ہر سیاسی خطرے سے آزاد عمران حکومت کے لیے دو انتظامی خطرات سامنے آئے ہیں۔ پہلا خطرہ حکومت مخالف مذہبی شخصیات کا فرقہ وارانہ سطح پر سرگرم ہونا اور دوسرا آٹا‘ گندم‘ ادویات اور اشیائے ضروریہ کے نرخ جن پر حکومتی کنٹرول مکمل طور پر ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ آمدن بڑھنے کی بجائے سکڑنے لگے تو چیزوں کا مہنگا ہونا معاشی نفسیات توڑ ڈالتا ہے ۔ گھر کا کفیل ان حالات میں انتہا پسند بننے لگتا ہے ۔فرد دوسرے فرد سے اور گھر کی دیوار دوسرے مکان سے جڑی ہے اس لئے یہ پریشانی پورے معاشرے کو گھیر لیتی ہے ۔ ایک دوست نے توجہ دلائی تومیں نے ایک سروے کیا۔ ساشے‘ چھوٹی پیکنگ، ڈبیوں اور بوتلوں میں بند اشیاء کے متعلق حیرت انگیز بات سامنے آئی۔ دکانداروں نے بتایا کہ پچھلے ایک سال کے دوران صابن‘ چائے‘ شیمپو جیسی مصنوعات کی پہلے کئی بار قیمتیں بڑھیں پھر کمپنیوں نے وزن کم کرنا شروع کردیا۔ 100 گرام کی جگہ 90 گرام‘ 250 ملی لٹر کی جگہ 230 ملی لٹر اور 25 گرام کی جگہ 20 گرام کا مال بیچا جا رہا ہے۔ اتنے سارے ادارے ہیں‘ سرکاری اہلکار ہیں جو اوزان و پیمائش پر نظر رکھتے ہیں۔ معیار کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کمپنیا ںمنافع دوگنا‘ سہ گنا کر رہی ہیں۔ چند روز ہوئے‘ وزیراعظم نے وفاقی وزارت فوڈ سکیورٹی کو ہدایت کی ہے کہ زرعی پیداوار کا درست ڈیٹا اکٹھا کیا جائے۔ کون سی پیداوار کتنی استعمال ہوتی ہے‘ کتنی ضائع ہو جاتی ہے اور کتنی برآمد کی جاتی ہے۔ وزیراعظم کا خیال ہے کہ اس طرح کا ڈیٹا جمع کرنے سے سرکار کے پاس ڈیمانڈ اور سپلائی کے ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار آ جائیں گے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پارچہ جات کی پیمائش کے لیے ملک میں ابھی تک گز اور میٹر دونوں کا استعمال ہورہا ہے‘ یہ بات قابل توجہ ہے کہ عشروں پہلے سیر کا نظام ختم کر کے کلوگرام کا باٹ رائج کردیا گیا تھا۔ لٹر اورپائونڈ کا نظام بھی موازی طور پر جاری ہے۔ تیل کی قیمتوں پر کنٹرل ایک لطیفہ بنا۔ سب سے بڑا سکینڈل گندم اور آٹا کی قیمتیں ہیں۔ رواں سال گندم کی فصل تیار ہوئی تو حکومت نے کسان کی مدد کے نام پر گندم کی فی من قیمت 1350 روپے مقرر کی۔ یہ گندم ابھی کاشت کاروں کے پاس تھی کہ نرخ بے قابو ہونے لگے۔,1400 1600‘ 1800‘ 2000 اور اب گیہوں 2200 روپے فی من سے زائد پر مل رہے ہیں۔ سرکاری افسران نے بتایا کہ اس سال بارشوں نے فصل خراب کر دی ہے۔ پیداوار کم ہوئی ہے‘ اس لیے طلب پوری کرنا مشکل ہورہا ہے۔ حکومت نے گندم کی نقل و حمل پر پابندی عائد کردی۔ پابندیوں کا ہمارے سماج نے ہمیشہ الٹ مطلب لیا۔ لوگ ہر وہ چیز زیادہ خریدنے لگتے ہیں جس پر پابندی ہو۔گندم کے 7 کارگو جہاز آ چکے ہیں‘ مزید 1.5 لاکھ میٹرک ٹن آ رہی ہے۔ یہ درآمدی گندم جانے کیسے مارکیٹ میں لائی گئی ہے کہ قیمتیں کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ان حالات میں پانی کے ساتھ سوکھی روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ سیاست پر تبصرہ کرنا اب عامی کا کام رہ گیا ہے، پالیسی، سماجی میلانات اور عالمی تبدیلیوں پر بات کرنا اصل منصب ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ گزشتہ تین پارلیمنٹ ایسی آئیں جہاں ہنگامہ آرائی کو سیاست کا نام دیا گیا، جو زیادہ فتنہ گر ہے وہ اتنا بڑا سیاستدان۔ ریاستی اداروں، انتظامی اداروں، عوامی مسائل اور محدود وسائل کو لے کر معاملات سلجھانے کا ہنر کسی کے پاس نہیں۔ مہنگائی زرداری دور میں قابو میں آئی نہ نواز حکومت میں۔ اب بھی یہ بپھری ہوئی ہے۔ پاکستانی خوش بخت ہیں۔ خود غریب سہی لیکن ان کے نمائندے ہمیشہ دولت مند ہوتے ہیں‘ کیا یہ اب راز ہے کہ آصف علی زرداری کے لیے منی لانڈرنگ کا نظام کس طرح تیار کیا گیا۔ پیچیدہ طریقہ کار‘ کئی بے خبر اس کا حصہ‘ جن کو معلوم نہیں پڑتا کہ ان کے نام سے کوئی بینک اکائونٹ ہے اور وہاں اربوں روپے پڑے ہیں۔ ایسا ہی نظام شریف خاندان نے تیار کیا۔ دولت جمع کرنے میں اس قدر دیوانگی کہ گھر کی عورتوں کو بھی جرم میں خود ملوث کرلیا۔ ایسے دھندے میں ہن برستا ہے۔ روپیہ سنبھالنے کو جگہ نہیں رہتی۔ ڈرائیور‘ چپڑاسی‘ منیجر اور گارڈ کے نام پرروپیہ چھپایا جاتا ہے۔ خادم اعلیٰ ہونے کا دعویٰ تھا‘ مخلوق مجرم اعلیٰ کہہ رہی ہے۔اربوں روپے کا کالا دھن اکٹھا کیا لیکن اب تک ایک دھیلہ کرپشن نہ کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔عدالت سے ضمانت کی درخوست خود واپس لی جس پر گرفتاری لازم تھی، نیب نے یہ ذمہ داری پوری کی تو اسے سیاسی گرفتاری قرار دیدیا ۔گرفتار نہیں ہونا تھا تو ضمانت کی درخواست کیوں واپس لی ۔ استاد محترم اطہر ندیم مرحوم کہا کرتے تھے کہ صارفین اس ملک کے بدقسمت شہری ہیں جو لوگ ان کا دھیان رکھنے پر مامور ہیں‘ انہیں اپنا منافع بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اگر وہ مہنگائی کے ستائے شہریوں کا دھیان رکھیں تو اس کا انہیں کیا فائدہ؟ حالیہ برس ادویات کی قیمتوں میں تین بار اضافہ ہوچکا ہے۔ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جو ادویات تیار کرتی ہیں ان کے نرخ بھارت میں کم اور پاکستان میں زیادہ کیوں ہوتے ہیں۔ ہم لوگوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈال لیں‘ فطرت کو تسخیر کرلیا مگر انسانی معاشرے کے بنیادی رشتے آج بھی وہی ہیں جو جنگل میں حیوانی معاشرے کے ہیں۔ چرندے کو آخر کار درندے کی خوراک بننا ہوتا ہے‘ درندہ چرندے کو لقمہ بنائے بنا زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہی دونوں کی تقدیر ہے۔ دونوں کے درمیان ووٹر، امیدوار‘ دوستی‘ پیار‘ محبت سب اس وقت تک ہے جب تک درندے کے پیٹ میں بھوک نہیں کلبلاتی‘ جونہی بھوک کے عفریت نے سر اٹھایا باہمی دوستی‘ سیاسی بھائی چارہ اور محبت اس میں جل کر بھسم ہو گئے اور درندے نے ’’دوست‘‘ کو دبوچ لیا۔