں میں ایک افطار پارٹی میں مدعو تھا ۔ وہاں کشمیر کے معروف قانوں دان جلیل اندرابی صاحب سے ملاقات ہوئی۔سیکورٹی فورسز کے خلاف کئی کیسوں کی پیروی کرنے کی وجہ سے و ہ خاصا نام کما چکے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کو کشمیر میں دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ چند روز قبل ان کے گھر پر چند نامعلوم ا فراد ان کواغوا کرنے کی نیت سے آئے تھے۔ اپنے مکان کی بالائی منزل میں چھپ کر انہوں نے ان کی کیمرے سے تصویریں اتاری تھیں ۔ ان کی اہلیہ ان افراد سے بحث کر رہی تھی کہ کالونی کے دیگر افراد اکٹھے ہوئے اور وہ فرار ہوگئے۔ کیمرے کے ساتھ جلیل پہلی فرصت میں فلائٹ لیکر دہلی آپہنچے۔ ان افراد کی شناخت آرمی کے راشٹریہ رائفلز کے راول پورہ کیمپ کے انچارج میجر اوتار سنگھ کے مخبروں کے طور پر ہو گئی تھی۔ دہلی میں انہوں نے وزیر داخلہ ایس بی چوان ، نائب وزیرداخلہ راجیش پائلٹ، امریکی سفیر فرینک وائزنر اور دیگر راہنماوں سے ملاقاتیں کی اور ان کو بتایا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے اور ان کی جان کی حفاظت کی جائے ۔ یا د آتا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی یہ تصویریں دکھائی تھیں۔جلیل اندرابی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا ان کا سری نگر واپس لوٹنا مناسب رہے گا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ چونکہ انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرہ کے بارے میں حکومت وقت کے اعلی ترین ارباب حل وعقد کو آگاہ کردیا ہے اس لئے اگر ایسے لوگوں کا سرکار سے کسی بھی طرح کا تعلق ہوگا تو وہ آپ کو نقصان پہنچانے کی اب شاید جرا ت نہیں کریںگے ۔ اس محفل میں موجود دیگر افراد کی بھی یہی رائے تھی۔ چونکہ عید کے دن قریب تھے اسلئے وہ میرے مشورے اور سیاسی لیڈروں اور رہنماو ں کی یقین دہانیوں سے کسی طرح مطمئن ہوکر باد ل ناخواستہ سری نگر لوٹ گئے۔لیکن ہمارا مشورہ اور ہماری امیدیں غلط ثابت ہوئیں۔عید کے روز 8مارچ 1996ء کو جب جلیل اندرابی اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنی کار میں گھر لوٹ رہے تھے کہ میجر اوتار سنگھ کی سربراہی میں مسلح سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں روکا اور کار سے اتار کر اپنی گاڑی میں لے گئے۔ اسی شام کو تھانے میں اغوا کا ایک کیس درج کرایا گیا۔اس دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی لیکن آرمی اور بی ایس ایف نے جلیل اندرابی کی حراست کی تردید کی۔ جلیل اندرابی کے اغوا کے 19روز بعد 27مارچ کو جہلم میں ان کی لاش بہتی ہو ئی ملی۔ ان کے سر پر گولیاںماری گئی تھیں اور ان کا بدن زخموں سے چھلنی تھا۔ان کی لاش ملتے ہی حکومت نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی جس نے معمول کی کارروائیوں اور تفتیش کے بعد بالآخر10 اپریل1997ء کو عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں میجر اوتار سنگھ کا نام لیا گیا تھا۔عدالت نے مرکزی حکومت کو میجر اوتار سنگھ کا پاسپورٹ ضبط کرنے اور نیا پاسپورٹ فراہم کرنے سے روکنے کا حکم دیا۔ اس نے میجر کی سروس فائلیں بھی چار ہفتے کے اندر پیش کرنے کی ہدایت دی۔ چونکہ کیس ایک معروف قانون دان کا تھا، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے میجر اوتار سنگھ کی گرفتاری کے احکامات صادر کردیئے۔ مگر اوتار سنگھ روپوش ہوچکا تھا۔ 2012ء میں 47 سالہ میجر نے امریکی شہر کیلفورنیامیںاپنی بیوی اوردو بچوں کو قتل کرنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔میجر نے مقامی پولیس کو فون کرکے پہلے اپنے کنبے کو ہلاک کرنے کے بدترین جرم کی اطلاع دی جس کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیا۔پولیس کے مطابق اوتار سنگھ کی بیوی اور تین سالہ بچے کی لاشیں ان کے بیڈروم میں ملیں ۔اس کے دوسرے بیٹے‘ جس کی عمر پندرہ سال بتائی گئی ہے کی لاش دوسرے کمرے میں پائی گئی ‘ خود اوتار سنگھ کی لاش بھی ایک کمرے میں ملی ۔اس کے علاوہ پولیس نے اوتار سنگھ کے ایک اور بیٹے‘ جس کی عمر سترہ سال بتائی گئی ہے کو انتہائی زخمی حالت میں مکان سے برآمد کیا ۔یہ انصاف کا گلا گھونٹ دینے کا ہی انجام تھا کہ میجر اوتار سنگھ کے بیوی اور بچے بھی ان کے خونی کھیل کا شکار ہونے سے بچ نہیں سکے۔ان کے سیاہ کارناموں کی فہرست اتنی طویل تھی کہ شائد ہی دنیا کی کوئی عدالت انہیں اْن کے گناہوں کے برابر اور قرار واقعی سزا دیتی۔ اوتار سنگھ نے 90 ء کی دہائی میں کشمیر میں اپنی تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر متعدد بے گناہوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ حکومت میجر کی ظالمانہ حرکتوں اور بھیانک جرائم سے پوری طرح واقف تھی، مگر اس کے باوجود نہ صرف انہیں ملک سے بھاگنے میں سرکاری طور پر مدد فراہم کی گئی بلکہ امریکہ میں اپنا بزنس قائم کرنے اور قانون کے شکنجے سے دور رکھنے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ یہ قتل ایسے لوگوں نے کیا تھاجو کشمیر میں حکومت کی نمائندگی کرتے تھے ‘ جو خود کو قانون سے بالا ترسمجھتے تھے ‘ جنہیں غیر قانونی حرکتوں پر کسی طرح کی شرمندگی یا پشیمانی نہیں تھی اور جنہیں قانون و انصاف کا کوئی خوف نہیں تھا۔۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ چاہے دیوندر سنگھ ہو یا اوتار سنگھ: لاکھ بیٹھے کوئی چھپ کے کمین گاہوں میں ، خون خود بتاتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ۔(ختم شد)