80کی دہائی تھی ۔ پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ سیاسیات ذہین اور لبرل پروفیسرز سے چمک دمک رہا تھا۔ حامدقزلباش، حسن عسکری صاحب ، مشاہد حسین سید ، پروفیسر خالد محمود اور سٹائلش اینڈ Articulate سجادنصیر صاحب اور فاروق حسنات اس کہکشاں کے نمایاں ستارے تھے۔ جب ہم اس ڈیپارٹمنٹ میں حصول علم کی تلاش میں پہنچے تو ہمارے حصے میں جو پروفیسرز وقت نے عطا کیے ان میں ڈاکٹر حسن عسکری صاحب ، پروفیسر سجاد نصیر صاحب اور ڈاکٹر فاروق حسنات ہمیشہ یاد رہنے والے ہیں۔ کسی نہ کسی جہت اور وجہ سے ان سب سے رابطہ رہتا ہے۔ اس عہد میں ایک ہی ٹی وی نیٹ ورک تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن ۔ اس پر ایک ایسا پروگرام چلا کرتا تھا جس میں قد آور اور جناتی قسم کی غیر ملکی شخصیات کا انٹرویو ہمارے استاد سجاد نصیر صاحب کیا کرتے تھے۔ہم سب سٹوڈنٹس اس پروگرام کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے ۔ اسی پروگرام میں تیسری دنیا کی تنظیم کے سربراہ افریقی لیڈر ڈاکٹر رابرٹ موگابے بھی آئے اور امریکی سابق صدر جمی کارٹر بھی۔مت پوچھیے کہ جب ہم اپنے استاد کو کسی عالمی شخصیت کے ساتھ خوبصورت انگریزی بولتے ہوئے ، باکمال سوالات کرتے دیکھتے تو سحر زدہ سے ہو جاتے تھے۔ روسی فوج افغانستان میں پھنسی ہوئی تھی۔ رونالڈ ریگن امریکہ کے صدر بن چکے تھے۔ سابق صدر جمی کارٹر پاکستان آئے۔ رات کو پاکستان ٹیلی ویژن پر پروفیسر سجاد نصیر صاحب نے انہیں انٹرویو کرنا تھا۔ ہم بے چینی سے ٹی وی سے چمٹے ہوئے تھے۔ بڑا سحر انگیز انٹرویو تھا۔ صبح کلاس میں پہنچے ۔ میں نے سجاد صاحب سے ہیجانی انداز میں پوچھا۔۔۔’’ سر امریکی صدر نے انٹرویو کے دوران کہیں آپ کو ٹف ٹائم دیا؟ سجاد صاحب پائپ سلگا کر اس کا کش لیکر اپنے مخصوص انداز میں ایک آنکھ دبا کر کہنے لگے ’’جنا وی تنگ کرنا سی میں ای کیتا۔۔۔ اونہے نہیں‘‘۔ وقت کے پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ جب ایف سی کالج میں پڑھا رہا تھا تو ایم فل کرنے پنجاب یونیورسٹی پہنچا تو سجاد صاحب ریٹائر ہو رہے تھے۔ پھر وہ لاہور سکول آف اکنامکس چلے گئے اور ان کے طالب علم دنیا بھر میں جہاں بھی جاتے ان کا ذکر ضرور کرتے۔ اس دوران سجاد صاحب نے کولڈوار کے خاتمے اور پھر اس کا خطے پر اثر کے عنوان سے ایک طویل لیکچر دیا۔۔۔ بعد میں وہ کتابی شکل میں چھپ کر سامنے آیا تو ایک خاص کلاس میں ان کے نکتہ نظر پر بحث بھی ہوئی ۔ تھنک ٹینک ، دانش ور ۔۔۔ پروفیسرز ، پالیسی میکرز اور مجھ جیسے طالب علم سبھی کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ Politics and Governance, Domestic & Foreign Overview. اس کتاب کا ٹائٹل ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر سجاد نصیر صاحب نے کولڈ وار کے خاتمے کے بعد کی دنیا کے حالات و واقعات کو سیاسیات کے ڈسپلن کی عینک سے دیکھا ہے ۔ جب روس ٹوٹ گیا ۔ گلوب میں صرف ایک ہی سُپر پاور رہ گئی۔ اس سے عالمی منظر نامہ کیسے مرتب ہوا؟ جس خطے میں ہم رہتے ہیں اس پر کیا اثرات پڑے۔ پاکستان کے داخلی تضادیات کیا ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے یکساں آزاد ہونے کے باوجود ۔۔۔دونوں کے سیاسی ڈھانچے اور تاریخ کا سفر اتنا مختلف کیوں ہے؟ ہمارے ہاں وفاق کیسا ہے؟ بھارت کی فیڈریشن کے مسائل کیا ہیں؟ جب بھی کوئی غیر ملکی دانش ور صحافی اور تھنک ٹینک پاکستان کے سیاسی نظام کا تجزیہ کرتا ہے تو اسے مختلف تضادات کا سامنا کیونکر ہوتا ہے؟ امریکہ کے عالمی مسائل کیا ہیں؟ جس خطے میں ہم رہتے ہیں یہاں امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ڈیزائن اور مفادات کیا ہیں؟ وہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تضادات کو جب اپنی نظر اور عینک سے دیکھتا ہے تو کس نتیجے پر پہنچتا ہے ؟ پاکستان کو صدارتی اور پالیمانی دونوں صورتوں میں کون کونسی دشواریاں اور مسائل درپیش رہتے ہیں؟ مارشل لاء جب لگتے ہیں تو ان سے جنم لینے والی حکومتوں کو آئینی جواز کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ؟ سول حکومتوں کو کیونکر اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے گزرنا پڑتا ہے ؟ اس کے باوجود وہ اکثر اپنا وقت پورا کیوں نہیں کر پاتیں؟ ضیال الحق کے چلے جانے کے باجود گورننس اور خارجہ پالیسی پر اس کے نقوش اب بھی دیکھنے کو کیوں نظر آجاتے ہیں؟ پاکستان کو خارجہ محاذ پر چین اور روس کے مقابل امریکی بلاک کے ساتھ معاملات میں کس طرح توازن کا خیال رکھنا ہوگا۔ سجاد نصیر صاحب چین کو تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی قوت مانتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو خطے میں اپنی سلامتی اور تحفظ کے لیے چین اور روس کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک مفادات کا ڈول ڈالنا چاہیے ۔ ان کے مطابق بھارت اور امریکہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں فطری اتحادی ہیں۔ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں جب سارا مشرق وسطیٰ امریکہ اور اسرائیل کا اتحادی بن جائے گا تو پاکستان کے پالیسی میکرز کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بہت سارے سوالیہ نشانات جنم لیں گے۔ میرے خیال میں وہ سب اشارات جن کی طرف پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب میں اشارے دیئے تھے اب قدآور جن بن کر ہماری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہیں۔ دنیا کا وہ حصہ جس میں ہم رہتے ہیں۔ جمہوریت کا اپنا ہی ماڈل ہے۔ منفرد قسم کے سیاسی اور مفاداتی تضادات ہیں جنہیں پروفیسر صاحب PARADOXES قرار دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کا جمہوریت کا ماڈل اور نتائج دے رہا ہے ۔ اور پاکستان ، بنگلہ دیش کا کچھ اور ۔ مگر یہ طے ہے کہ یہ برانڈ ان کی جمہوریت سے خاصا مختلف ہے جن کی یہ پراڈکٹ ہے۔ آج کے عہد میں جس تھوک کے اعتبار سے ٹی وی چینلز ہیں اس سے کہیں زیادہ تجزیہ نگار ہیں ۔ مگر مقدار کے بڑھنے سے تجزیے کا معیار شدید بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سجاد نصیر صاحب جس عہد کے نمائندے ہیں اس میں تجزیہ وہی لوگ کرتے تھے جنہیں ایسا کرنا آتا تھا۔ معیار اور مقدار کا باہمی ربط بڑا متوازن تھا۔ اکیڈیمک پس منظر کے بغیر سیاسی تجزیہ صرف واقعات اور اندر کی بات کا مربہ بن جاتا ہے ۔ ویژن اور وزڈم رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سجاد نصیر صاحب کی کتاب آج کے عہد اور واقعات کو سمجھنے کے لیے انتہائی معاون اور مدد گار ہے۔