پاکستان میں جمہوری ادارے پنپ نہ سکے ۔پارلیمانی جمہوریت میں تسلسل قائم نہیں رہ سکا اور سیاست پر سات دہائی تک فوج کی بالادستی جو نظر آتی ہے،اُس کا صرف اور صرف ذمہ دار ہمارا ایک خاص Pseudo-intellectualطبقہ صرف فوج کو ہی ٹھہراتا ہے۔لیکن اگر ماضی کی تاریخ کے اوراق ادھیڑے جائیں ،تو اس میں جہاں ہماری سیاسی قیادت کا کردار انتہائی موقع پرستانہ بلکہ معذرت کے ساتھ،گھناؤنا نظر آتا ہے، تو دوسری طرف عدلیہ نے جو مصلحت کشی اختیار کی ،وہ بھی کم نہیں۔ ۔ ۔ عام طور پر بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد ساری ذمہ داری فیلڈ مارشل محمد ایوب خان پہ ڈالی جاتی ہے، جنہوں نے پہلے مسلمان پاکستانی آرمی چیف کی حیثیت سے جنوری 1958میں فوج کی سربراہی سنبھالی ۔اور پھر پوری ایک دہائی تک، یعنی جون1968ء تک،فیلڈ مارشل ایوب خان کو بلاشرکت غیرے پاکستان کا مطلق العنان حکمراں ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاکستان کے پہلے مقامی چیف جسٹس ،جسٹس سر عبد الرشید تھے۔جو جون 1949سے جون1954تک چیف جسٹس رہے۔یعنی کم و بیش پانچ سال۔اسی طرح عدلیہ کے انتہائی قابل ِ احترام جج جسٹس محمد منیر جون 1954سے لے کرمئی 1960تک سپریم کورٹ کے سربراہ رہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کے یہ تیرہ سال بڑے ہنگامہ خیز اور فیصلہ کن تھے۔پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پڑوسی روایتی دشمن ملک بھارت کی مثال نہیں دینا چاہتا۔لیکن یہ بھی تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ دونوں ملک اپنے سیاسی،سماجی ،تہذیبی اور معاشرتی اعتبار سے بیشتر معاملوں میں قدر مشترک رکھتے ہیں۔ بھارتی سیاسی تاریخ کے ابتدائی تیرہ سالوں میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ہوتے ہوئے نہ تو کسی مہم جو فوجی کو سر اٹھانے کا موقع ملا،نہ عدلیہ نے حدود سے بڑھ کر کوئی قدم اٹھایا۔یہ جواہر لال کی کانگریس ہی تھی جس نے محض ایک سال بعد بھارت کو آئین بھی دیا اور اس دوران تین انتخابات بھی کروادئیے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ان ابتدائی پندرہ برسوں میں کوئی آئین ہی تشکیل نہیں پاسکا،اور نہ اس آئین کے نہ ہونے کے سبب کوئی انتخابی عمل اور پارلیمنٹ ہی وجود میں ہی نہیں آسکی۔ چیف جسٹس محمد منیر کا پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑنے پر گورنر کے حکم پر مہر ثبت کرنا تو پاکستانی عدلیہ پر ہمیشہ بدنما داغ رہے گا ۔مگر اس سے بھی بڑھ کر سابقہ مشرقی پاکستان میں جب جگتو فرنٹ کی حکومت کو توڑا گیا، در اصل یہ آغاز تھا سقوط ِ ڈھاکہ کا۔ ۔ ۔ جس کے سبب اکثریتی پاکستان ہی ہم سے جدا ہوگیا۔ جسٹس اے آر کارنیلیئس اور جسٹس ایس اے رحمان کانام ہمیشہ سے پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں احترام سے لیا جاتاہے ۔اور لیا بھی جانا چاہئے ۔مگر یہ بھی تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جب سات اکتوبر 1958پھر محض دو ہفتے بعد 26اکتوبر کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاکستان میں پہلے فوجی مار شل لاء کی بنیا د رکھی ۔ اور پھر اسی دوران جب سن 1962ء میں جمہوریت کی روح کو قبض کر کے 1962ء کے آئین کو تشکیل دیا،اور پھر اس آئین کی بنیاد پر بی ڈی سسٹم کی بیساکھیوں پر کھڑی کر کے ایک پارلیمنٹ تشکیل دی، تو اس پر ایوب خان کے فوجی ٹولے کی ہی گردن زدنی کی جاتی ہے۔ ذرا اور آگے بڑھیں۔ ۔ ۔ اس دوران ایک اورجمہوریت اور عدلیہ پر شب خون کا ذکر رہ گیا۔ اور وہ ہے’’پنڈی سازش کیس‘‘ ۔ ۔ ۔ جس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے کہ جن جن فوجی جنرلوں کو پکڑا گیا اور لمبی مدت کی سزائیں دی گئیں،ان میں سولہ کے سولہ اہم فوجی افسران سرینگر کو فتح کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔اگر ان فوجی افسروں نے اُس وقت کی کمیونسٹ پارٹی سے مل کر کوئی سازش کی تھی ،تو اُس کا مقدمہ ملٹری کورٹ ہی میں چلنا تھا۔ مگر بدقسمتی سے ،پہلی بار اس بات کی بھی روایت پڑی کہ ایک سیاسی مقدمے کو جیل کے پانچ پھاٹکوں کے اندر چلایا گیا۔ جی ہاں، یہ مقدمہ حیدر آباد جیل میں چلا۔کورٹ کے سربراہ جسٹس ڈاکٹر ایس اے رحمان تھے۔ملزم ،وکیل ِ صفائی ،وکیل استغاثہ یعنی سارا عدالتی عملہ بھی جیل کے اندر عدالتی کارروائی چلاتا تھا۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو کالم کی تنگی ٔ داماں اجاز ت نہیں دے رہی مگر چلتے چلتے چیف جسٹس حمود الرحمان کا ذکر ضرور کرتا چلوں کہ جو 1968ء سے اکتوبر1975ء تک چیف جسٹس آف پاکستان رہے۔اپنی علمیت ،قابلیت اور عدلیہ میں جو ان کا مقام ہے ،اُس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی ۔ جسٹس حمود الرحمان ہی تھے کہ جن کے ہوتے ہوئے یحییٰ خان نے ایوب خان سے غاصبانہ طور پر اقتدار چھینا تھا۔جسٹس حمود الرحمان کے نام سے ایک رپورٹ کے بھی برسہا برس سے چرچے ہورہے ہیں۔جو آج تک منظر ِ عام پر نہیں آئی۔آتی بھی کیسے کہ اس وقت کے جنرلوں ،سیاستدانوں سے کچھ بڑھ کر ہی ہماری سب سے بڑی عدالت کے چیف اور ان کے برادر اس میں پورے کے پورے شریک تھے۔(جاری ہے)