نقشِ خیال والے عرفان صدیقی، دل پذیر نثر لکھنے والے کالم نگار، عرفان صدیقی اپنے مداح قارئین کے لیے کئی زمانوں سے لاپتہ تھے کہ اچانک بروز ہفتہ 28جولائی ایک ناخوشگوار انتہائی افسوسناک واقعے نے انہیں ٹاک آف دی ٹائون بنا دیا۔ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں بزرگ صحافی اور استاد…عرفان صدیقی کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا۔ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وہ بھی ان کے حق میں بولے جنہیں ان سے نظریاتی اختلاف تھا اور ہے۔ 27جولائی جمعہ رات گیارہ بجے انہیں اُس جرم میں گرفتار کیا گیا جس سے ان کا کوئی لینا دینا ہی نہ تھا۔ سیشن کورٹ میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔14دن کے ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن اس واقعے پر جس طرح عرفان صدیقی صاحب کے حق میں آواز اٹھی حکومت اور مشیران حکومت بوکھلا کر رہ گئے۔ کسی کے پاس اس واقعے کے جواز میں کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ سیاسی مخالفین سے وابستہ ایک ممتاز صحافی کو اس طرح انتقام کا نشانہ بنایا۔ پوری دنیا میں بھی پاکستان کی جگ ہنسائی تھی جبکہ حال ہی میں وزیر اعظم کے امریکہ کے دورہ میں بھی ان سے یہ سوالات کیے گئے کہ آپ کی حکومت میں میڈیا کی آزادی پر قدغن کیوں لگائی جا رہی ہے؟ سو اس عرفان صدیقی کے معاملے پر حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اتوار کے روز خصوصی احکامات کے تحت عدالت لگا کر ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ برسوں کے بعد عرفان صدیقی کو منظر عام پر دیکھ کر ان کی تحریر کے مداحوں کو نقش خیال کی پھر یاد آئی۔ ویسے بہت سے لوگوں نے تو اپنے پسندیدہ کالم نگار کو پہچانا بھی نہیں کہ قارئین ہمیشہ کالم پر چھپنے والی تصویر کے ساتھ ہی لکھاری کو relateکرتے ہیں۔ سو تازہ ترین عرفان صدیقی اپنی اس تصویر سے قطعاً مختلف تھے جو نقشِ خیال پڑھنے والوں کو یاد تھی بلکہ میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ وہی عرفان صدیقی ہیں جو کالم لکھا کرتے تھے۔ سیاسی وابستگی کی بند گلی میں جا کر عرفان صدیقی کالم نگاری چھوڑ چکے ہیں سو ان کی سیاسی وابستگی نے قارئین سے ایک خوبصورت تحریر والا لکھاری چھین لیا جسے وہ آج تک نہیں بھولے ۔ہر لکھنے والے کا ایک سیاسی جھکائو اور رجحان ہوتا ہے۔ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے، اگر یہ سیاسی جھکائو آپ کے راستے کی دیوار بن جائے، آپ کھل کر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکیں تو پھر یہ سوچ اور احساس کی خیانت ہے۔ عرفان صدیقی نے اچھا ہی کیا کہ جب ان کی سو فیصد سیاسی وابستگی نواز شریف کے ساتھ تھی تو انہوں نے کالم نگاری کو خیر باد کہہ دیا۔ نواز شریف کے مشیر کی حیثیت سے ان کے سیاسی تجزیے غیر جانبدار نہیں رہ سکتے تھے۔ سیاسی وابستگی سے آلودہ قلم اپنا بانکپن کھو دیتا ہے۔ پھر ایسے قلم کی کج کلاہی پر حرف آتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عرفان صدیقی صاحب اپنے اندراس لکھاری کو کبھی مس (Miss)کرتے ہیں یا نہیں جو سیاسی وابستگی کی گلیوں میں ان سے بچھڑ گیا۔ سیاسی، سماجی معاشی حالات کا تجزیہ کرنے والا ہمیشہ ایک دوراہے پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ یا تو اپنے سیاسی رجحان کے اثر سے باہر نکل کر حالات کو دیکھے یا پھر اپنی سیاسی وابستگی کی عینک پہن کر صرصر کو صبا اور جوہڑ کو سمندر کہتا رہے۔ بہرحال یہ لکھاری کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ قلم کے بانکپن کا خیال رکھتا ہے کہ سیاسی وابستگی کے ہاتھ اپنے قلم کے بانکپن کو گروی رکھ دیتا ہے۔ 2007ء میں برسوں پہلے جب کالم نگاری کا آغاز کیا۔ مشرف کا دور تھا۔ نواز شریف خاندان سعودی جلاوطنی کے بعد واپس پاکستان آ چکا تھا۔ میرے اخبار کے ایک سینئر صحافی نے جن کے شریف خاندان کے ساتھ اچھے روابط تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ بیگم کلثوم نواز جلا وطنی کے سالوں پر مشتمل اپنی خود نوشت لکھوانا چاہتی ہیں۔ مجوزہ لکھاریوں میں آپ کا نام سرفہرست ہے۔ آپ اس پراجیکٹ کو بہتر انداز میں کر سکیں گی۔ بیگم صاحبہ سے رائیونڈ میں ملاقات کا وقت طے کر لیتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ نئی چیزوں کو Exploreکرنے کا شوق رہا ہے۔ چند لمحوں کے لیے تو مجھے یہ بہت ایکسائٹنگ پراجیکٹ لگا لیکن پھر گہرائی میں سوچا تو محسوس ہوا کہ اس پراجیکٹ کے بعد ن لیگ کے سیاسی وابستگان میں شامل ہونے لگوں گی۔ میں اپنے اوپر یہ الزام نہیں لینا چاہتی ہے۔ سو ان سے معذرت کر لی کسی بھی سیاسی اثر سے بالا تر ہو کر اپنے ضمیر کے مطابق سچ لکھنے کا ارادہ آغازِ سفر میںہی کر لیا تھا۔ عرفان صدیقی ہمارے لیے محترم ہیں۔ وہ نہایت قابل احترام استاد اور حرف و لفظ سے جڑے ہوئے لکھاری ہیں بس ایک ذرا سی بات دل میں آتی ہے کہ اس روز جب انہوں نے سیشن کورٹ میں سیاسی انتقام کے جبر کے سامنے زنجیر بکف ہاتھ میں قلم کا علم بلند کیا تو اگر اس قلم پر سیاسی وابستگی کی گرد نہ ہوتی تو پھر اس کا بانکپن اور چھب دیکھنے والی ہوتی۔ بہر حال جو راستہ انہوں نے اپنے لیے منتخب کیا یہ ان کی صوابدید پر تھا۔نقش خیال کے قارئین مگر ان کی واپسی کے خواہش مند ہیں۔