گزشتہ روز سرائیکی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے ہیڈ محمد والا ملتان کے مقام پر دریائے چناب کو پھولوں کانذرانہ پیش کرنے کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی ، تقریب کا مقصد آبی آلودگی کے خلاف آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ یکم اپریل کا انتخاب کا اس بناء پر کیاگیا کہ یورپ اپریل فول مناتا ہے جبکہ ہم اس کے برعکس اس کو’’ اپریل پھول ‘‘کا نام دیتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ وسیب دریائوں کی سرزمین ہے اور اسے تاریخی کتب میں سپت سندھو کہا گیا کہ سات دریا وسیب میں ایک دوسرے سے آکر ملتے ،سرسوتی اور ہاکڑہ سوکھ گئے اور سندھ طاس سے معاہدے کے تحت تین دریائوں کا پانی بھارت کو دیدیا گیا مگر بقیہ دریا اب بھی سرائیکی وسیب کے علاقے کوٹ مٹھن کے مقام پر آکر ایک ہو جاتے ہیں ۔ مگر یہ افسوسناک واقعہ ہے کہ وسیب دریائوں کی سرزمین ہونے کے باوجود پانی کی کمی کا شکار ہے ، وسیب کو قابل کاشت تو کیا زیر کاشت رقبے کے لیے بھی پانی میسر نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پورے وسیب سے پانی پانی کی آوازیں آ رہی ہیں ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان سرائیکی وسیب کو ہوا ۔ اسی بناء پر وسیب کے لیے پانی بہت حساس مسئلہ ہے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دریائوں کو پھول پیش کرنے کی رسم صدیوں پرانی ہے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے باسی ہر سال 23 مارچ کو دریائے سندھ میں پھول ڈالتے ہیں اس مرتبہ بھی وہاں بہت بڑی تقریب منعقد ہوئی ۔ملتان میں ہونے والی تقریب میں سرائیکی رہنما ملک اللہ نواز وینس، رانا محمد فراز نون ،انجینئر شاہ نواز خان مشوری، اسلم خان گورمانی اور شریف خان لاشاری سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی ۔خواتین کی کثیر تعداد بھی اس موقع پر موجود تھی۔میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے میں نے کہاکہ جس طرح صاف پانی انسانی جسم کی ضرورت ہے اسی طرح ہماری زمینوں کو بھی صاف پانی درکار ہے ۔ آبی آلودگی سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں ، پانی کا صرف رنگ ہی نہیں ذائقہ بھی خراب اور بدبو دار ہو رہا ہے ۔ وسیب کے بہت سے علاقوں میں پینے کے لئے نہری پانی استعمال ہوتا ہے۔مگر دریائوں میں کچرا ڈال کر اُن کو آلودہ بنا دیا گیا ہے اس لئے آبی آلودگی کیخلاف ہر جگہ آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ دریائے چناب کا تعارف کراتے ہوئے میں نے بتایا کہ چناب کا مطلب ہے ’’چن آب‘‘ یعنی چاند جیسا شفاف پانی ،مگر افسوس ہوتا ہے کہ یہ پانی شفاف نہیں رہا۔ یہ دریا کوہ ہمالیہ سے نکلتا ہے اس مقام پر اس کو چندر بھاگا بھی کہتے ہیں ، پاکستان پہنچنے کے بعد یہ بڑا دریا بن جاتا ہے ، تریموں جھنگ کے مقام پر دریائے جہلم اس سے آ ملتا ہے اب تو راوی خشک ہو گیا ورنہ تریمو سے تھوڑا آگے راوی بھی اس سے مل جاتا ہے ۔’’مرحوم ‘‘دریائے ستلج اور بیاس بھی کسی وقت اس کے ساتھ مل کر دریائے سندھ میں شامل ہوتے تھے ۔ چناب کی لمبائی تقریباً 1500کلو میٹر ہے ،مرالہ اور خانکی کے مقامات پر آبپاشی کے دو ہیڈ بنائے گئے جہاں سے دو بڑی نہریں لوئر چناب اور اپر چناب نکالی گئیں اور اس سے لاکھوں ایکڑ رقبہ سیراب ہوا۔ہیڈ سدھنائی سے سیدھا یہ ملتان کی طرف آتا ہے سدھنائی کا سرائیکی میں مطلب ہے ’’سیدھا دریا‘‘ اس دریا کے ساتھ صرف سوہنی ماہیوال کی رومانوی داستان منصوب نہیں بلکہ سینکڑوں داستانیں اس سے وابستہ ہیں ۔ وسیب میں اسے ’’چنانہہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس نام کے حوالے سے بہت سے شعری و افسانوی مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔ دریائے چناب کو پھول پیش کرنے کے موقع پر دانشوروں کی اچھی گفتگو سننے کو ملی ،دانشوروں نے کہا کہ دریا فطرت کا اہم جز ہیں جیسا کہ ہوا، روشنی نا قابل فروخت ہے اسی طرح دریا بھی نہیں بیچے جا سکتے ، دریائوں کے فروخت کرنے کا سب سے زیادہ زیادہ نقصان وسیب کو ہوا ،خصوصاً بہاولنگر ، بہاول پور ، رحیم یار خان ، لودھراں اور ضلع وہاڑی کو ہوا ۔ ستلج دریا خشک ہونے سے پانی کا لیول جو تیس فٹ پر تھا ، سے کم ہو کر ستر اَسی اور بعض جگہوں پر سو فٹ سے بھی زائد نیچے چلا گیا ۔ زمینداروں کو دو دو اور تین تین مرتبہ ٹیوب ویل کے نئے بور کرانے پڑے مگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ کنویں اور نلکے بھی جواب دے گئے ، بہاولنگر کے بہت سے علاقوں میں پینے کا پانی تک ختم ہو گیا ۔لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں ، ان مجبوروں کے لئے پانی نہایت ضروری ہے۔ تقریب میں دریائے چناب کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور بتایا گیا کہ سندھ کا مطلب پانی اور دریا ہے اور دریائے سندھ کو صرف سرائیکی علاقے میں سندھ کہا جاتا ہے اور صوبہ سندھ میں اسے مہران کا نام دیتے ہیں ، سرائیکی خطہ تاریخی طور پر سپت سندھو یعنی دریائوں کا مالک ہے ۔ وادی مہران کا مرکز بھی سرائیکی وسیب ہے ، حملہ آوروں نے وسیب کا سب کچھ لوٹنے کے بعد ان کے وطن کو بھی مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا مگر تاریخی طور پر حقیقت یہی ہے کہ موجودہ پاکستان کی قدیم اور اصل زبان و ثقافت سرائیکی ہی ہے اور سرائیکی ہی پاکستان کی مرکزی تہذیب ہے ۔ حکمران تاریخی حقائق کا ادراک کریں اور پاکستان کی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ اگر گنگا جمنا کی تہذیب کو ہی پروان چڑھانا تھا تو پھر ہندوستان سے الگ ملک کیوں حاصل کیا گیا؟ میری بات کڑوی ضرور ہے مگر قوم جب بھی میری بات کو سنجیدگی سے سنے گی تو اسے تریاق پائے گی ۔ تقریب میں بتایا گیا کہ انڈیا پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہاہے ، تین دریائوں کا پانی چھیننے کے بعد وہ چناب کے پانی کو بھی روک رہاہے اور غیر قانونی طور پر ڈیم بنا رہے ہیں ، اسی طرح افغانستان کے معرفت دریائے سندھ پر بھی ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ،اگرحکمران خاموش رہے تو پاکستا ن کے لوگ پیاس سے مر جائیں گے ۔ پانی کے مسائل کے بارے میں قیام پاکستان کے وقت بھی نہ سوچا گیا اور 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ کرتے وقت دوراندیشی سے کام نہ لیا گیا جس کا خمیازہ پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے ۔ حکمرانوں نے پاکستان کا بہت نقصان کیا اب موجودہ حکمران جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر وسیب کو پیاسا مارنا چاہتے ہیں کہ پانی کے مراکز ترموں جھنگ اور کالا باغ میانوالی کو صوبہ سکیم سے پہلے ہی نکال دیا ہے جوکہ وسیب کے لوگ یہ سکیم کسی صورت قبول نہیں کریں گے کہ پانی زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔تقریب کے موقع پر اس بات کا احساس ہوا کہ ایسی کارآمد تقریبات پورے ملک میں ہونی چاہئیں ۔