شبیر سومرو

2018 ء کے آخری دو ماہ میںخون ریزی کے 71 واقعات ہوئے 

شکارپور ماضی میںسندھ کا ’پیرس‘کہلاتا تھاکہ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے، ذہین ،خدمت خلق کرنے کے رسیااور سیر و سیاحت کے دلدادہ تھے۔اس شہر اور ضلع میں بسنے وانے تاجروں کا دنیا بھر کے دیگر شہروں سے کاروباری تعلق ہوتا تھا۔ شکارپور کے تاجروں اور ہنرمندوں کو یورپ میں سندھ ورکی (Sindh Workie) کہاجاتا تھا۔ یہ بہت باصلاحیت اور سمجھدار لوگ مانے جاتے تھے۔آج وہی شکارپور ہے، جو سندھ بھر میں خون ریزی اور قبائلی تنازعات کے لیے بدنام ہے۔ نہ صرف یہ ضلع بلکہ اس کے بداثرات اردگرد کے دوسرے اضلاع اورشہروں تک بھی پھیل چکے ہیں۔مگرگذشتہ دو برسوں میں قائم علی شاہ، پیر صاحب پگارااور جھوٹے سچے سیاسی خواب دیکھنے والے منظور وسان کاضلع خیرپور شکارپور سے بھی بازی لے گیا ہے۔ اس کے بعد گھوٹکی، سکھر، جیکب آباد، قمبرشہدادکوٹ اور لاڑکانہ قبائلی جھگڑوں اور قتل و غارتگری کے حوالے سے آگے ہیں۔ایک تازہ سروے کے مطابق ان متحارب اضلاع میں پانچ سال کے عرصے میں 2ہزار 3 سو سے زائد لوگ قتل ہوچکے ہیں، جن میںاکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ان 1566خونی ’تکراروں‘میں معصوم بچوں اوربے قصور عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ان واقعات میں3ہزار7 سو لوگ زخمی بھی ہوئے۔صرف2018ء کے آخری دومہینوںمیںخون ریزی کے 71 واقعات ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ 2012 ء سے روزافزوں ہے۔ حکومت یا پولیس انھیں کنٹرول کرنے میںناکام ہے یا پھر کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔ رہا سوال علاقائی بڑوں یعنی وڈیروں، سرداروں اور نوّابوں کا تو ان کے تو ’’گلشن کا کاروبار‘‘ہی انھی تنازعات سے چلتا ہے۔

سندھ کے جن ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ شمالی اضلاع میںقبائلی جھگڑوں کی آگ جل رہی ہے، وہاں کی معیشت، کاروبار، سماجی زندگی اور تعلیم تباہ ہو چکی ہے۔ گذشتہ پانچ سال میںخیرپور میں 88، لاڑکانہ، قمبرشہداد کوٹ اضلاع میں 37 ، گھوٹکی میں 35 اور شکارپور ،کشمور اضلاع میں 30 اسکول بند ہوچکے ہیں۔ہائی اسکول چونکہ گوٹھوں کے بجائے زیادہ تر قصبوں میں واقع ہیں،اس لیے وہاں بچوں کی حاضری زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ عدم تحفظ اور دُشمنی کے ماحول کے باعث، طلبہ گائوں سے نکل کر قریبی قصبے تک پڑھنے نہیں جاسکتے۔ سماجی اور تعلیمی ماحول پر نظر رکھنے والے حلقوںکا کہنا ہے کہ شکارپور ضلع میں مہر اور جتوئی برادریوں کے مابین برسہابرس سے جاری خونی تنازعے کے باعث دو نسلیں تعلیم سے محروم رہ گئی ہیں!۔اس کے علاوہ ان تمام علاقوں کی زراعت سب سے زیادہ خراب حال میں ہے کیونکہ مزید خونریزی کے خدشات کے تحت آبادکار ،کسان اور ان کے خاندان اپنی زمینیں اور کھڑی فصلیں چھوڑ کر شہروں کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔جہاں وہ چھوٹی موٹی مزدوری کرتے ہیں اور ان کی عورتیں اور بچے بھیک مانگتے دیکھی جاتی ہیں۔

جب کسی خاندان کے مرد مارے جاتے ہیں تو ان کی عورتیں یا تو دوسرے علاقوں میں موجود اپنے میکے یا رشتہ داروں کے پاس چلی جاتی ہیں یا سرداروں کی حویلیوں میں مالِ غنیمت بنا کر رکھ لی جاتی ہیں ۔اور اگر کوئی ان دو آتشوں سے بچ جائیں تو وہ زندگی گذارنے بڑے شہروں میں آکر پناہ لیتی ہیں۔ کراچی کے صدر، زینب مارکیٹ کے علاقوں اور جناح ہسپتال کے سامنے جو میڈیکل اسٹورز، ہوٹل اور مارکیٹیں ہیں، وہاں بھی ایسی عورتیں بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ ان کے ساتھی مرد اگر کوئی ہوں گے تو وہ کسی فٹ پاتھ پر لیٹے موبائل پر گانے سنتے یا گفتگو کرتے نظر آجائیں گے۔ایسی زیادہ تر عورتیں رات کو آپس میںمل جل کر کسی فلائی اوور کے نیچے سو جاتی ہیں یا صدر کی کثیرالمنزلہ کمرشل عمارتوں کی پیچھے والی گندی گلیوں میں رات کے چارپہر مچھروں، کوڑے کرکٹ اور گندگی میں سوتے جاگتے گذار دیتی ہیں۔ مگر ان میں سے جو جوان اور خوش شکل لڑکیاں ہوتی ہیں، وہ اتنی مشکل راتیں نہیں بسر کرتیں۔ 

قبائلی تنازعات والے علاقے، اصلی ’’نوگوایریاز‘‘ بنے ہوئے ہیں۔سندھ کے بیشتر شمالی اضلاع میں تقریباً ہر برادری دوسری سے برسرِپیکار ہے۔ ان قبائلی دُشمنیوں کے انتہائی ہولناک اثرات علاقے کے مجموعی سماج پر پڑتے ہیںکیوں کہ متاثرہ لوگ اپنے گھر زمینیں، دُکانیں، جائیدادیں چھوڑ کر بڑے شہروں میں شفٹ ہو جاتے ہیں۔سرسبز شاداب زمینیں ایسے تنازعات کے باعث ویران ہو جاتی ہیں، جنھیں کوئی سردار ہتھیا لیتا ہے یا مخالفین قبضہ کرلیتے ہیں۔

خونی تنازعات کے باعث بازار ویران ہو جاتے ہیں۔ دُشمنی پالنے والے لوگ سودا سلف لینے کے لیے بھی بازاروں، قصبوں میں نہیں آتے۔ تعلیم اور صحت کا نظام بھی ختم ہو جاتا ہے۔ برسرِپیکار قبائل کے بچے اسکول و کالج جانا ترک کردیتے ہیں، جس سے جہالت اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ آپس میں لڑنے والے قبائل نہ صرف ایک دوسرے کے علاقوں میں آنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے علاقوں میں بھی سکھ سلامتی سے رہ نہیں پاتے۔ دن رات چوکیداری کا نظام رائج کرتے ہیں یا علاقہ ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ یوں قبائلی علاقے صحیح معنوں میں ’’نوگوایریاز‘‘ بن کر رہ گئے ہیں، جہاں تعلیم، صحت، معیشت اور زراعت سمیت تمام سرگرمیاں ختم ہو جاتی ہیں۔

 ان متحارب علاقوں میں صحت کے اکثر مراکز بھی بند ہوچکے ہیں۔کوئی ڈاکٹر یا نیم طبّی عملہ متحارب علاقوں کے ہسپتالوں، بنیادی صحت مرکزوں میں جاکر خدمات ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ مقامی طور پر صحت کی سہولیات دستیاب نہ ہونے پر لوگ مریضوں کو قریبی قصبوں یا شہروں تک علاج کے لیے لے کر نہیں آتے کیونکہ دُشمن ایسے مواقع کی تاک میں رہتے ہیں اور وار کر جاتے ہیں۔ صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی سے عورتیں اور بچے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جو ڈیڑھ درجن اضلاع ’’وارزون‘‘ بنے ہوئے ہیں، وہاں معصوم بچوں کو پولیو ویکسین پلانا بھی ممکن نہیں رہا۔

قبائلی تنازعات سے اوطاق کلچرکاخاتمہ

 جو علاقے قبائلی جنگ وجدل کی آماجگاہ ہیں، وہاںاوطاق کلچر کا بھی خاتمہ ہوچکاہے۔ پہلے زمانے میں مہمانوں کی آمدورفت لگی رہتی تھی، چھڑے مرد مہمانوں کو اوطاق میں ٹھہرانا عام تھا، جہاں کھانے کے وقت گائوں کے بیشتر گھروں سے نوجوان دو تین لوگوں کا کھانا لاکر اوطاق میں مہمان کے ساتھ بیٹھ کر اجتماعی دعوت کا لطف لیتے تھے۔ اب وہ اوطاقیں ویران ہوچکی ہیں۔ مہمان نوازی کا صدیوں پُرانا کلچر باقی نہیں رہا۔ کوئی بھی برادری شادی بیاہ جیسے خوشی کے موقع پر روایتی تقریبات دُھوم دھام سے نہیں کرسکتی۔اب قصباتی بازار سرِشام ہی ویران ہوجاتے ہیں۔ گاڑیوں کی نقل وحرکت بند کردی جاتی ہے اور سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں۔ پُرسکون شاموں اور پُرسکوت راتوں کے سینے کلاشنکوف کے برسٹ سے چھلنی ہوئے جاتے ہیں۔ 

انگریزوں کے دور میں بھی سندھ اور بلوچستان میں خونی قبائلی جنگیں برپا ہوا کرتی تھیں، جن کی روک تھام کے لیے انگریز سرکار نے کچھ سرکش قبائل کو باغی اور مستقل ملزمان کا مرتبہ دے کر ان کی ہر طرح کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھی تھی۔ ان کو اپنی علاقائی حدود کے اندر محدود رکھا جاتا تھا۔ ضلع کا پولیس  سربراہ ایس پی اپنے ضلع کے قبائل کی ہر حرکت پر نہ صرف نظر رکھتا تھا بلکہ ان کو پُرامن رکھنے کے لیے پولیس افسروں کو ذمہ داریاں بھی سونپی جاتی تھیں۔ برٹش راج کے پولیس رول 12-21 آف پولیس رولز مجریہ 1934ء کے تحت ایس پی ہر سال قبائل کی نقل وحرکت، سرکشی اور تنازعات سے متعلق تفصیلی رپورٹ تیار کرتا تھا۔ رپورٹ میں تنازعات پر کنٹرول رکھنے کے پولیس اقدامات کی وضاحت بھی کی جاتی تھی اور مزید اقدامات کی سفارش بھی کی جاتی تھی۔ یہ رپورٹ ضلعی مجسٹریٹ کی معرفت ہر سال یکم مارچ کو حکومت کو بھجوائی جاتی تھی۔تمام پولیس افسران اپنی انتظامی حدود میں قبائلی ٹولوں کو پُرامن رکھنے کے لیے بروقت اقدامات کرتے تھے۔ جیسے ہی مخبروں سے اطلاعات ملتی تھیں کہ فلاں اور فلاں دو قبیلے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے والے ہیں، ویسے ہی پولیس افسر متعلقہ دونوں قبائل کے سرداروں یا بڑوں کو بلا کر، دونوں جانب کی باتیں سُن کر، انھیں پرامن رہنے کی سخت ہدایات کرتے تھے اور جس قبیلے کے لوگوں پر قصور ثابت ہوتا تھا، اس پر جرمانہ ہرجانہ وغیرہ کر کے متاثرہ قبیلے سے انصاف کرتے تھے اور راضی نامہ بھی کرا دیتے تھے۔ اگر کوئی قبیلہ فیصلے کی میز پر نہ آتا یا راضی نامہ کرنے پر آمادہ نہ ہوتا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی تھی۔

انگریز راج میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع بھر کے انتظام کا مالک ومختار ہوتا تھا۔ اس کے رعب اور دبدبے سے سرکش سردار بھی گھبراتے تھے اور اپنی اوقات میں رہتے تھے۔ اس وجہ سے خونی تنازعات بہت ہی کم ہوتے تھے۔ اگر کہیں ایسے تنازعہ کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات روشن ہوتے تھے، مجسٹریٹ اور ایس پی کرمنل پروسیجر کوڈ کی شق 107/51 کے تحت پیشگی کارروائی کر کے معاملہ نمٹادیتے تھے۔ جب پولیس آرڈر 2002ء کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کردار تقریباً ختم کردیا گیا، تب سے قبائلی اور برادریوں کے تنازعات میں شدّت آچکی ہے۔ اب جو ڈی پی اوز اور ڈی آئی جیز آتے ہیں، وہ جلد جلد اپنے تبادلوں کی وجہ سے قبائلی سرداروں اور بارسوخ افراد کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط نہیں کرسکتے۔ دوسرے ان میں اس کام کی خواہش بھی نہیں ہوتی کہ قبائلی جھگڑے ختم ہوں۔ اس باعث برسوں سے جاری قبائلی جھگڑوں میں جہاں ہزاروں قبائلی افراد مارے جاچکے ہیں، وہاں سیکڑوں پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں۔

لیکن ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاںکسی ایک برادری کے سرداروں نوابوں کا مکمل کنٹرول ہے، وہاں امن ہے۔حکومت تو ان متحارب علاقوں میں امن کرانے کے لیے اپنی رٹ قائم نہیں کرتی مگر یہ ایک عجیب مشاہدہ ہوا ہے کہ جن علاقوں میں کسی ایک طاقتور سردار یا نواب کا حکم چلتا ہے، یعنی اس کی ’’رِٹ‘‘ قائم ہوتی ہے، ان علاقوں میں امن وامان، خوشحالی اور رونق نظر آتی ہے۔ وہاں سردار کے رعب داب کے باعث کسی طرح کی واردات بھی نہیں ہوتی۔

مگر کچھ سردار اور وڈیرے ایسے بھی ہیں جو قبائلی جھگڑوں کو جان کر بڑھاوا دیتے ہیں۔ایک ضلع کے ایک سردار بہت دین دار معروف ہیں۔وہ مسجدوں، مدرسوں کو دل کھول کر چندہ بھی دیتے ہیں۔ ان کا ایک واقعہ یوں معلوم ہوا کہ ان کے قبیلے کا ایک صلح پسند نوجوان ان کے پاس آیا اور انھیں شکایت کی کہ ہمارے گوٹھ کے قریب ایک اور قبیلے کے لوگ رہتے ہیں جو بہت سرکش ہیںاور آئے دن تنگ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی ہماری بکریاں یا مویشی ہانک لے جاتے ہیں تو کبھی فصلیں خراب کردیتے ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیں تاکہ ہمیں تنگ نہ کریں۔

سردار جو بہت ’اللہ والا‘ مشہور ہے، اس نے پہلے تو اپنے قبیلے کے اس نوجوان کو ہاتھ کی اُنگلیاں کھول کر لعنت دکھائی اور پھر گندی گالی دے کر کہا: ’’اگر تم لوگ غیرت مند ہوتے تو ایسی شکایت لے کر میرے پاس آنے کے بجائے راستے میں پڑنے والی نہر یا کسی کنویں میں ڈوب مرتے! ارے کم بخت! اگر غیرقبیلے کے لوگ تم لوگوں کو تنگ کررہے ہیں تو تم میرے پاس آنے سے پہلے ان کے تین چار بندے قتل کرکے آتے۔تب آکرمجھے بتاتے کہ مخالفوں کے اتنے خون کرآیا ہوں۔ پھر دیکھتے کہ میں تمہاری کس طرح اور کیا کیا مدد کرتاہوں۔ دُشمن کو سبق سکھانے کے بجائے اس کی شکایت لے کر آنے والا میرے قبیلے سے نہیں۔ جائو، ٹل جائو میری نظروں سے … ورنہ میں تمہاری گردن کاٹ کر پھینک دونگا‘‘۔

 اگر یہ ایک خداترس اوردینی سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے سردار کا حال ہے تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ عام سرکش سرداروں کا کیا مزاج ہو گا ،جن کی روٹی روزی قبائلی تنازعات، جرگوں اور قتل کے معاملات سے وابستہ ہے!۔

اسی طرح بلوچستان کے ایک بڑے سرداراور سیاسی رہنما کو کسی نے اطلاع دی کہ آپ کے چھوٹے بھائی کا فلاں مخالف قبیلے سے زمین کے معاملے پرجھگڑا ہوا ہے … ان کے ساتھیوں نے مخالف قبیلے کے تین آدمی مار دیئے ہیں۔

اس پر سردار نے تبصرہ کیا کہ میرے بھائی کو تو ابھی تک لڑنا بھی نہیں آیا۔ ارے بابا! مخالف یا دُشمن قبیلے کے تین آدمی آپ نے مار دیئے تو اب اُلٹا آپ کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور جس زمین پر آپ دعویٰ رکھتے ہیں، وہ بھی اب چھوڑنا پڑے گی۔ اگر عقل ہوتی تو مخالفین کے لوگ مارنے کے بجائے اپنے تین چار بندے مرواتا۔ اس کے بعد مخالف قبیلہ زمین بھی چھوڑ دیتا اور خوں بہا بھی ادا کرتا۔ میرے بھائی کو ابھی لڑائی کے گُر سیکھنا پڑیں گے!۔

سندھ کے بلوچستان کی سرحدی پٹی سے ملنے والے اضلاع جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ،قمبر شہداد کوٹ اور کشمور میں جدید اسلحے کی دستیابی نہایت آسان اور سستی ہے۔ اس لیے انھی علاقوں میں برادریوں اور قبائل کے مابین خونی تنازعات زیادہ جنم لیتے ہیں اور برسہابرس تک جاری رہتے ہیں۔ متحارب قبائل بلوچستان اور صوبہ پختونخواہ سے آنے والے اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف ہمارے ملک میں امریکی اسلحے کے ہمالیہ جتنے ڈھیر لگ گئے تھے۔ اس میں سے بہت تھوڑا اسلحہ مجاہدین کو ملتا رہا، بقیہ سندھ اور بلوچستان میں بیچا جاتا  رہا۔ اسی سے جہاں سندھ میں قبائلی جھگڑے بڑھے، وہاں سندھ کے شہروں کراچی، حیدرآباد اور دیگر میں لسانی فسادات کی آگ بھی بھڑکی۔ اس آگ کو ہوا د ینے میں اسی سمگل شدہ سستے اسلحے کا کردار تھا، جو اَب بھی استعمال ہورہا ہے۔ ہلکی رائفلوں سے لے کر مشین گنوں، دستی بموں سے لے کر راکٹ لانچروں تک خونخوار اسلحہ قبائل اور مجرم پیشہ گروہوں کو آسانی سے مل رہا ہے۔ سندھ میں یہ الزام عام ہے اور سماجی حلقوں کے مطابق اس میں کافی حد تک سچائی بھی ہے کہ قبائلی سرداروں اور ڈاکوئوں کو  پولیس بھی اسلحہ بارود بیچتی ہے۔

 

سندھ میںمختلف قبیلے ایک دوسرے کا خون بہا نے میں بازی لینے لگے

متحارب اضلاع میں پانچ سال کے عرصے میں 2ہزار 3 سو سے زائد لوگ قتل ہوچکے ہیں

شمالی اضلاع میں نوجوان، بچے اور عورتیں قبائلی تنازعات کا نشانہ بنتے ہیں

غیر قانونی جرگے کرنے والوں نے قبائلی تنازعات کو کمائی کا ذریعہ بنالیا

 

 

صرف پانچ اضلاع میں

 322 قبائلی تنازعات

 سندھ کے صرف پانچ اضلاع میں مختلف قبائل یا برادریوں کے مابین تقریباً 322 خونی تنازعات جاری ہیں۔ ان علاقوں میں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور کافی حد تک ذہنی دبائو اور تنائو میں مبتلا ہیں، جس کے باعث مجموعی ترقی اور ڈویلپمنٹ کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔ قبائلی سردار اپنی برادریوں کے نوجوانوں کو ان تنازعات میں ایندھن کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

قبائلی وجرگائی ’بھوتاروں‘ کی پانچوں گھی میں

اگر دو برادریوں کے درمیان خونی تنازعہ ہوتا ہے تو قبائل کے ’بڑے‘پہلے تو قبیلے کی عزت، غیرت کے نام پر اس جھگڑے کو ہوا دیتے ہیں۔ متحارب گروہوں کو اسلحے، گاڑیوں اور نقد رقم دے کر انھیں جھگڑے بڑھانے، بدلہ لینے پر اُکسایا جاتا ہے۔ جب معاملہ ان کے حسبِ منشاء عروج پر آجاتا ہے تو پھر اِدھر اُدھر کے بڑے سردار، نواب، رئیس لوگ امن کرانے، جھگڑے نمٹانے کے لیے جرگہ جرگہ کھیلتے ہیں۔ ایسے جرگوں میں فیصلے اس طرح ہوتے ہیں کہ خوں بہا طے ہوتی ہے، جرمانے ہرجانے رکھے جاتے ہیں۔ بعد میں اپنا حصہ لے کر سب ’’بڑے‘‘ اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ یوں قبائلی تنازعات کے کاروبار کی سائیکل چلتی رہتی ہے۔

سندھ میں اس وقت برسرِپیکار برادریوں یا قبائل میں مہر،جتوئیوں کا مہروں، لاشاریوں سے تنازعہ ہے۔ سدھایا برادری کا تنازعہ ڈاہانی سے،چانڈیو برادری کا مگسیوں، معرفانیوںاور پلی پوٹابرادری  کے ساتھ،مہروں اور پتافیوں کی دشمنی،جاگیرانیوںکی ناریجااورپتافی برادریوں کے ساتھ جھگڑاہے ۔چنا، کلھوڑااور بُگھیا برادریاں سہ جہتی دشمنی نبھا رہی ہیں۔مہرایک اور ذات لُنڈ سے برسرپیکار ، رامیجا کاکوریوں اور سولنگیوںسے اور جمالیوں کا سومرا برادری سے تنازعہ سرفہرست ہے۔

ان کے علاوہ بھی کئی برادریاں رند، بھیا، کماریا، جمالی، ابڑا، وَدھا، لاشاری، کورائی، کندھرا، میرانی اور دیگر ایک دوسرے کے ساتھ خونی تنازعات میں اُلجھی ہوئی ہیں، جن کے باعث آئے دن لوگ مارے جارہے ہیں۔ جب تک حکومت سنجیدہ ہو کر ان علاقوں میں اپنی رٹ قائم نہیں کرتی، متحارب اور سرکش سرداروں پر قابو نہیں پاتی اور ان قبائل کے لوگوں سے غیرقانونی اور قانونی اسلحہ برآمد کر کے ضبط نہیں کرتی اور بلوچستان، کے پی کے سے اسلحہ بارود کی فراہمی کو نہیں روکتی، تب تک سندھ کو قبائلی تنازعات کی آگ سے نکالا نہیں جاسکتا۔