وہ زمانے کے سردو گرم دیکھ رکھنے والے ایک سینئر ریٹائرڈبیوروکریٹ ہیں اپنے طویل کیرئیر میں انہوں نے دنیا کے بڑے رنگ دیکھ رکھے ہیں اب اسلام آباد میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں کہتے ہیں وہ اقتدار ڈرامہ پوری قسطوں کے ساتھ دیکھ چکے ہیں اسکرپٹ وہی ہے بس اداکار مختلف ہیںمیری ان سے اسلام آباد کے غیبت پارک میں ملاقات ہوئی تھی ایف نائن پارک کو میں ’’غیبت پارک ‘‘ ہی کہتا ہوں جتنی غیبت یہاں ہوتی ہے پاکستان میں شائد ہی کہیں ہوتی ہو وہ مجھے ایک بنچ پر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے ملے میں انہیں جانتا تھا ان کے پاس پہنچا ادب سے سلام کیا اور اپنا تعارف کرایاانہوں نے مسکراتے ہوئے بنچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگے’’اچھا تو آپ صحافی ہیں اور لکھاری بھی ہیں ‘‘ مجھے ان کے لہجے میں طنز کی ہلکی سی کاٹ محسوس ہوئی میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جی غلطی سے یہ دونوں کام کررہا ہوں‘‘ وہ ہنس دیئے اور کہنے لگے یہاں سارے کام غلطی سے ہی ہوتے ہیں ‘‘ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی جس میں انہوں نے شفقت سے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور میں چند روز بعد ان کے اسٹڈی روم میں ڈھیروں کتابوں کے درمیان ان کے ساتھ بیٹھا تھا،کمرے میں پھیلا دھواں اور ایش ٹرے میں مڑے تڑے سگریٹ کے باقیات بتا رہے تھے کہ وہ عادی سگریٹ نوش ہیں انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا میں آس پاس بکھری کتابوں کو دلچسپی سے دیکھتا ہوا بیٹھ گیا کتابیں گواہی دے رہی تھیں کہ وہ علم دوست اور کتابوں کی قربت میں رہنے والے انسان ہیں ۔ ’’میرے پاس چار ہزار سے زائد کتابیں ہیں ‘‘انہوں نے میرا اشتیاق دیکھتے ہوئے بتایا اور پھر ان کی اس لائبریری میں گفتگو کا جو آغاز ہوا تو بغیر رکے دیر تک چلتا رہا،میں نے ان سے موجودہ سیاسی صورتحال پر رائے لینی چاہی تو وہ اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے نیا تو کچھ نہیں ہورہا اہل سیاست کا ہدف اقتدارہی ہوتا ہے ،یہ ان کا بزنس بھی ہوتا ہے اور نشہ بھی ،جیسے نشہ کی طلب ایک نشئی کو بے چین رکھتی ہے ویسے ہی سیاستدان بھی بے چین رہتے ہیں بن پانی کے مچھلی کی طرح ترپتے رہتے ہیں جس جس کو اقتدار کے تالاب میں ڈال دیا جاتا ہے اسے قرار آتاجاتا ہے پاکستان میں بدقسمتی سے یہ کھیل اسکے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا قائد اعظم کے پھیپھڑے ٹی بی کھا چکی تھی اور بعد میں آدھا پاکستان یہ کھیل کھا گیا۔قائد اعظم دو تین برس اور جی رہتے تو آج ہم دنیا کے فیصلہ ساز ممالک میں ہوتے اقوام متحدہ میں ہم ویٹو پاور رکھتے اب بھی اگر آپ دیکھو تو دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے پاس ہے،ہمارے پاس 1046کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے جس پر دو شاندار بندرگاہیں ہیں جو پورے سال فنکنشل رہتی ہیں ہمارے پاس دریا ہیں ،اکیس کروڑ کی آباد ی میں نوجوانوںکی تعداد 64فیصد ہے جرمنی کی آبادی 81ملین ہے اور اس میں نوجوانوں کی تعداد صرف ساڑھے سولہ فیصد ہے،ہمارے ستر لاکھ پاکستانی دنیا کے دوسرے ملکوں میں ان کے سسٹم میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ چھوٹی بات نہیں ہے پھر ہم ایٹمی طاقت ہیں،ہمارے پاس بڑی تربیت یافتہ فوج ہے ،ہمارے پاس کیا نہیں ہے بس ہمیں قوم بننے کی ضرورت ہے‘‘۔ ’’کیا ہم قوم نہیں ْ‘‘ میرے لہجے میں قدرے حیرت تھی’’نہیں ہم قوم تھے لیکن اب لوگوں کی بھیڑہیں ‘‘انہوں نے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا فوج کا ذکر ہوا تو کہنے لگے کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہورئت1958ء میں ڈی ریل ہوئی جب پہلا مارشل لاء لگا لیکن حقیقیت میںیہ اس روز پٹری سے اتر گئی تھی جب دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا گیا تھا پھرچوبیس اکتوبر1954ء کو دستور ساز اسمبلی بھی توڑ دی گئی اور پاکستان کو اپنے آئین سے محروم کردیا گیا،اس عشرے پر نظر ڈالیں تو لگے گا کہ وزیر اعظم کی کرسی میوزیکل چیئر بن چکی ہے،وزیر اعظم بدلنا جیسے فیشن ہو گیا ہو یہاں تک کہ جواہر لعل نہرو کو کہنا پڑا کہ میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم تبدیل ہوتے ہیںتلخ سچ یہی ہے کہ ریاست کے تینوں ستونوں نے پاکستان میں دھیما چوکڑی مچا کر رکھی ایسے میں ملک کیا خاک مضبوط ہوتااور ادارے کیا خاک چلتے ،جب آئین ہی نہیں رہا توجسکے ہاتھ میں لاٹھی آئی بھینس بھی اسی کی ہوئی ،قیادت کی کمزوری سے اداروں کی غلط پرورش ہوئی اور اب ہم بھگت رہے ہیں انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میںتوسیع کے حوالے سے عجیب بات کہی کہنے لگے بھئی جب بات جمہورئت کی کرتے ہو تو اسے ماننا بھی ہوگا دودھ دینے والی گائے کی لاتیں سب کھاتے ہیں ،جمہورئت میں اکثرئت کی چلتی ہے اسمبلی کی اکثرئت نے فیصلہ کیا ہے کہ آرمی چیف 64برس میں ریٹائرڈ ہوگا تو ہوگا،اسے وزیر اعظم ایکسٹنشن دے سکتا ہے تو دے سکتا ہے اسے ماننے کے سوا کیا چارہ ہے اسے تسلیم کریں اور جمہورئت کی لات برداشت کریںیہ تلخ سچائی ہے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں ایک سرحد پر چوکس رہنا ہوتاتھا اب تینوں سرحدوں پر چوکنا ہونا ہوگاکابل کو دہلی نے واشنگٹن کی آشیرباد سے اپنا صوبہ بنا لیا ہے ،ایران کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ بھارت کے ساتھ مضبوط اور پرانے ہیں یہ تو ابھی کی بات ہے ناں کلبھوشن یادیو اسی کے سرحدی علاقے چاہ بہار سے سب کچھ کرتا تھامیں آپکو بتاؤں کہ نوے کی دہائی میںاو آئی سی کے اجلاس میں ایران نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاس ہونے والی قرارداد بھارت کے کہنے پررکوائی تھی اب ایرانی جنرل قاسم کی ہلاکت کے بعدوہاں ایمرجنسی کی سی کیفیت ہے اور اسکا لامحالہ اثر یہاں بھی پڑے گا ان حالات میں ایسی فوج کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لینا چاہئے تھاجو ستر برسوں سے درست یا غلط طریقے سے قومی فیصلوں میں دخیل رہی ہے ۔وہ عدلیہ کے بڑے سخت مخالف معلوم ہوئے جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے انہوں نے جو عدلیہ کو سنانا شروع کیں تو تین سگریٹوں کے اختتام تک سناتے چلے گئے ۔ حاصل کلام یہی کی دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے چوما اور رکھ دیا۔