کوہ قاف کی جنگ کا ڈراپ سین ابھی نہیں ہوا‘ گو بظاہر معاملہ طے پا گیا ہے‘ اس لیے کہ جنگ بندی آذر بائیجان کی فتح اور آرمینیا کے اعتراف شکست کے باوجود ابھی واضح نہیں کہ نگورنو کارا باخ کا مستقبل کیا ہوگا۔ جنگ اسی علاقے سے شروع ہوئی تھی اور یہ 1992ء کی بات ہے جب آرمینیا نے یہ کہہ کر چونکہ نگورنو کارا باخ میں آرمینی باشندوں کی اکثریت ہے‘ اس لیے وہ اسے واپس لینے کے لیے حملہ آور ہورہا ہے۔ آذر بائیجان ایک طرف تو کمزور تھا‘ دوسری طرف اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ آرمینیا حملہ بھی کرسکتا ہے۔ یوں کمزوری‘ لاعلمی اور عدم تیاری اس کی شکست بن گئی اور آرمینیا نے نہ صرف یہ کہ نگورنو کارا باخ بلکہ اس کے چاروں طرف کا علاقہ جو خاص آذر بائیجان کا تھا چھین لیا۔ آذر بائیجان خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ عالمی طاقتوں میں سے کسی نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔ ایران سے مدد کی توقع تھی لیکن فارسی ترک نسلی تقسیم آڑے آئی اور آذر بائیجان جوکہ 65 فیصد شیعہ اکثریت کا ملک ہے‘ ایران کی ہمدردی یا تعاون سے محروم رہا۔ ترکی اس لیے مدد کو نہیں آیا کہ وہاں سیکولر حکومت تھی جو کسی مسلمان ملک کی مدد کی اصولی حامی نہیں ہو سکتی تھی نیز ترکی کی معیشت اس حد تک خراب تھی کہ وہ ایک بار پھر یورپ کا مرد بیمار بن گیا تھا۔ آذر بائیجان خاموش ہو گیا لیکن اس نے اپنا علاقہ واپس لینے کی خواہش مرنے نہیں دی۔ ترکی میں پندرہ برس کے دوران معاشی حالات تبدیل ہو چکے تھے اور اب وہ معاشی طاقت بن چکا تھا۔ فوجی اعتبار سے وہ پہلے ہی طاقتور ملک تھا اور عالم اسلام میں سب سے بڑی جنگی طاقت تھا‘ صدر اردوان نے امریکی پابندیوں کے بعد ڈرون طیارے بنانے کے کارخانے لگائے اور حیرت انگیز طور پر چند ہی برسوں میں اس نے ان چھوٹے بنا پائلٹ کے ایسے طیاروں کی کھیپ تیار کرلی جو صلاحیت اور ٹیکنالوجی میں اسرائیل کے جہاروں کے ہم پلہ تھے۔ اسرائیلی ڈرون طیاروں کو اب تک دنیا بھر میں سب سے عمدہ تصور کیا جاتا ہے۔ چپکے چپکے اردوان کے آذری رہنمائوں سے رابطے قائم ہوئے‘ رازداری کے ساتھ جنگی تیاریاں کی گئیں اور 27 ستمبر 2020ء کو آذر بائیجان نے جنگ شروع کردی۔ ترکی کے ڈرون طیارے اور شام کے مجاہدین کے ایک بڑی کھیپ اگلے مورچوں پر تھی۔ ڈرون طیاروں نے آرمینی صفوں میں ایسی تباہی مچائی کہ روس اور امریکہ کو بھی توقع نہ تھی۔ روس کی ہمدردی آرمینیا کے ساتھ تھی۔ اس نے اپنی فوج بھیج کر جنگ میں براہ راست فریق بننے سے گریز کیا لیکن ایران کے راستے ہتھیاروں اور توپوں سے بھرے ہوئے ٹرک آرمینیا بھیجے۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں آرمینیا نے سوشا نامی شہر پر آذری قبضے کے بعد ہار مان لی۔ یوں آذری بائیجان نے سوا مہینے کی جنگ میں اپنا چالیس فیصد مقبوضہ علاقہ واگزار کرالیا۔ اگلا مرحلہ ہفتوں کا نہیں‘ دنوں کا تھا۔ اس لیے کہ آرمینیا کی تمام ڈیفنس لائنیں برباد ہو چکی تھیں اور اب آذر بائیجان نے جنگ نہیں کرنی تھی‘ محض ہلہ بولنا تھا۔ چند دنوں کے اندر وہ سارا علاقہ لے لیتا۔ لیکن روس اس نازک مرحلے پر حرکت میں آیا اور ترکی کی مدد سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا جس کی رو سے جو خاص آذری علاقے ہیں وہ نومبر اور دسمبر کے دوران آرمینیا خالی کردے گا جبکہ نگورنو کا کارا باخ کا جو علاقہ آذر بائیجان نے واپس لیا ہے ‘وہ اسی کے پاس رہے گا۔ مسئلہ نگورنو کارا باخ کے اس علاقے کا ہے جو اب بھی آرمینیا کے پاس ہے۔ لگ رہا ہے کہ روس اسے یا تو آزاد ملک بنائے گا یا آرمینیا کے ساتھ اس کا مشروط الحاق کردے گا۔ 11 سو روسی فوجی اب نگورنو میں تعینات کردیئے گئے ہیں۔ یہ علاقہ آرمینیا سے دور آذربائیجان کے بیچوں بیچ ہے چنانچہ آرمینیا کو ایک کاریڈور آذری علاقے سے نکال کر دیا جائے گا تاکہ دونوں میں رابطہ ہو سکے۔ اسے لاچین LACHIN کاریڈور کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اس لحاظ سے زیادتی ہے کہ تاریخ اور جغرافیائی طورپر نگورنو کارا باخ آذربائیجان کا علاقہ ہے۔ بہرحال جنگ تمام ہوئی‘ آذر بائیجان نے فتح پائی اور ترکی نے ساری دنیا پر پھر سے دھاک بٹھا دی۔ اس سے پہلے وہ مغربی لیبیا میں اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ فوج کو پسپا کر کے اپنی دھاک بٹھا چکا ہے اور ایسی ہی وہاں اس نے 1970ء کی دہائی میں شمالی قبرص کو یونانیوں سے آزاد کرا کے بٹھائی تھی۔ (1974ئ)۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نصف صد کے قریب مسلمان ممالک میں ترکی ایک اکیلا ملک ہے جس نے ہر جنگ جیتی ہے‘ ہاری ایک بھی نہیں۔ ایک اور پیشرفت میں ترکی نے نخچیون تک ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نخ چیون (Nakhchevan) آذر بائیجان کا حصہ ہے لیکن یہ مین لینڈسے ہٹ کر ہے۔ اس کے اور آذر بائیجان کے درمیان آرمینیا کا علاقہ حائل ہے۔ دوسری طرف سے آذر بائیجان نے بھی ایران کے راستے نخچیون تک ریلوے لائن بچھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے لیے ایران کی اجازت درکار ہوگی۔ یہ کام ہو جائے تو آذر بائیجان‘ نخچیون اور ترکی ریلوے راستے سے بندھ جائیں گے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایران اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ طاقتور آذر بائیجان سے ایران اندیشوں میں مبتلا ہو گیا ہے۔ آذری سرحد کے ساتھ ساتھ ایران کے اندر آذر بائیجان نام کے دو صوبے ہیں‘ شرقی اور غربی اور یہاں کے لوگ گاہے گاہے مظاہرے کر کے فارسی النسل ایرانیوں کے خلاف مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ان سے ملحقہ ایک اور صوبہ ’’اردبیل‘‘ بھی ہے۔ یہ تینوں صوبے آذری اکثریت کے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ تینوں ایک ہی صوبہ تھے‘ پھر حکومت نے تین کردیئے۔ علاقے میں ایک اور پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ ایران کا افغانستان سے ریل رابطہ مکمل ہوگیا ہے اور پچھلے دنوں پہلی ایرانی ٹرین افغان ریلوے سٹیشن ہرات پہنچی۔ یہ لائن ایرانی ریلوے سیکشن خاف سے آگے ایک اور پٹڑی کے ذریعے مشہد والی میں مین لائن سے مل جاتی ہے۔ یوں افغانستان کا ملک سے بھی ریل رابطہ بن گیا ہے (پہلے رابطے ترکمانستان‘ ازبکستان سے ہیں۔) پاک افغان ریلوے ہناز خواب پریشاں ہے۔