اسحاق ڈار کا نام’’منکرین‘‘ کی فہرست میں سرفہرست تو نہیں ہے البتہ شاید ایک نمبر نیچے ہے۔ کلاسیفائیڈ دستاویزات میں ان کے ’’جرم‘‘ کی نوعیت اگرچہ کچھ مخفی سی ہے لیکن آن دی ریکارڈ جرائم یہ بتائے جاتے ہیں کہ انہوں نے چار سال تک افراط زر پر ’’مصنوعی‘‘ قابو پائے رکھا اور اتنا ہی عرصہ ڈالر کی قیمت مصنوعی اقدامات کر کے بڑھنے نہیں دی۔ ایسے مصنوعی اقدامات کئے کہ گروتھ ریٹ بڑھنے لگا اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں پاکستان بنگلہ دیش کے برابر نہ آ جائے۔ چنانچہ شکر ہے کہ راست اقدام کے لئے کی جانے والی بالواسطہ پیش رفت کے نتیجے میں جہاں منکرین کی فہرست کا سرفہرست کال کوٹھڑی پہنچا۔ وہاں سرفہرست سے ایک نمبر نیچے یہ قومی مجرم بھی بے منصب ہونے کے ساتھ ساتھ بے وطن بھی ہو گیا۔ چونکہ بے وطن ہے اس لئے اشتہاری بھی ہے اور چونکہ اشتہاری ہے۔ اس لئے اس کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط قرار پائیں۔ یہ اشتہاری ہونا بھی عجب ہے۔ کوئی اشتہاری ایسا ہوتا ہے کہ جائیداد سے محروم ہوتا ہے اورزن بچہ بھی احتساب کے کولہو میں پلوا دیا جاتا ہے۔ خبر سے ان کی یاد ان کا تازہ بیان پڑھ کر آئی جو انہوں نے لندن سے جاری کیا ہے اور اخبار نے اسے مبلغ ساڑھے تین سطروں میں چھاپا ہے۔ بیان میں فرمایا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال کے دوران ملک کو 135ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ یہ سال کا حساب ہے لیکن انصاف کو قائم ہوئے تو چودہ ماہ ہو گئے۔ یعنی دو مہینے کا حساب اب بھی کم ہے۔ پچھلے سال اس طرح کی جائزہ رپورٹیں آیا کرتی تھیں کہ 2014ء اور اس کے بعد بالخصوص 2017ء اور 2018ء میں جو انجیئرڈ سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کیا گیا۔ اس کا بھگتان بھی ملک کو اربوں ڈالر کے گھاٹے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ وہ رقم یاد نہیں لیکن سو ارب ڈالر سے کم تو بہرحال نہیں تھی۔ سو ارب بھی نکالیں تو حکومت قائم ہونے کے اس عمل میں ملک کو 235ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ٭٭٭٭٭ سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ نقصان بہت بڑا ہے؟ شاید لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کے عوض ملک نے کچھ منافع بھی تو کمایا ہو گا؟ جی ہاں‘ اس چودہ ماہ کے عرصے میں ایک عدد لنگر کھلا ہے۔ لنگر اگرچہ نجی شعبے میں کھلا ہے لیکن اسے حکومت کی سرپرستی حاصل ہے چنانچہ اسے ریاستی کامیابی کہا جا سکتا ہے۔ نفع و نقصان کے میزانئے کو انصاف پرورنگاہوں سے دیکھئے تو ملک نے کوئی ایسا زیادہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ ٭٭٭٭٭ صدمہ ہوتا ہے جب لوگ منفی سوچ کے تحت طنزیہ جملے لڑھکاتے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا‘ خان صاحب کی حکومت پہلی ایسی حکومت ہے کہ جسے سارے اداروں کی مدد‘ حمایت اور کمک حاصل ہے اور پورا سال اسے اپوزیشن نام کی کسی شے کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔ اسے ماضی کے برعکس لوڈشیڈنگ کا ورثہ بھی نہیں ملا پھر بھی اس کے سال سوا سال کے نامہ کارکردگی میں ایک عدد لنگر اور چند عدد اجڑی ہوئی فٹ پاتھی خیمہ بستیوں کے سوا کچھ نہیں۔اجڑی ہوئی بستیوں کے خیمے تو خیر یار لوگ اٹھا کر گھر لے گئے۔ اب جہاں خالی فٹ پاتھ تھے‘ وہاں پھر سے خالی فٹ پاتھ ہیں۔ ہاں لنگر والی بات درست ہے کہ مبلغ ایک عدد لنگر خانہ بنا۔ لیکن طنز کے تیر چلانے والے یہ بھی تو دیکھیں کہ اگر اس ایک عدد لنگر کو ہم ایک عدد کوہ نور ہیرا مان لیں تو…؟ پھر کیا سارا غم غلط نہیں ہو جاتا ہے۔ ایک کوہ نور باقی خزانے پر بھاری ہوتا ہے۔ چور ڈکیت حضرات کی حکومتوں نے جتنے بھی پل‘ سڑکیں‘ موٹر ویز‘ کارخانے‘ سکول کالج‘ ہسپتال بنائے وہ سب ایک طرف‘ یہ لنگری کوہ نور ایک طرف۔ پلڑا اس کا بھاری رہے گا۔ جلے دل کے پھپھولے جتنے چاہے پھوڑ لیں‘ وہ پلڑا بھاری رہے گا جس پر انصاف سرکار تشریف رکھتی ہے، ٭٭٭٭٭ پیمرا نے مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنسیں دکھانے سنانے پر پابندی لگا رکھی ہے اس لئے لوگوں کا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ رہا ہے۔ لوگ اس بچ جانے والے قیمتی وقت کو فردوس عاشق اعوان،زرتاج گل اورشیخ رشید وغیرہ کے سننے پر صرف کرتے ہیں۔ یعنی وقت کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ مولانا کیا فرماتے ہیں‘ ٹھیک سے پتہ نہیں چل رہا۔ ٹوئٹر پر البتہ ان کے بیانات کے ’’ٹوٹے‘‘ نظرو سامع نواز ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ ان کی پریس کانفرنسوں میں مذہب کارڈ موجود تو ہے پر آٹے میں نمک کے برابر۔ زیادہ حصہ وہ ’’سیاسی‘‘ اجزا پر صرف کرتے ہیں۔ لیجیے صاحب‘ یہ اعتراض تو ایکسپائر ہو گیا کہ مولانا مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں انہوں نے انتخابات کی چوری کا بھی ذکر کیا۔ اس کالم میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ عمران خاں اس الزام سے بری ہیں وقوعہ کے وقت وہ تو گھر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جائے وقوعہ پر موجود ہی نہیں تھے۔ کچھ دیگر باتیں بھی کیں۔ ان کے ہمراہ بلوچ رہنما حاصل بزنجو بھی تھے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ ہم بلوچستان والے جام کو جام کر کے رکھ دیں گے۔ مبالغہ سے کام لیا۔ جام تو وہ ہستی ہیں جنہوں نے آتے ہی سارے بلوچستان کو جام کر کے رکھ دیا۔ ترقی جام‘ تعلیم جام‘ صحت جام‘ امن و امان جام۔ ایسے ’’سپر مین‘‘ کو جام کرنے کی دھمکی بے لحاظی اور بے قدری نہیں تو کیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ شاہی جوڑا پاکستان آیا ہوا ہے۔ گئے روز وفاقی وزیروں اور مشیروں کا ایک پورا دستہ عاشقوں کی بارات بن کر شرف زیارت حاصل کرنے گیا۔ سفارتخانے کی سکیورٹی نے ملنے نہ دیا۔ افسوس ۔ ایک محترمہ کو تو باقاعدہ ’’دست بستہ‘‘ کر کے واپس روانہ کیا گیا۔ عاشقوں سے ایسی بے اعتنائی آقائوں کے لئے اچھی نہیں۔ ویسے شاہی جوڑے نے پاکستان آ کر کیا کہا تھا؟ یہ کہ یہ ہمارا گھر ہے۔ جوڑا بھارت بھی گیا تھا۔ وہاں ایسی کوئی بات نہیں کی ۔